ملیالم زبان پر اُردو کے لسانی اور تہذیبی اثرات

کے۔ پی۔ شمس الدین، ترورکاڈ

کیرالا ہندوستان کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں کے باشندے یکساں طور پر ملیالم زبان نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ بولتے، لکھتے اور پڑھتے بھی ہیں۔ ایسی ریاست میں اُردو زبان کا ذوق وشوق رکھنا، اس کو پروان چڑھانا، اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اُردو تعلیم کا عام ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔ تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے بھی کیرالا بے حد اہمیت کی حامل ہے۔

ریاست کیرالا کسی زمانے میں تین صوبوں میں منقسم تھی، جو ملبار، کوچین اور ٹراونکور کے نام سے جانے جاتے تھے۔ تینوں صوبوں میں دور قدیم سے بولی جانے والی زبان ملیالم ہی تھی۔ یکم نومبر ۱۹۵۶ ء میں لسانی بنیاد پر یہ صوبے ضم ہوکر کیرالا کی صورت میں تشکیل پائے ہیں۔ ملیالم زبان کا تعلق دراوڑی خاندان سے ہے۔ تامل اور سنسکرت کے اثرات نے ملیالم زبان کو نکھارا اور سنوارا ہے۔ آہستہ آہستہ اس زبان میں انگنت عربی الفاظ داخل ہوئے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ عہدِ قدیم سے ہی عربوں کے ساحل ملبار سے روابط قائم تھے۔ عرب اور ہند کے تعلقات طلوعِ اسلام سے بہت پہلے سے تھے۔ عربوں کی تہذیب اور ثقافت کا اثر ملبار پر پڑتا رہا۔ ظاہر ہے کہ اُن کی زبان ’عربی‘ کا اثر بھی ملیالم پر لازماً پڑے گا اور اس طرح عربی کے کئی الفاظ ملیالم میں داخل ہوتے چلے گئے۔

ہندوستان کی پہلی مسجد بنام ’چیرامان مسجد‘ بھی ملبار کے کوڈنگلور میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد ۶۲۹ ء میں حضرت مالک دینارؓ نے تعمیر کی تھی۔ کیرالا پر اسلامی تہذیب یا عربوں کی تہذیب اور عربی اور عربوں کا اثر ملیالم پر ہونے کی کئی وجوہات میں سے بہت بڑی وجہ اسلام کی آمد بھی تھی۔ عربوں کے ملبار سے تعلقات کی وجہ مذہب یا توسیعِ سلطنت نہیں تھی بلکہ تجارت تھی اور یہ تجارت کا سلسلہ پرتگیزوں کے ملبار پر حملہ کرنے تک جاری رہا۔

پرتگیز ملاح اور اُن کی مہم ۱۱؍ مئی ۱۴۹۸ ء کو ساحلِ ملبار کالی کٹ پہنچ کر یہاں کے راجہ سامودری سے دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں۔ وہ عربوں سے تجارت کا سلسلہ ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن سامودری ان کی ہدایت قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے پرتگیز شہرِ کالی کٹ پر حملہ کرکے بے حد نقصان پہنچاتے ہیں۔ سامودری راجہ کے بحری بیڑے میں تمام ملازمین اور افسران مسلمان تھے۔ اس کا امیر البحر ایک مسلمان بنام ’کنحالی مرکار‘ تھا دونوں فریقین میں خوب لڑائی ہوئی۔ پرتگیز حملہ آوروں کا منہ توڑ جواب دینے میں کنحالی مرکار اور اُن کی فوج بہت حد تک کامیاب ہو جاتی ہے۔ لیکن پرتگیزوں کے جدید ہتھیاروں کے سامنے یہ مات کھا جاتے ہیں۔ اس درمیان  ۱۵۳۰ ء میں کالی کٹ کے چالیام مقام پر پرتگیز خاموشی سے ایک قلعہ بنا لیتے ہیں۔ اس قلعہ پر فتح پانے کے لیے سامودری راجہ بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت سے فوجی امداد کی درخواست کرتا ہے۔ جسے قبول کرتے ہوئے عادل شاہی سلطنت ہزاروں کی تعداد اپنی فوج کو کالی کٹ روانہ کرتی ہے اور بالآخر ۱۵۷۱ ء میں چالیام کے قلعہ پر فتح پالیتی ہے۔ بیجاپور سے آئے ہوئے فوجیوں کی زبان دکنی اُردو تھی۔ اس فوج کے بیشتر فوجی اپنے خاندان سمیت ملبار میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ انہی کی آمد سے کیرالا میں اُردو کی آمد ہوتی ہے۔ ملبار کے باشندوں سے اختلاط کا بہت گہرا پڑتا ہے۔ یہی وہ طریق عمل تھا جس کی بدولت اُردو کے کئی الفاظ ملیالم میں داخل ہوئے ہیں۔

