سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

جنگ آزادی کے مرد مجاہد اور ملت کے لیے تڑپنے پھڑکنے والے صوفئ با صفاجنہیں مسلمان شیخ ا لہند کے نہایت اونچے لقب سے پکارا کرتے تھے، اسارتِ مالٹا کے زمانہ میں جب اس درویش صفت مردِ قلندر نے مسلمانوں کی ہمہ گیر زبوں حالی کے اسباب پر جیل کی تنہائیوں میں خوب سوچ بچار کیا تو اسے صرف دو سبب نظر آئے، ایک قرآن مجید سے دوری، دوسرا مسلمانوں کا آپسی انتشار، مسلمانوں کی بیماریوں سے متعلق ملتِ اسلامیہ کے اس نباض حکیم نے جو تشخیص فرمائی وہ سو فیصد درست ہے، مسلمانوں کا آپسی انتشار ان کی جڑوں کو کس قدر کھوکھلا کررہا ہے، اور پوری دنیا میں انہیں کس قدر بے وزن بنادیا ہے، اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ، قرآن نے آج سے قریب پندرہ سو سال قبل کہا تھا کہ آپسی نزاع کروگے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، قرآن کے اس بیان کی صداقت دیکھنی ہو تو عالم اسلام کی موجودہ صورتِ حال کا ایک سرسری جائزہ کافی ہے، اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے نظریاتی اختلافات کو خوب ہوا دے کر انہیں آپس میں بھڑانے کا جو خواب برسوں سے دیکھ رہی تھیں اور جس کے لیے انہوں نے طویل منصوبہ بندی کی تھی، آج ان کے یہ منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوتے نظر آرہے ہیں، پورا مشرق وسطیٰ بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے، عالم اسلام دو بلاکوں میں تقسیم ہوچکا ہے، ایک سنی اور دوسرا شیعی بلاک، شیعہ سنی تنازعہ عالم اسلام کا کوئی نیا تنازعہ نہیں ہے، صدیوں سے چلا آرہا ہے، لیکن اسلام دشمن طاقتیں اور یہود ونصاریٰ اس تنازعہ میں شدت پیدا کرکے ملتِ اسلامیہ کے ان دونوں دھڑوں کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کا جو خواب برسوں سے دیکھ رہے تھے وہ اب وسیع پیمانے پر شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے، سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی صرف دو ملکوں کا مسئلہ نہیں؛ بلکہ امتِ مسلمہ کے دو دھڑوں کا تصادم ہے، اور یہ تصادم اچانک نہیں پیدا ہوا؛ بلکہ اس کے لیے دشمنوں کی جانب سے طویل منصوبہ بندی کی گئی، اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ در اصل اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جو اسرائیل کے بانیوں نے کی تھی، اور جس کی مکمل پشت پناہی دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت کررہی ہے، اسرائیل کے تحفظ اور عظیم تر اسرائیل کے قیام کے لیے صہیونی دماغوں نے جو منصوبہ بنایا تھا اس میں عراق کے خاتمہ کو سر فہرست رکھا گیا تھا، اس لیے کہ عراق عرب ریاستوں میں سب سے زیادہ مضبوط اور عسکری لحاظ سے قابل رشک ریاست تھی، عراق کی شکست وریخت کے بعد اب عملاً عراق تین حصوں میں تقسم ہوچکا ہے، شیعی عراق، سنی عراق، کردعراق، عرب ریاستوں کو فرقوں اور مسالک کی بنیاد پر پارہ پارہ کرنا اسرائیل کی محافظ طاقتوں کا دیرینہ خواب ہے، عراق میں بہت جلد یہ تین الگ الگ ریاستیں وجود میں آئیں گی، عراق کے بعد شام کا نمبر تھا، چنانچہ شام کی تقسیم کے لیے جس قسم کے حالات درکار تھے وہ پیدا ہوچکے ہیں، شام کے ٹکڑے اس طرح ہوں گے کہ ساحلی پٹی کے ساتھ علوی ریاست قائم ہوگی، حلب کے علاقہ میں سنی حکومت بنے گی، اسی طرح دمشق کے علاقہ میں ایک اور سنی ریاست قائم ہوگی جو شمال میں واقع علوی ریاست سے لڑتی جھگڑتی رہے۔
