شاندار ماضی، حال کی تشویش اور مستقبل کی فکرمندی

جاوید جمال الدین

 ممبئی میں ایک کتاب کے رسم اجراء کی تقریب کے موقع پر مقررین، جن سیاستداں، دانشوروں ، مدبرین اور اعلیٰ پولیس افسران بھی شامل تھے، کی تقریروں نے جھنجھوڑکررکھ دیا، بظاہر اگر دیکھیں تو ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے، لیکن ان قدآور شخصیات کی باتوں سے فکرمندی اور تشویش کااظہار ہوتا ہے۔ دراصل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر انگریزی کےصحافی محمد وجیہ الدین کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پس منظر میں لکھی گئی کتاب کا رسم اجراء تھا۔

واضح  رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس سے قبل ایم  اے او کالج کی تاریخ دراصل بر صغیر  کی تعلیمی و تہذیبی اور اجتماعی ذہن و شعور کی تربیت کی تاریخ ہے، یہ وہ تاریخ ہے ، جس سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا اور خصوصاً اس خطے کے مسلمانوں کے ماضی  کو پڑھتے، سنتے، لکھتے یا دیکھتے ہوئے اے ایم یو کی تاریخ کو نظراندازکرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس خطے کے مسلمانوں کا  گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سو سال کا کوئی سا علمی، فکری، سماجی یا سیاسی شعبہ اس عظیم الشان ادارے کے بغیر ، اس کے اساس گزاروں کے ذکر و تذکار کے بغیر اور اس کے فرزندوں کو یاد کیے بغیر نامکمل اور ادھورا ر ہے گا۔

دراصل بات یہ ہے کہ کسی بارے میں اپنے کہتے ہیں تو زیادہ بھروسہ نہیں ہوتا ہے ، لیکن دوسروں کی زبان سے ملک کے بحرانی دور کا ذکر ہوتا ہے تو تشویش ہونالازمی ہے۔ مشہور صحافی، مفکر اور سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کے مشیر خاص سدھیندرکلکرنی کی زبان سے یہ جملہ کہ "سنگھ پریوار ملک کی تقسیم کی اور مسلم تاریخ کو مسخ کررہا ہے اور یہ ایک تشویشناک عمل ہے ۔ "تب فکرمندی ہونا لازمی ہے جب سابق ممبر راجیہ سبھا محمد ادیب یہ کہیں کہ "آج یوپی کی پولیس بجرنگ دل کی ایک ریجمنٹ کی طرز پر کام کررہی ہے "تو تشویش مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہم۔ یہ دیکھ بھی رہے ہیں کہ۔ یوپی پولیس کا رول جانبدارانہ رہا ہے، یہی حال دہلی پولیس کا بھی رہا ہے، جس کے لیے دہلی فساد میں کارروائی کی مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ تعریف کے پل باندھ رہے ہیں۔ شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے ہمیشہ دسہرہ کے موقعہ پر ممبئی کے شیواجی پارک میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ” پولیس کی وردی میں یہ میرے شیوسینک ہیں۔ ” اور  ممبئی کے 93-1992 کے فسادات میں پولیس کا رول جانبدارانہ رہا تھا۔ سری کرشنا کمیشن رپورٹ میں یہ ثابت ہواتھا۔ خیر یہ بجرنگ دل اور یوپی پولیس کے بارے میں ادیب صاحب کی بات پر مجھے بال ٹھاکرے کا دعوی یاد آگیا تھا۔

اگر ان باتوں پر غور کیا جائے تو یہ احساس ہوگا کہ واقعی ایسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا جو پہلے ملک میں نظر نہیں آتی تھیں۔ بی جے پی کو اقتدار حاصل ہونے کے بعد سنگھ پریوار نے سب سے پہلے تاریخ پر نظر دوڑائی جس انداز میں تاریخ کو مسخ کررہا ہے۔ وہ تشویشناک امر ہے۔ حالانکہ وطن عزیز کی آزادی کی جدوجہد میں ان۔ کا۔ کوئی رول نہیں رہا ہے، حالات یہ ہیں کہ گجرات میں گوڈسے کو آئیڈل بتا کر بچوں سے مضمون لکھوائے جارہے ہیں۔