ملیالم زبان پر اُردو کا راست اثر اُس وقت پڑا جب ملبار پر حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی حکومت قائم ہوئی۔ ۱۷۵۷ ء میں پالگھاٹ کے حکمراں سروپ اٹی کومبی اچن کی ملبار آنے کی درخواست پر میسور سے حیدر علی اور ان کی فوج پہلی مرتبہ ملبار پہنچتی ہے۔ سامودری راجہ پالگھاٹ کے سروپ سے کیے ہوئے معاہدے سے منحرف ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے سروپ حیدر علی سے مدد مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس بنا پر ۱۷۶۶ ء میں حیدر علی اور ان کی فوج دوبارہ ملبار کا رخ کرتی ہے اور فوج کشی کرکے ملبار کو اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے۔ ۱۷۷۳ ء میں ملبار، کوچین اور ٹراونکور صوبوں پر حیدر علی اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔

لِسانی اعتبارسے اُردو کے تعلق سے یہ ایک بڑا انقلاب تھا۔ ٹیپو سلطان اور اُن کی فوج کی کیرالا آمد سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اُردو الفاظ ملیالم میں داخل ہوئے۔ کیرالا کے مسلمان شافعی مسلک کے تھے۔ یہاں آنے والے دکنی اور پٹھان زیادہ تر مسلمان ہی تھے جوکہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس وجہ سے ٹیپو سلطان  کے دور میں کئی دکنی دینی مدارس قائم ہوئے۔ ان مدارس کا ذریعہ تعلیم اُردو تھا۔ ان مدارس میں موپلا مسلمان بچے بھی شامل تھے۔ دکنی اور موپلا مسلمانوں کے درمیاں شادی بیاہ کے رشتے بھی ہونے لگے۔ یہ سب ایسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے اُردو الفاظ بڑی تیزی سے ملیالم میں دخیل ہوکر ضم ہوگئے اور الفاظ کے تبادلے کچھ اس طرح ہوئے کہ ملیالم زبان میں اُردو کے کون کون سے الفاظ ہیں، کیرالا کے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ٹراونکور میں بھی کچھ اس طرح کے طریقِ عمل سے ہی اُردو الفاظ ملیالم میں داخل ہوئے۔ ٹراونکور کے راجہ، مہاراجہ دکنی اور پٹھان مسلمانوں پر بہت زیادہ بھروسہ اور اعتماد رکھتے تھے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ مسلمان جان دے سکتے ہیں لیکن نمک حرامی اور غداری نہیں کر سکتے ہیں۔ ملک کے لیے شہید ہو جائیں گے لیکن غداری نہیں کریں گے۔ اسی وجہ سے ٹراونکور کی فوج میں زیادہ تر دکنی اور پٹھان لوگ تھے۔ ٹراونکور کے راجاؤں کے آرکاٹ کے نوابوں سے قریبی مراسم تھے۔ یہ تعلقات ۱۷۶۰ ء میں مزید بڑھ گئے تھے۔ جب ٹراونکور کے چند اختیارات آرکاٹ کے نواب محمد علی کے ذمہ آئی۔ ان سب کے اثرات کیرالا کی بولی پر پڑتے گئے اور چنگی، میدان، دربار، بہادر جیسے الفاظ سے ملیالم زبان مالامال ہونے لگی۔