مسلم ملکوں کے حصے بخرے کرکے انہیں اسرائیل کی طفیلی ریاستیں بنانا صہیونی منصوبہ سازوں کا وہ دیرینہ خواب ہے، جس کا تذکرہ اس دستاویز میں بھی کیا گیا ہے، جو ۱۹۸۲ء میں عالمی صہیونی تنظیم کے ترجمان جریدہ میں شائع ہوئی تھی، جریدہ کا عبرانی نام ’’کیوونم‘‘ ہے، جس کے معنی سمت ہدایت کے آتے ہیں، مسلکی اور نسلی بنیادوں پر عراق کی تقسیم کی پیشین گوئی اسرائیل نے اس وقت کی تھی جب ۱۹۸۲ء میں صدام حسین کو حکومت سنبھالے چار سالہ عرصہ ہوا تھا، ۲۱؍ سال بعد ۲۰۰۳ء میں مغربی طاقتوں نے صدام حسین کا خاتمہ کردیا ،اس وقت عراق کا وہی نقشہ ہے جسے اسرائیل نے ۱۹۸۲ء میں بنایا تھا، مشرق وسطیٰ میں جاری شورش کے تئیں امریکہ کا موقف بظاہر حیرت انگیز ہے، لیکن اصلا صہیونی منصوبے کے عین مطابق ہے، امریکہ کہیں ایران کا ساتھ دے رہا ہے اور کہیں اس کی مخالفت، عراق میں داعش کے خلاف امریکہ ایران کے ساتھ ہے، اور سفاک بشار الاسد کا بازو بنا ہوا ہے، اس کے بر خلاف یمن میں وہ سعودی عرب کا حمایتی بناہوا ہے، جب کہ تیسری جانب داعش وہ کام کررہی ہے جو اسرائیل کے بھی بس میں نہ تھا، یعنی وہ بیک وقت شام اور ایران سے ٹکر لے رہی ہے،اور عراق میں شیعہ حکومت کی نیند حرام کرچکی ہے، یمن میں ایران حوثیوں کے لبادے میں سنی سعودی عرب سے برسرپیکار ہے،یمن میں جاری لڑائی محض اقتدار کا کھیل نہیں ہے؛ بلکہ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر شیعہ سنی کشمکش ہے، ایران ہزار تردید کرے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ سنی اکثریتی ملکوں میں موجود شیعہ اقلیت کو پریشر گروپوں کی شکل میں ابھار رہا ہے، جس طرح لبنان میں حزب اللہ ایران کی ذیلی تنظیم بن چکی ہے اسی طرح یمن میں حوثی شیعہ ایران کی بھر پور مدد پارہے ہیں، ایران،سعودی عرب اور بحرین وغیرہ سنی اکثریتی ملکوں میں شیعہ عنصر کو طاقتور بنانا چاہتاہے، کون نہیں جانتا ہے کہ یمن میں حوثیوں کے زیر استعمال ایرانی ہتھیار ہیں،ایران اور سعودی عرب اگر اسرائیلی نقطۂ نظر سے حالات کا جائزہ لیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ امریکہ ان میں سے کسی کا بھی دوست نہیں ہے، اسے صرف اپنا نشانہ حاصل کرنا ہے، اور وہ اسرائیل کی وسعت اور اس کا استحکام ہے، اس پورے کھیل میں صرف اسرائیل کا فائدہ ہے، اسرائیل کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے، شام سے لیکر عراق تک اور صنعاء سے عدن تک ہر جگہ مسلمان،مسلمان کا خون بہا رہا ہے، کیسا عجیب منظر ہے کہ مارنے والے بھی نعرۂ تکبیر لگارہے ہیں او رمرنے والے بھی کلمہ پڑھ کر جان دے رہے ہیں، جو سنی شیعہ کو قتل کررہے ہیں وہ بھی امریکہ اور اسرائیل کو خوش کررہے ہیں اور جو شیعہ سنیوں کو تہہِ تیغ کررہے ہیں وہ بھی اسلام دشمنوں کا کلیجہ ٹھنڈا کررہے ہیں، عالمی صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے عظیم تر اسرائیل کی جو حدیں مقرر کی تھیں وہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہیں، جس میں لبنان، شام، اردن، عراق اور سعودی عرب کے مختلف علاقے شامل ہیں، عراق میں جو کچھ کیا گیا وہ 2006ء میں لبنان میں دہرایا جاچکا ہے، اسی طرح 2011ء میں لیبیا بھی اس مرحلہ سے گذر چکا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جاری خانہ جنگی اور اس کے سنگین اثرات کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے، جو روزنامہ ’’اسلام‘‘ کراچی میں عرب ویب سائٹ وطن نیوز کے حوالے سے شائع ہوئی ہے، جس میں امریکی خفیہ محکمہ CIAکے ایک سابق ایجنٹ بل اسٹورٹ نے بتایا ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائی،حکومت او رعوام کے درمیان خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ فسادات میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوگا، بین الاقوامی اور علاقائی کوششوں کے باوجود خطے میں امن وامان کے قیام اور استقرار کا کوئی امکان نہیں ہے، کیوں کہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں میں اسلام پسند مسلح تنظیموں کی آڑ میں دونوں خطوں میں وسیع تر جغرافیائی تقسیم کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی کا ذریعہ ہیں، نیوز ویب سائٹ سانتاوی اور نیوز میکسکان کے مطابق عرب ملکوں کی تقسیم کی ابتداء 2011ء میں سوڈان سے کی گئی تھی، سوڈان کو شمال اور جنوب کے دو حصوں میں کامیابی سے تقسیم کرنے کے بعد افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے دیگر عرب ملکوں میں امن وامان کی خراب ہونے والی صورتِ حال اسی منصوبہ کو آگے بڑھانے کا حصہ ہے، 2011ء میں عرب خطہ میں شروع ہونے والی عرب بہار تحریک اسی منصوبے کی امریکی کوشش تھی، عرب بہار تحریک کے اثرات مطلوبہ ممالک تک پہنچائے گئے ہیں، اور مزید ملکوں تک انہیں پھیلانے کے لیے ابھی سازشیں جاری ہیں، افریقہ میں تقسیم کے خطرے سے دوچار ممالک میں نائجیریا، صومالیہ، ایتھوپیا، موریطانیہ اور لیبیا سرفہرست ہیں، جبکہ مشرق وسطیٰ میں عراق، شام، یمن، اردن،فلسطین، کویت اور بحرین سمیت سعودی عرب بھی نشانے پر ہے، CIA ایجنٹ کے تجزیے کے مطابق عرب ملکوں کی جغرافیائی تقسیم کے لیے وہاں موجود شیعہ ،سنی مسلکوں، قبائلی اختلافات ، اسی طرح سیکولر اور اسلام پسند نظریات کو ہوا دی جارہی ہے، عراق، شام اور یمن تنہا اس صورت حال کے شکار نہیں ہیں، تقسیم کے تلخ مرحلے سے عرب خطے اور عالم اسلام کے اہم ملک سعودی عرب کو بھی گزرناپڑے گا، مذکورہ رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے سابق فرمانرواشاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے بعد سعودی عرب میں حکومتی سطح پر شاہی خاندان میں عہدوں کی تقسیم وترتیب میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ، انہی کو بنیاد بنا کر سعودی عرب کے حکمراں خاندان میں اندرونی سطح پر اختلافات پیدا کئے جانے کی سازشیں ہورہی ہیں، سعودی جریدہ ’’سبق‘‘ کے مطابق سعودی عرب کے شاہی خاندان میں پھوٹ ڈالنے کی کی سازشیں عرب بہار کی ناکامی کے بعد سے شروع ہوئی ہیں، مغربی اور امریکی ذرائع ابلاغ سعودی عرب کے اندرونی معاملات کو بڑھاچڑھا کر پیش کررہے ہیں، سعودی عرب کے شہزادوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے کے لیے من گھڑت رپورٹیں شائع ہورہی ہیں، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی حالیہ توسیعی منصوبے میں صحابۂ کرام اور پیغمبر ا سلامﷺ سے منسوب خاص مقامات کو مسمار کرنے جیسے معاملات پرسعودی عرب کے اندر اور بیرونی دنیا میں نفرتیں پیدا کی جارہی ہیں، یمن میں شیعہ نظریات کی حوثی تنظیم اور عراق کی جانب سے داعش کے ذریعہ سعودی سرحدوں کے لیے خطرات بڑھائے جارہے ہیں، رپورٹ کے مطابق نئے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی جانب سے عہدوں کی تقسیم کو امریکی اور مغربی میڈیا مسلسل موضوع بنائے ہوئے ہے، سعود خاندان کے بعض شہزادوں کو امریکہ اور یورپ کی جانب سے لالچ دئے جانے کی خبریں بھی آرہی ہیں، شاہی خاندان سے باہر سعودی عرب کے مشرقی حصہ میں مقیم شیعہ آبادی کو استعمال کیا جارہا ہے، رپورٹ کے مطابق سمندری لحاظ سے سعودی عرب کا دروازہ سمجھے جانے والے ملک بحرین میں شیعہ سنی لڑائی کو خوب ہوا دی جارہی ہے، عرب ویب سائٹ المختصر کے مطابق اس تمام تر سازش میں بنیادی کردار امریکہ کا ہے، العربیہ ڈانٹ نیٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء میں بحرین اتھارٹیز نے منامہ ایئرپورٹ پر ایک امریکی کو ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر نقد کرنسی کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا، اسی سال بحرین میں تین مرتبہ بھاری رقومات کے ساتھ امریکی شہریوں کی گرفتاری ہوئی تھی، گرفتار شدہ امریکیوں سے پوچھ گچھ کے دوران انکشاف ہوا کہ امریکہ سعودی عرب اور بحرین کے امن وامان کو تباہ کرنے کے لیے حکومت مخالف تنظیموں کی فنڈنگ کررہا ہے، بحرین کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل خلیفہ بن احمد بن الخلیفہ امریکی ایجنسیوں کی اپنے ملک میں جاری سرگرمیوں کا اعتراف کرچکے ہیں، بحرین کی طرح کویت، عمان اور اردن بھی جغرافیائی تقسیم کے امریکی منصوبے کا ہدف ہیں، کویت کے بدؤوں کو گذشتہ تین سال سے اُکسایا جارہا ہے، یہ معاملہ اس قدر سنگین ہوچکا ہے کہ کویتی حکام نے دیڑھ لاکھ سے زائد بدؤوں کو افریقی ملک جزر القمر کی شہریت دینے کی صورت میں بھاری دولت سے سمیت تعلیم، صحت اور روزگار دینے کا وعدہ کیا ہے۔(بحوالہ روزنامہ ’’اسلام‘‘کراچی)
یہ وہ تحقیقی رپورٹ ہے جس کا ایک بڑا حصہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہ کی پیشین گوئی پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ اسلام دشمن مغربی ویب سائٹ میں بھی ان حقائق سے پردہ ہٹایا گیاہے، گذشتہ ایک دہائی سے مشرق وسطیٰ میں جس قسم کے حالات پیدا ہورہے ہیں، ان سے مذکورہ رپورٹ کی بھر پور تائید ہوتی ہے۔
پڑوسی ملک کے ایک معروف دانشور اور روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے کالم نگار نے اپنے ایک حالیہ کالم میں مشہور اسرائیلی صحافی اوڈڈ یائی نن کے اس طویل مضمون کا حوالہ دیا ہے جسے اسرائیلی دانشوروں نے اسرائیلی حکومت کا وژن قرار دیا ہے، یائی نن نے اپنے مضمون میں جو پلان پیش کیا ہے اس کی تعمیردو بنیادوں پر ہے، ایک یہ کہ اسرائیل کی بقا اس میں ہے کہ وہ وہ علاقہ میں سامراجی حکومت بن کر رہے، دوسرے یہ کہ موجودہ عرب ملکوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے، یہ تقسیم فرقہ وارانہ خطوط پر ہو، اور یہ ریاستیں آپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوں اور لامحالہ اسرائیل پر انحصار کریں، یائی نن اپنے مضمون میں ا یک جگہ لکھتا ہے :