بقول سدھیندرکلکرنی علامہ اقبال نے کبھی بھی ایک علیحدہ ملک کی وکالت نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ ہندوستا میں ہی ایک آزاد مسلم۔ ملک  کی وکالت کرتے تھے ، جبکہ حال میں غیر جانبدار عناصر کی تحقیق نے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ملک کی تقسیم کے لیے صرف  مسلمان ہی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ایسے افراد زیادہ ذمہ دار ہیں جو اقتدار کے وطن سے محبت کے بجائے ، اکثریت کواقتدار میں دیکھنے کے حق میں تھے بلکہ اقتدارکے پرستار رہے تھے۔ اس ملک میں ہندومسلم کے رشتوں کی گیارہ سوسال قدیم تاریخ ہے اور سنگھ پریوار کو اس کامطالعہ کرنا چاہیئے۔ ملک کی تقسیم سے سب سے زیادہ نالاں مولانا ابوالکلام آزاد تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کو ساتھ لانے کی کوشش کریں گے، لیکن مولانا آزاد اور پھرجواہرلال نہرو کے چلے جانے کے نتیجے میں یہ خواب پورا نہیں ہوسکا۔ مسلمانوں کا اس ملک پر اتناہی حق ہے ، جتنا دوسرے جتلاتے ہیں، اگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان مرچکے ہیں، تو یہ ان کے اور خود ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا اگر اس ملک میں مسلمان مرگیا تو ہندوستان کا۔ وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرناہوگاکہ ملک کے مسلمان کسمپرسی کی حالت سے دوچار ہیں اور حالت دیکھ کر تشویش ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی لڑائی عام۔ ہندو سے کبھی نہیں رہی ہے بلکہ ہندوفرقے میں سرگرم انتہا پسندوں  رہی ہے۔

ہمیں ان باتوں کو بھی تسلیم کرناہوگا کہ اس ملک پرمسلمانوں کا حق زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے ملک کی تقسیم کے موقع پر یہاں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آج کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ ایک ذی ہوش انسان کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے ، رات میں سونامشکل ہوگیا ہے۔ میں محمد ادیب کی۔ اس بات سے متفق ہوں کہ اکثریت کو مسلمانوں کے معاملات سے زیادہ خود اپنے ‘دھرم ‘ کو بچانے کی ضرورت ہے۔ جسے خطرے میں بتاکرمفاد پرست سیاست داں اپنا الو سیدھا کررہے ہیں۔ جہاں تک اقلیتی فرقہ کاسوال وہ پنکچر بناکرہی خوش وخرم رہتا ہے اور اگر اس نے پنکچر بنانا بندکردیا تو ان کی گاڑی کیسے چلے گی۔

مجھے یہ محسوس ہوتا ہے اور حال میں مغربی اترپردیش کے دورہ کے بعد یہ لگنے لگا ہے کہ اقلیتی فرقے نے اس مرتبہ صحیح معنوں میں الیکشن میں حصہ لیا ہے، ورنہ ماضی میں اس کا انداز الگ نظر آتا تھا، مسلمان  سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ذات ، برادری اور فرقوں میں تقسیم دکھائی دیتا تھا۔ اس بار اس نے جوش نہیں بلکہ ہوش مندی کاثبوت دیا ہے ، کسی فتوے اور کسے ووٹ دینا ہے کہ اعلانات کی طرف توجہ نہیں دی ہے، جوکہ خوش آئند امر ہے، پھر بھی ہمیں  نتائج کے لیے مارچ کے پہلے ہفتے تک کا انتظار کرنا ہوگا، ممکن ہے کہ اترپردیش ریاستی انتخابات کے نتائج دھارے کا رخ پھیردیں۔ اس کا احساس حک۔ راں پارٹی کو بھی ہوچکا ہے اور تقریروں اور بیانات میں نرم گوئی نظر آرہی ہے۔ لیکن زہر تو پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے اچھے اچھے لوگ مایوسی کا اظہار کررہے ہیں۔

ویسے بھی مایوسی کفر ہے، کیونکہ اس ملک کی اکثریت  سب جانتی ہے اور ہندوؤں کی اکثریت سب کو ساتھ لیکر چلنے کے حق میں ہے، اس لیے امید یہی ہے کہ تاریک رات کا جلدخاتمہ ہونے والا ہے۔ ہندوستان میں امن و چین اور بھائی چارہ رہا تو وہ دنیا سے بے چینی اور بحران کا خاتمہ کرنے کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، وہ حق بجانب ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ہندوستان میں ہمارے شاندار ماضی کو مسخ کرنے کی حتی الامکان کوشش جاری ہے اوراس لیے  حال کے تشویشناک حالات دیکھ کر مستقبل کی فکرمندی ظاہر ہورہی ہے۔ کیونکہ ذہنوں کوپراگندہ کیا جاچکا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