ملیالم میں اُردو الفاظ کے داخل ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار الفاظ کے معنی سمجھنے میں نہ صرف عام لوگوں کو بلکہ خاص لوگوں یعنی حاکموں کے متعلقین کو بھی ان دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اسی لیے راجہ کے حکم سے اُردو ملیالم لغت تیار کی گئی۔ جس میں اُردو کے الفاظ ملیالم رسم الخط میں تھے اور معنی بھی ملیالم میں تھے۔ پتّوں پر لکھ کر تیار کردہ اس لغت کے مصنف کے نام کا اب تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ یہ لغت راجہ سواتی ترونال کے دور (۱۸۲۹ ء تا ۱۸۴۷ ء) میں تیار کی گئی تھی۔ کیرالا یونیورسٹی ترونندپورم کی مخطوطاتی لائبریری (کاریاوٹم) میں آج بھی اس لغت کا ایک نسخہ دیکھا جا سکتا ہے جس کا نمبرF6079ہے۔

ٹیپو سلطان کے اختیارات میں ملبار آجانے کے بعد وہ کالی کٹ سے ہٹ کر ایک نیا دارالخلافہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے کالی کٹ سے دور ایک ساحلی علاقے پر اپنی فوج اور عام لوگوں کو آباد کیا۔ یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا، اس مقام کو اُردو نام فرخ آباد دیا، ان دنوں ’’فرخ‘‘کو ’فروک‘ نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے ملبار میں محصول وصول کرنے کی ذمہ داری کونڈوٹی مقام کے سید شاہ تھنگل کے ذمہ سونپی تھی۔ جو بمبئی کے قریبی علاقہ کلیان سے آئے ہوئے تھے۔ عربی، فارسی اور مراٹھی کے ساتھ ساتھ اُردو بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ ۱۷۹۴ ء ٹیپو سلطان کا شائع کردہ ’فوجی اخبار‘ بھی ملبار کے کونڈوٹی میں شاہ تھنگل کے پاس پہنچنے لگا تھا۔

کوچین کے راجہ اور ان کے وزراء نے ٹیپو سلطان سے اپنے تعلقات مزید بڑھانے اور پختہ کرنے کے لیے اُردو زبان سیکھنے کی غرض سے اپنے ترپونی ترا کے محل میں ایک کمرہ مختص کیا تھا۔ یہاں بمبئی اور حیدرآباد کے ماہرین اساتذہ اُردو سکھانے کے لیے آیا کرتے تھے۔ جنہیں یہاں کیرالا میں اُردو منشی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ ۱۹۳۰ ء تک جاری رہا گویا کہ ان سب تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر اُردو زبان کا اثر ملیالم پر اس قدر پڑا کہ اُردو الفاظ ملیالم کے اپنے الفاظ ہوکر رہ گئے۔

Law اور Revenue میں چھاپہ، انعام، ردّ، تحصیل دار، وصول، گھیراؤ، سرکار، ہڑتال، بند اور فرمان وغیرہ Food and Drinks میں چائے، شربت، اچار، بریانی، لڈو، بوٹی، آٹا، پلاؤ، ناشتہ، شیرینی Relation and Religion میں معمول، اماں، ماموں، صوفی، بیوی، صاحب، ملا، مولوی، مینار اور ٹوپی وغیرہ Household and Office میں الماری، حاضر، کچرا، رسید، چابی، رومال، لنگی، شال، سوئی اور برآمدہ وغیرہ۔ یہ فہرست کافی طویل ہے۔ مارچ ۲۰۱۲ ء میں نیشنل مشن فار مانواسکرپٹ، نئی دہلی نے کالی کٹ یونیورسٹی میں ۳۰ روزہ ورکشاپ منعقد کیا گیا تھا۔ اس ورکشاپ میں ’’اُردو لون ورڈس ان ملیالم‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ تیار کرکے شعبہء عربی (کالی کٹ یونیورسٹی) نے شائع کیا تھا، مندرجہ بالا فہرست اسی کتابچے سے ماخوذ ہے۔

