تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

لمحات التنقیح فی شرح مشکوٰۃ المصابیح کا دیباچہ اہل علم کے نزدیک مقدمہ مشکوٰۃ کے نام سے معروف ومشہور ہے، یہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (۱۰۵۲-۹۸۵) بن سیف الدین کی علمی یادگار ہے، اس کی مقبولیت اور محدیثن کے نزدیک اس کی حاجت وضرورت کو دیکھتے ہوئے حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری ؒ نے اس دیباچہ کو مشکوۃ شریف کے شروع میں شامل کر دیا ، اس طرح وہ اب مشکوٰۃ شریف کا جزو لازم بن گیا، کیوں کہ احادیث کے مباحث اور اس کے مدارج اور مقام کا سمجھنا اصول حدیث کے علم کے بغیر ممکن نہیں اور یہ مقدمہ اپنی جامعیت کے اعتبار سے منفرد اوراختصار کے اعتبار سے اسے پڑھنا پڑھانا ، سمجھنا سمجھانا اور بآسانی حافظہ کی گرفت میں آجانا اس کا امتیاز ہے، اس لیے یہ مقدمہ ہر دور میں مقبول رہا ہے اور اسے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے ، تاکہ احادیث کے اصولی مباحث سے طلبہ کو اس قدر واقفیت ہوجائے کہ وہ نخبۃ الفکر اور اس جیسی دوسری کتابوں کو بآسانی سمجھ سکیں۔

 دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں بھی یہ مقدمہ نصاب کا جزو ہے، اس کی تدریس عام طور سے مفتی آفتاب عالم قاسمی کے ذمہ رہی ہے، جو ’’آفتاب بزمی‘‘ کے نام سے بھی  جانے جاتے ہیں، گیدر گنج، اندھرا ٹھاڑی ضلع مدھوبنی کے رہنے والے ہیں، گذشتہ آٹھ سالوں سے دار العلوم الاسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں، احادیث کی بعض کتابوں کی تدریس بھی ان کے ذمہ ہے جواں سال ہیں، علم پختہ ہے، مطالعہ کا شوق ہے اور حاصل مطالعہ کو جمع کرنے اور اس میدان میں کچھ کر گذرنے کا جذبہ بھی جواں ہے، لکھتے پڑھتے رہے ہیں اور چیزوں کو مرتب انداز میں پیش کرتے ہیں، تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ کو میں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، شرح دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مفتی آفتاب عالم کے علم میں گہرائی بھی اور گیرائی بھی ، اس علمی انحطاط کے دور میں طلبہ عربی شروحات کے بجائے اردو شرح سے مستفیض ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں، گو اس سے اصل ماخذ سے علم کے حصول میں انحطاط ہوتا ہے، لیکن کیا کیجئے اب تو یہ ایک ضرورت بن گئی ہے ، اور آسان ترین کتابوں کی شروحات بھی لکھی جا رہی ہیں، میں نے اردو کی چوتھی کی شرح دیکھی ہے، اور ہمارے ایک بزرگ نے شرح قواعد بغدادی بھی لکھی تھی ، مقدمہ مشکوٰۃ تو بڑی ارفع واعلیٰ چیز ہے، اس لیے مفتی آفتا ب عالم قاسمی کی اس اردو شرح کو طالب علموں کی ضرورت سمجھنا چاہیے اور طالب علم ہی کیا ، مولانا نے جو انداز اختیار کیا ہے اور جس طرح اصل متن پر اعراب لگا کر با محاورہ ترجمہ کیا ہے، پھر الفاظ کی تحقیق کی ہے، اصل متن پر جو کلام کیا ہے وہ اساتذہ کے لیے بھی مفید ہے، اساتذہ بھی تو اسی دور انحطاط کی پود ہوتے ہیں اور ان کی ضرورتیں بھی اس شرح سے پوری ہوتی نظر آتی ہیں، میں نے بعض اساتذہ کو اردو شرح سامنے رکھ کر پڑھاتے بھی دیکھا ہے، مفتی آفتاب عالم قاسمی ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ہم سب کے لیے علمی بھرم قائم رکھنے کا سامان بہم پہونچا دیا ہے۔

