صاحبان عزیمت ہی وقت کی رفتار کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

عقلی، اخلاقی اور جمالیاتی وجود کے حامل انسان کو بحیثیت اشرف المخلوقات ارتقائی منازل طے کرنے میں سہولت و آسانی پہنچانے کے لیے دین اسلام تدریجی طور پر ایسے صالح و خوشگوار معاشرہ کی تشکیل کی دعوت دیتا ہے جو انسانی وجود کی تمام جہتوں کو اپنے اندر جگہ دینے کی اہلیت رکھتا ہو اور اخلاقِ فاضلہ اور انسانی اقدارکی ترویج و تحفیظ کاضامن ہو۔ اسلامی معاشرہ کی تشکیل، تعمیر اور ہمہ جہت ترقی بہت سارے عوامل پر منحصر ہے۔ ان عناصر میں عزم، حوصلہ، استقلال اور مضبوط ارادہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

 اسلامی معاشرہ کی تشکیل نہ مال و دولت سے کی جاسکتی ہے اور نہ ہی حسن و جمال سے ممکن ہے ، نہ حکومت و اقتدار سے کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اثر و رسوخ سے بلکہ ایسے معاشرہ کی تشکیل کے لیے استمرار و تواتر کے ساتھ علم و عمل کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے قرآن مجید نے متعدد مرتبہ علم و عمل کی اہمیت و افادیت کو بیان فرمایا ہے۔ ثابت قدمی و پامردی وہ داخلی قوت ہے جو زندگی کے مشکل ترین اوقات میں بھی انسان کو اپنی فہم و فراست کا استعمال کرتے ہوئے زندگی کو خوشحال بنانے اور مصائب سے باہر آنے طریقہ و سلیقہ سکھاتی ہے۔ اگر اس داخلی قوت سے انسان محروم ہوجائے تو زندگی کے چھوٹے چھوٹے حوادثات سے بھی انسان گھبراکر اپنا وقار کھودیتا ہے۔ ضبط و تحمل اور عزم و حوصلہ کی قوت سے عاری لوگوں کی علمی، اخلاقی اور مادی ترقیاں رک جاتی ہیں۔ عزم و حوصلہ سے محروم افراد ہمیشہ زمانہ سے گلہ شکوہ کرتے رہتے ہیں جبکہ یہی لوگ معاشرہ کو زوال و انحطاط کا شکار بنانے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو اجیرن بنانے والی خباثتوں جیسے انارکی و سفاکی، حق تلفی و ناانصافی ، اضطراب و بے چینی، خلفشار و بے اطمینانی کو بام عروج پر پہنچانے کا محور و مرکز ہوتے ہیںاس کے برعکس عزم و حوصلہ کے حامل افراد ہمیشہ یہ کہتے ہیں ’’اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل…… ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بناگیا۔ عزم و عزیمت ہی سے قوم تعمیر و ترقی کے تمام مراحل آسانی سے طے کرسکتی ہے ورنہ تعمیر و ترقی کے دیگر عوامل موجود ہونے کے باوجود قوم کماحقہ ترقی حاصل نہیں کرسکتی اور وہ ذرات کی طرح بکھر جاتی ہے۔ عزم و عزیمت کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید مسلمانوں کو مخالفین و معاندین کی مخالفت و عداوت اور زندگی میں در پیش مصائب و مشکلات کا صاحبان عزم رسولوں و پیغمبروں کی طرح صبر و استقلال سے مقابلہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔بلند حوصلے اور عزائم کے باوصف ہی انسان اسلامی مصالح کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو بخوبی نبھاسکتا ہے ورنہ اس راہ میں حائل رکاوٹوں کے سبب انسان اس مذہبی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے میں بری طرح ناکام ہوجاتا ہے جس کا منفی اثر پورے انسانی معاشرے پر مرتب ہوتا ہے۔ تابناک عزائم ،معزز و بلند ترین خصائل میں سے ہے اور اہل کمال کا وصفِ لازم ہے جس کا حصول محض توفیق الٰہی سے ممکن ہے۔ جس انسان کا کردار بلند حوصلے سے متصف ہوگا اس کے سامنے دنیا و ما فیھا کی کوئی اہمیت و وقعت باقی نہیں رہتی یہی وجہ ہے کہ اس میں اتنی ہمت و جرات پیدا ہوجاہوتی ہے کہ وہ رخ دوراں کو پلٹ دے اور وقت کی رفتار کو بدل دے۔

جنگ بدر اس کی بین دلیل ہے جہاں پر 313 صحابہ کرام نے اپنے عزم و حوصلہ سے مخالفین اسلام کے لشکر جرارکو شکست دی جو تاریخ انسانیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ یہ امام احمد بن حنبلؒ کی استقامت ہی تھی جس نے معتزلی عقیدہ کے مالک قاضی احمد بن ابو دائود کی طرف سے اٹھائے جانے والے خلقِ قرآن کے فتنہ کا سد باب فرمایا جو درحقیقت یہودیوں کا عقیدہ تھا۔ آپ کو دھمکایا گیا ، اذیتیں دی گئیں ، آپ کو جیل کی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا اس کے باوجود آپ کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی اس طرح آپ نے رخِ دوراں کو بدل دیا اور امت مسلمہ کے عقیدہ کی حفاظت فرمائی۔ مغلیہ دور کے بادشاہ اکبر کے خود ساختہ دین الٰہی (جسے اقتدار و طاقت کی سرپرستی حاصل تھی) کے خلاف حضرت مجدد الف ثانیؒ نے عزم و حوصلہ کے ساتھ جد و جہد فرمائی ،ہر قسم کی مشکلات کاسامنا کیا، کٹھن و سنگین حالات پر ثابت قدم رہے، اس الحاد کی یلغار کا دل جمعی کے ساتھ مقابلہ فرمایا، اس فتنہ کو سر اٹھانے سے پہلے کچل دیا۔ اس طرح آپ نے وقت کی رفتار کو بدل دیا اور امت مرحومہ کو اس عظیم و دلفریب فتنہ سے بچالیا۔دنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے ہیں وہ سب نوجوان نسل کے عزم و حوصلہ کی مرہون منت رہے ہیں۔