کیرالا میں ملیالم کی اوّلین لغت ایک جرمن پادری ڈاکٹر ہرمن گُنڈرٹ نے تیار کی تھی۔ ملیالم انگریزی کی اس لغت میں کئی اُردو الفاظ ہیں جو ملیالم میں مشترکہ طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ گُنڈرٹ اُردو زبان سے بھی واقف تھا۔ اس لغت میں اُردو الفاظ کے سامنے (ہندوستانی) کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ لغت ۱۸۷۳ ء میں ’گُنڈرٹ نگھنڈو‘ کے نام سے تلاشیری سے شائع کی گئی۔ اس لغت سے بھی ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ملیالم میں کس قدر اُردو الفاظ داخل ہوتے ہیں۔

کیرالا میں تلاشیری ایک ایسا مقام ہے جسے کسی زمانے میں اُردو کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔ تلاشیری میں کچی میمن اور دکنی لوگوں کی بڑی آبادی تھی۔ یہ اُن کی تجارت کا مرکز بھی تھا۔ تلاشیری مسلم سیاست کا بھی مرکز تھا۔ یہاں کے حاجی عبد الستار اسحٰق سیٹھ مسلم لیگ کے نامور رہنما تھے۔ وہ اُردو زبان کے فروغ میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ انہی کی بدولت ملبار میں اُردو کی ترقی ہوئی اور انہوں نے اُردو زبان کی ترویج و اشاعت کی کوشش کی۔ ۵؍ ستمبر ۱۹۳۱ ء میں ’انجمن اصلاح اللسان‘ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی۔ ’بابائے اُردو مولوی عبد الحق، مولانا ظفر علی خان اور سیمابؔ اکبر آبادی جیسی شخصیات اس ادارے میں تشریف لا چکی ہیں۔ مولانا ظفر علی خان کی ہدایت کے مطابق اپریل ۱۹۳۸ ء میں ’نارجیلیستان‘ کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا گیا۔ یہ کیرالا کا اوّلین اُردو رسالہ تھا۔ اس کے سرورق پر سیمابؔ اکبر آبادی اور مولانا ظفر علی خان کے یہ اشعار شائع ہوئے ہیں؎

وسعتیں مل جائیں گی اُردو کو اس میدان میں

با ثمر ہوگی یہ کوشش نارجیلیستان میں

(سیمابؔ اکبر آبادی)

نارجیلیستان میں نخلستانِ بطحا کا سماں

دیکھنا ہے اگر اِن آنکھوں سے تو ملابار چل

(مولانا ظفرؔ علی خان)

مولانا محمد علی جوہرؔ کی خلافت تحریک اور مسلم لیگ کا قیام اُردو زبان اور ملیالم کو بہت قریب لانے کا سبب بنے۔ خلافت تحریک نے کیرالا کے کئی لیڈران کو اُردو سیکھنے پر مجبور کردیا تھا۔ ملبار میں خلافت تحریک کے قایدین اُردو اخبارات کے خریدار تھے وہ انہیں اخباروں کے ذریعے خلافت تحریک کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۲۴ ء میں کانگریس رہنما محمد عبد الرحمن صاحب نے ’الامین‘ کے نام سے ایک اخبار جاری کیا۔ جس میں کیرالا کی خبروں کے علاوہ باقی تمام خبریں اُردو سے ترجمہ شدہ ہوتی تھیں۔ الامین کے دفترمیں باقاعدہ اُردو سیکھنے کا انتظام تھا۔ ۲۶؍ مارچ ۱۹۳۲ ء میں تلاشیری سے چندریکا کے نام سے ایک اخبار جاری ہوا۔ یہ اخبار آج بھی مسلم لیگ کا ترجمان ہے جو کہ آج بھی بلا ناغہ شائع ہورہاہے۔ چندریکا اخبار میں اُردو سے ترجمہ شدہ خبروں کے علاوہ مضامین، کہانیاں اور افسانے شائع ہوا کرتے تھے۔ اُردو کے تراجم سے ملیالم ادب بھی متاثر ہونے لگا تھا۔