کتاب ایک سو چوراسی صفحات پر مشتمل ہے، مکتبہ صوت القرآن دیو بند نے شائع کیا ہے ، قیمت درج نہیں ہے، اس لیے مفت ملنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ملنے کے دو پتے ریان بکڈپو گیدر گنج اندھراٹھاڑی ضلع مدھوبنی اور دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ درج ہے، نمبر ۳ اور ۳؍ کو خالی رکھا گیا ہے، یہ محذوف منوی ہے، محذوف منوی کو متعین کرنے میں قرینہ سے کام چل جاتا ہے، یہاں اس کا بھی موقع نہیں ہے، اسی طرح فہرست میں جو تین تقریظ مذکور ہے ، اس میں ایک کی جگہ بھی صفحہ ۱۵؍ پر خالی ہے۔ ممکن ہے کسی بڑے کی تحریر مطلوب رہی ہو اور طباعت کے وقت دستیاب نہیں ہو سکی اور اس بڑے کی جگہ کسی کو دی نہیں جا سکتی تھی اس لیے خالی چھوڑ دیا گیا ، تاویلات کچھ بھی کر لیں یہ ترتیب کی کمی ہے، اسے خالی نہیں رہنا چاہیے تھا۔

 کتاب کا انتساب محدثین عظام ، ازہر ہند دار العلوم دیو بند، دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ اور والدین کے نام ہے جو سب کے سب اہم ہیں، یہ سلسلہ بھی اب متروک ہوتا جا رہا ہے ، اب تو لوگ پرانے زمانہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، پہلے کتابوں کی طباعت کے لیے بادشاہ ، نواب، امراء رقومات فراہم کراتے تھے اور کتاب ان کے نام معنون ہوجاتی تھی، آج کے دور میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ، جس نے طباعت کے لیے سرمایہ دیا، اس کے نام منسوب ہو گئی ، چاہے وہ کسی قماش کا آدمی ہو اور علمی معاملات ومسائل سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو، کتاب کا منصہ شہود پر لانے کا وہ ذریعہ بن گیا ہے ، اس لیے ہمارے لیے وہ شخص زیادہ اہم ہے، مفتی آفتاب صاحب نے جن اشخاص اور اداروں کے نام اس کا انتساب کیا ہے وہ ظاہری اور معنوی اعتبار سے اس لائق ہیںکہ اپنے خارجی وجوداسباب اور صلاحیت وصالحیت کے حوالہ سے ان کا نام لیا جائے۔

کتاب پر دو تقریظ موجود ہے، ایک حضرت مولانا خضر محمد صاحب کشمیری نقشبندی استاذ حدیث دار العلوم دیو بند اور حضرت مولانا عبد اللہ معروفی استاذ تخصص فی الحدیث الشریف دار العلوم دیو بند کی۔ مفتی صاحب اس معاملہ میں بھی دور اندیش اور عقل مند ثابت ہوئے ہیں، انہوں نے جن دوشخصیات کا انتخاب کیا وہ دیو بند میں کتابوں کی مارکیٹنگ کے لیے انتہائی ضروری تھے، دار العلوم کے کسی استاذ کی تقریظ نہ ہو تو طلبہ اچھی اور علمی کتابوں کی طرف بھی متوجہ ہونے کا خطرہ مول نہیں لیتے، ان دونوں حضرات کی تقریظ سے اس شرح کے خریدنے والوں کا رجوع عام بھی ہوگا اور تام بھی ۔

 مولانا خضر محمد صاحب نے اس شرح کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ علماء اور طلبہ کے لیے یہ کتاب حل مقدمہ کے لیے معاون ثابت ہوگی، موصوف نے اردو زبان میں مصطلحات حدیث کی بہتر اور مناسب تعریف کی ہے اور اطناب سے گریز کیا ہے ، اختیاری مطالعہ کے عنوان سے مزید تحقیق کے لیے تشنگان اصول حدیث کے لیے پیاس  بجھانے کا کام کیا ہے  (صفحہ ۱۳)

حضرت مولانا عبد اللہ معروفی صاحب کا خیال ہے کہ ’’یہ کتاب علمی حلقوں اور طلبہ علوم حدیث کے درمیان قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی (صفحہ ۱۴)

شرح اچھی ہے ، ہر اصول کی مثال دی گئی ہے ، اور مغلق عبارت کو حل کیا گیا ہے ، اختیاری مطالعہ میں کن مباحث میں کن امور کا مطالعہ کرنا چاہیے اس کی تفصیل درج کردی گئی ہے تاکہ شائقین میں ’’ھل من مزید‘‘ کی پیاس لگی رہے، حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ہے، کتاب اس لائق ہے کہ اسے افادہ عام کے لیے لائبریری اور مکتبوں میں رکھا جائے، اللہ سے دعا ہے کہ مفتی آفتاب عالم قاسمی کی یہ قیمتی اور علمی شرح آئندہ مزید تصنیفی وتالیفی سرگرمیوں کا نقطۂ آغاز بن جائے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