’’مسلم عرب دنیا کاغذ کا بنا ہوا عارضی گھروندا ہے، اسے 1920ء کے عشرے میں غیر ملکیوں (برطانیہ اور فرانس) نے عوام کی رضامندی کے بغیر انیس (۱۹) ریاستوں میں بانٹ دیا تھا، ہر ریاست میں مختلف فرقے اور نسلیں ہیں ، جو ایک دوسرے سے مخاصمت رکھتی ہیں، چنانچہ آج ہر عرب ریاست اپنے اندر ہی سے فرقہ وار یت اور نسل پرستی کا سامنا کررہی ہے‘‘
اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے دشمن ملتِ اسلامیہ کے اندرونی انتشار کا بھر پور ادراک رکھتے ہیں، امریکہ اور اسرائیل میں ماہرین کی ایسی ٹیمیں مختص ہیں جن کا کام صرف مسلم ملکوں کے فرقہ وارانہ حالات کا جائزہ لیکر حکومت کو رپورٹ پیش کرنا ہوتا ہے، اسلام دشمن طاقتیں برسہا برس قبل منصوبہ بندی کرتی ہیں، پھر ایک طویل عرصہ تک اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تدبیریں کی جاتی ہیں، بالآخر مسلم ممالک کی تقسیم اور عالم اسلام کے حصے بخرے کی شکل میں ان کی کاوشیں کامیابی سے ہمکنار ہوکر رہتی ہیں، مثلا لبنان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی تیاری میں کئی دہائیاں لگائی گئیں، لبنان کی تباہی اور تقسیم ۱۹۱۹ء میں تجویز کی گئی، 1936ء میں اس کی منصوبہ بندی ہوئی، 1954ء میں اس کا آغاز ہوا، اور ۱۹۸۲ء میں یہ منصوبہ تکمیل کو پہونچا، یائی نن شام اور عراق کی فرقہ وارانہ صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے ان دونوں ملکوں کی تقسیم کے ا مکان پر یوں روشنی ڈالتا ہے:
’’شام، لبنان کی طرح مذہبی اور نسلی بنیادوں پر کئی ریاستوں میں تقسیم ہوجائے گا، ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ علوی ریاست قائم ہوگی، دمشق اور اس کے نواح میں ایک اور سنی ریاست ہوگی، جو شمال کی پڑوسی علوی ریاست کی مخالف ہوگی، دروزی اپنی الگ ریاست کے مالک ہوں گے، یہ تقسیم علاقے کے امن کی ضامن ثابت ہوگی، یہ نصب العین آج ہماری رسائی کے اندر ہے‘‘
پھر آگے چل کر لکھتاہے:
’’شام کی فوج میں اکثریت سنیوں کی ہے، جب کہ افسر طبقہ علیوں پر مشتمل ہے، عراقی فوج میں شیعہ اور افسر سنی ہیں، یہ تقسیم مستقبل کے لیے بہت اہم ہے، کیوں کہ طویل عرصے کے لیے ان فوجوں کی وفاداری کو قائم رکھنا ناممکن ہے، جس طرح جنوبی لبنان میں میجر سعد حداد کو اسرائیل نے پیسے اور اسلحہ دے کر لبنان کی وحدت کے خلاف استعمال کیا، بالکل اسی طرح شام میں بھی مناسب مدد تلاش کی جائے گی‘‘
پھر اُردن اور فلسطینیوں کے تعلق سے یائی نن لکھتا ہے:
’’ ہمیں امریکی یہودیوں کو بتانا ہوگا کہ وہ نصف ارب ڈالر کا بندوبست کریں، تاکہ اسرائیل کے فلسطینیوں کو عراق اور سعودی عرب میں آباد کیا جاسکے، اس کا کوئی متبادل نہیں ، عربوں کو اسرائیل خالی کرنا ہوگا‘‘(روزنامہ ’’دنیا‘‘کراچی)