کیرلا کے سماجی حالات اور غربت نے لوگوں کو تلاش معاش کے سلسلے میں ہندوستان کے دوسرے صوبوں کی ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس سلسلے میں زیادہ تر لوگ ملبار سے بمبئی اور کراچی پہنچے۔ ان شہروں سے تجارت اور آمد ورفت ہونے لگی، جس سے بمبئی اور کراچی کی عام بول چال کی زبان کا اثر ملیالم پر پڑنے لگا۔ اس دور میں ماپلا مسلمان مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ویلور ’باقیات الصالحات، لطیفیہ، عمرآباد دارالسلام اور دارالعلوم دیوبند‘ جیسی درس گاہوں کا رخ کرنے لگے۔ وہ دینی طلبا جب مولوی اور مولانا بن کر ملبار لوٹے تو اپنے ساتھ اُردو بھی لائے۔ ان کے ذریعے بھی یہاں کی دینی درس گاہوں میں اور یہاں کی عام بولی پر بھی اُردو کا اثر پڑا ہے۔

ادبی اعتبار سے اُردو ملیالم پر اثر انداز ہونے لگی۔ خاص طور پر موپلا مسلمان رسم الخط کے طور پر استعمال ہونی والی ’عربی ملیالم‘ قدیم زمانے میں موپلا مسلمان ملیالم رسم الخط سے استعمال نہیں کرتے تھے۔ یہاں تجارت کے لیے آنے والے عرب تاجروں نے اُ ن کی اپنی زبان عربی رسم الخط میں ملیالم لکھنے کا رواج ڈالوایا۔ جو کہ ’عربی ملیالم‘ کی بنیاد ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ۱۹۰۰ ء میں جب ’عربی ملیالم‘ کے حروفِ تہجی کو جدید شکل دی گئی تو اس وقت اُردو کے پ، ٹ، چ، ڈ، گ جیسے حروف کو جوڑ کر جدید حرف تہجی کی تشکیل ہوئی۔ یہ کارنامہ مولانا چالیلکت کنجی احمد حاجی نے انجام دیا تھا۔ انہوں نے ’عربی ملیالم‘ کے حروف تہجی کے لیے ’تصویر الحروف‘ کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی تھی۔ اس سے پہلے ’ہندوستانی زبان‘ کے نام سے اُردو سیکھنے کے لیے بھی ایک کتاب تیار کی تھی۔

عربی ملیالم اور ملیالم کے موپلا شعرا کی شاعری میں بھی اُردو الفاظ کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ کبھی کوزی کوڈ کو مُرغی کوڈ کہا گیا تو کبھی ’کیری کیما کوڈامُکالِل‘یعنی بہترین گھوڑے پر سوار ہوا۔ یہاں لفظ کوڑا گھوڑے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسی طرح کا ایک شعر ہے ’مکاوے وِٹو نبی پکا مدینہ تناوائی‘ یعنی مکہ چھوڑ کر بنی ﷺ پاک مدینہ پہنچے۔ یہاں لفظ پکا، پاک کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ملیالم کا اوّلین ناول ’اِندو لیکھا‘ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور چندو مینن کا لکھا ہوا یہ ناول ۱۸۸۹ ء میں شائع ہوا تھا۔ لیکن اس سے چھ سال قبل عربی ملیالم میں ’چہار درویش‘ کا ترجمہ شائع کیا گیا تھا۔ جو کہ فارسی اور اُردو سے ترجمہ تھا۔ ’’گل صنوبر‘‘ اور ’’امیر حمزہ‘‘ جیسے کئی قصے اور داستانوں کا عربی ملیالم میں ترجمہ ہوا۔ بعد میں یہ سب ملیالم رسم الخط میں بھی شائع کئے گئے۔ ان تراجم سے بھی ملیالم پر اُردو تہذیب کااثر ہونے لگا تھا۔ جب کیرالا میں ملیالم کے ساتھ اُردو جڑتی گئی تو اس طرح دیگر شعرا کے ساتھ اقبالؔ کا بھی تعارف ہونا لازمی تھا۔ ۱۹۲۲ ء میں کالی کٹ سے ملیالم میں ایک مجلّہ ’اقبال ٹیگور گرنتھاؤلی‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا ہے۔ اس جملے کا مقصد علامہ اقبالؔ اور ٹیگورؔ کی تخلیقات کو ملیالم میں عام کرنا تھا۔ بعد ازاں علامہ اقبالؔ پر کئی مضامین اور متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ کیرالا کے ماہرِ اقبالیات جناب عبد صمد صمدانی صاحب نے کالی کٹ میں علامہ اقبال انڈین ہیومینٹرین اکادمی قائم کرکے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اقبال کی تخلیقات کے یہاں سے ملیالم تراجم شائع ہوتے ہیں۔ یہ ملیالم کے قلم کاروں کو اقبالؔ کے تعلق سے کئی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ غالبؔ پر بھی ملیالم میں کتابیں شائع ہوئی۔ اُن کی غزلوں کا بھی کئی ایک تراجم شائع ہوئے ہیں۔