مذکورہ تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت عالم اسلام جس انتشار اور تباہی سے دوچار ہے، وہ آنے والے دنوں میں مزید سنگین نوعیت اختیار کرتا جائے گا، خلافتِ عثمانیہ کا زوال بھی اسی قسم کے حالات سے جنم لیا تھا، دشمنوں نے عالم اسلام میں شیعہ ،سنی اختلاف کی گہرائیوں کا ادراک کرلیا ہے، امریکہ اور اس کے صہیونی کارندے نہ ایران کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی سنی مسلمانوں کے، انہیں صرف اسرائیل کے تحفظ اور اپنے مفادات سے مطلب ہے،ایران اور ظالم بشار کی پشت پناہی کرنے والا روس خطے میں اپنے مفادات کے لیے تگ ودو کررہا ہے، چین کے مفادات بھی عراق اور شام سے وابستہ ہیں، اب عالم اسلام کے شیعہ وسنی دھڑوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اہل مغرب اور یہود ونصاریٰ کو اپنا مشترکہ دشمن خیال کریں، اور برادر کشی کے سلسلے کو موقوف کریں، عراق وشام میں ہمیں لاکھوں جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا، اگر ایران اسد رجیم کا ساتھ نہ دیتا تو ان لاکھوں بے قصوروں کو ہلاکت سے بچایا جاسکتاتھا، ایران کو عرب سنی ممالک میں مداخلت کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا، ایران کی اس قسم کی پالیسی سے راست فائدہ اسرائیل اور اسلام دشمن مغرب کو ہوگا۔
یہ تو عالم اسلام کی صورتِ حال تھی، اب آئیے ذرا وطن عزیز کا بھی جائزہ لیں، موجودہ حکومت اور اس کی ہمنوا فرقہ پرست طاقتیں،ملک سے اسلام اور مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کا تہیہ کرچکی ہیں، انہیں اس ملک میں مسلمانوں کا اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ رہنا کسی صورت برداشت نہیں، اس کے لیے وہ ایک طرف یوگا، سرسوتی ، وندنا، سوریہ نمسکار، گھرواپسی اور سرکاری اسکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم اور و ندے ماترم جیسی چیزوں کو لاگو کرکے مسلم بچوں کے اسلامی تشخص کو خطرے میں ڈال رہی ہیں، دوسری طرف مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے کمزور کرنے ، ان میں پھوٹ ڈالنے اور ان کا شیرازہ منتشر کرنے کے درپے ہیں، مشہور بی جے پی لیڈر سبرا منیم سامی نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ہندوتوا یا ہندو راشٹر کے قیام کے لیے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالے بغیر چارہ کار نہیں، حالیہ دنوں میں حکومت کی سرپرستی میں دارالحکومت راجدھانی دہلی میں جو صوفی کانفرنس بلائی گئی تھی اس کا مقصد ملک کے دو بڑے مسلم گروہ یعنی دیوبندی وبریلوی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرنا تھا، چنانچہ کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس کا ایک پیراگراف یوں ہے:
’’وہابیت ایک الگ مذہب ہے، اور وہابی ایک الگ قوم ہیں، اسلام اور پیغمبر اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ یہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے باغی اور گستاخ ہیں، خوش عقیدہ صوفی سنی اور شیعہ مسلمان کو کافر مشرک اور بدعتی قرار دیتے ہیں، اور ان کا قتل حلال سمجھتے ہیں، اس لیے عرب وخلیج میں سنی شیعہ مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں، اور ان کی آبادیاں برباد کررہے ہیں، وہ سلفی اہل حدیث اور غیر مقلدین کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، دیوبندی علماء وقائدین کا تعلق بھی نظریاتی طور پر اسی گروہ سے ہے، اس لیے سنی وقف بورڈ سے اس کاتعلق غیر آئینی اور بے بنیاد ہے‘‘
اس اقتباس کا ایک ایک جملہ دوسرے مسلم طبقات سے شدید نفرت کی غمازی کرتا ہے، ایک طرف فسطائی طاقتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ ہم آنے والے انتخابات تک مسلمانوں کو مزیدانتشار سے دوچار کریں گے، اور ان میں تفریق پیداکرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کریں گے، دوسری جانب نادانوں کا ایک گروہ ہے، جو فرقہ پرستوں کا آلۂ کار بن کر ملتِ اسلامیہ میں تفریق کے بیج بورہا ہے، ان کا کوئی خطاب دوسروں سے نفرت کی تلقین سے خالی نہیں ہوتا، وہ جب بھی کچھ بولتے ہیں تودوسرے مسلم طبقات کے خلاف زہر ہی اگلتے ہیں، مسلکی منافرت کی کھیتی کو ان نادانوں کی جانب سے برسہا برس سے جو کھاد فراہم کی جارہی تھی، اب وہ برگ و بار لارہی ہے، پورے ملک میں مسلکی منافرت سرچڑھ کر بول رہی ہے، ملک کے مختلف گوشوں سے مسلکی تشدد کے حوالے سے جو اطلاعات آرہی ہیں، وہ انتہائی افسوسناک ہیں، اڑیسہ کے جلیشور ضلع کی جامع مسجد میں امامت پر جھگڑے کے مسئلے کو لیکر دو مسلکوں کے درمیان جم کر مار پیٹ ہوئی، جس میں دو درجن سے زائد مسلمان شدید زخمی ہوئے، اور مسجد میں پولیس تعینات کرکے اذان ونماز پر پابندی لگادی گئی، جھگڑے کے دوران شدید پتھراؤ کے نتیجے میں کئی نمازیوں کے سر پھٹ گئے، دونوں طرف سے ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، اس صورت حال سے پورے شہر میں حالات کشیدہ ہوگئے، ۱۱؍مارچ کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی، اسی قسم کا ایک واقعہ بنارس میں پیش آیا، جہاں دو الگ الگ مسلک کے ماننے والوں کے درمیان امام کے تقرر پر تنازع کے بعد مقامی انتظامیہ نے مسجد پر تالا لگادیا، خبر کے مطابق جب نمازِ جمعہ کی ادائی کے لیے ایک مسلک کے مسلمان مسجد پہنچے تو مین گیٹ پر تالا لگا تھا، امام کے معاملہ پر گذشتہ سال جولائی سے تنازعہ چل رہا تھا، اس سے قبل چھتیس گڑھ کی ایک مسجد میں دو مسلک کے لوگوں کے درمیان ہاتھا پائی کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی، رامپور میں ایک مسجد پر قبضہ کرنے کے لیے گھنٹوں فائرنگ کا المناک واقعہ پیش آیا تھا، پی اے سی نے مورچہ لیکر دونوں مسلک والوں پر قابو پایا تھا، راجستھان کے اودے پور میں ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان کی میت قبرستان میں دفن کیے جانے کے بعد دوسرے مسلک کے لوگوں نے اسے قبر سے نکال کر وارثین کے گھر پہنچادیا، بالآخر وارثوں نے اس میت کی تدفین دوسرے قریبی گاؤں کے قبرستان میں کرادی۔(سہ روزہ دعوت دہلی22؍ اپریل 2016ء)
ان معروضات کا مقصود ملتِ اسلامیہ کے باشعور افراد میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ مسلکی تشدد اور بین مسلکی بڑھتی ہوئی منافرت کے سد باب کے لیے حتی المقدور مختلف تدابیر استعمال کریں اور کسی بھی مسلک کے وہ علماء جو مسلکی منافرت کو ہوا دے رہے ہیں ،ان سے امت کے عام افراد کو آگاہ کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