آج ملیالم پر اُردو ادب کا اتنا گہرا اثر ہوا ہے کہ اب ملیالم میں غزلیں لکھنے کا رواج شروع ہو چکا ہے۔ یہاں کے مشہور ومعروف ملیالم شاعر او۔ این۔ وی۔ کُرپ ملیالم میں غزلیں لکھ کر شائع کرتے ہیں۔ اُومبائی (ابراہیم) جیسے ملیالم غزل گلوکار بھی کیرالا کے لیے باعثِ فخر ہیں۔ ملیالم پر بھی اُردو گیتوں اور غزلوں کا اثر اس سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ اُردو گیتوں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ گلوکاروں نے بھی خصوصاً محمد رفیع، طلعت محمود اور مناڈے وغیرہ نے ملیالم پر اُردو کا بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ملیالم فلموں میں اُردو گیت اور غزل ہندوستانی سنگیت پر مبنی نغموں اور قوالیوں سے بھی ملیالم زبان اثر پذیر ہوئی ہے۔ ۴؍ جولائی ۲۰۰۶ ء ریلیز ہونے والی ملیالم فلم ’’کیرتی چکر‘‘ کا گیت کچھ اس طرح ہے:

خدا سے منت ہے میری  

لوٹا دے وہ جنت میری

وہ امن وہ چمن کا نظارہ 

او خدایا لوٹا دے کشمیر دوبارہ

گویا کہ آج اُردو کو ملیالم سے علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لسانی طور پر اُردو کے الفاظ ملیالم میں کچھ اس طرح ضم ہوگئے ہیں کہ ملیالی اسے اُردو الفاظ نہیں سمجھتے۔ کیرالا میں ہر خاص وعام اور تمام مذاہب کے لوگ یکساں طور پر ملیالم بولتے ہیں۔ یہ زبان کبھی تعصب یا فرقہ واریت کا شکار نہیں ہوئی۔ اسی لیے زبان میں سنسکرت اور تامل کے بعد سب سے زیادہ دخیل الفاظ عربی اور اُردو کے ہیں۔ اس بات پر کسی بھی ملیالی ادیب یا قلم کاروں کو کبھی کوئی شکایت یا اعتراض نہیں رہا ہے۔

حسرتؔ موہانی کے دیے ہوئے نعرے کی گونج ہندوستان میں سب سے زیادہ کہیں سنائی دیتی ہے تو وہ کیرالا میں ہی ہے۔ کیرالا میں بائیں محاذ کی سیاسی پارٹیوں کا نعرہ ’انقلاب زندہ باد‘ ہے۔ لیکن ان سیاسی پارٹیوں کی بولی ملیالم ہے۔ گویا کہ کیرل کی ملیالم زبان میں اُردو کا اثرورسوخ سیاست، سماج، تہذیب اور ثقافت کے میدان میں بھی یکساں طور پر نمایاں ہے۔

اُردو کے مشہور شاعر کلیم ضیاؔ کے دو اشعار سے اپنی بات مکمل کرتا ہوں:

ملیالی میں بھی اب تو آواز آ رہی ہے

ہے کون سی زبان جو نغمے سُنا رہی ہے

کیرل پہ دھیرے دھیرے سکّے جما رہی ہے

اُردو یہاں پہ اپنے جلوے دِکھا رہی ہے

تبصرے بند ہیں۔