آج ہم کتاب ہدایت و انقلاب یعنی قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرتے ہیں ، تفہیم قرآن کی محافل سجاتے ہیں، کثرت سے جلسوں اور اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں لیکن چونکہ ہم میں عزم و حوصلہ کی کمی ہے اسی لیے ہم وہ امور انجام دینے لگے ہیں جن سے قرآن مجید نے منع فرمایا ہے اور وہ کام نہیں کرتے جن کا قرآن مجیدنے ہمیں حکم فرمایا ہے۔ ہماری اسی غلط روش اور قول و عمل کے تضاد کا خمیازہ ہے کہ آج ہم کفر و باطل کی طغیانیوں کا مقابلہ کرنا تو درکنار اپنے ایمان کی حفاظت کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہورہے ہیں جس کی بین دلیل مسلم معاشرے میں ارتداد کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ عزم و حوصلہ ہی کا فقدان ہے کہ ہمارے اذہان و افکار، اخلاق و کردار میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آرہی ہے اور ہم پوری دنیا میں ذلت و رسوائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ استقامت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ انسان کا ہر لمحہ خدا کی بندگی سے عبارت ہو چنانچہ حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے فرمایا: اللہ کی اطاعت پر مستقیم رہو اور لومڑی کی طرح فریب دہی کرتے ہوئے جادہ استقامت سے منحرف نہ ہو یعنی اللہ تعالی کی تصدیق کرتے رہو، اس کی توحیدکا اقرار کرتے رہو اور اپنے اعضاء سے دائماً اس کی بندگی کرتے رہو۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓسورۃ فصلت کی آیت نمبر30 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس آیت کا تقاضا ہے کہ تم فرائض کی ادائیگی پر مستقیم رہو۔ اگر آج کا مسلمان صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ تمام فرائض و واجبات کی ادائیگی میں استقامت سے کام لے تو اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔ امت موسوی جب ایسے حالات سے دوچار ہوئی جہاں ایک طرف ان کے سامنے دریائے نیل تھا تو دوسری طرف ان کے پیچھے فرعون اور اس کا لشکر تھا تو ایسے حال میں تمام لوگوں کی ہمت و حوصلہ ڈگمگانے لگی تھی لیکن ایسے نازک ترین لمحہ میں بھی حضرت سیدنا موسیؑ تعاقب کرنے والے فرعون اور اس کے لشکرسے خائف ہوئے بغیر پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنی امت سے خطاب کرتے ہوئے کہا گھبرائو مت اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

اس موقع پر اللہ رب العزت نے آپ کی غیبی امداد فرمائی ، آپ کو اور آپ کی امت کو نجات عطا فرمائی، فرعون اور اس کے لشکر کو غرق سمندر کردیا۔علاوہ ازیں اللہ تعالی نے حضرت سیدنا موسیؑ کو حضرت سیدنا شعیبؑ کا دست بازو بنواکرآٹھ سال تک مویشیوں کی حفاظت کا کام لیا، بکریاں چروائیںتاکہ آپؑ کے کردار کو عزم و حوصلہ سے مزین کیا جاسکے اور آپؑ کارہائے نبوت با آسانی انجام دے سکیں۔ ان واقعات سے مسلمانوں کو یہ نصیحت حاصل کرنی چاہیے کہ اگر عزم و حوصلہ ہوگا تو اللہ تعالی ہر مصیبت وپریشانی، نامساعد حالات اور باطل پرستوں کے منصوبوں کا اپنی قدرت کاملہ سے خاتمہ فرمادے گا اور ہمیں سکون و اطمینان والی زندگی عطا فرمائے گا۔قرآن مجید سے ثابت ہے جو لوگ عزم و عزیمت کے ساتھ دنیاوی مشکلات اور نفسانی خواشات کے طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہیں ان کی نہ صرف پروردگار عالم تحسین فرماتا ہے بلکہ ان پر فرشتوں کا نزول بھی فرماتا ہے جو ان کی غیبی امداد پر مامور ہوتے ہیں۔قریش مکہ نے جب رسول رحمتؐ کو بے وطن کردیا تو آپؐ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا ۔ہجرت کے پر خطر سفر میں جب کفار قبائل کے نوجوان اور دشمنان اسلام مکہ کے جنوب میں واقع غارثور کے دہانے تک پہنچ گئے اورکسی لمحہ بھی حضورؐ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کو نقصان پہنچاسکتے تھے۔ غار ثور میں گزارے گئے تین دن میں درپیش ان سنگین حالات اور حساس ترین لمحات میں نبی رحمتؐ نے اپنے عزم و حوصلہ کا اظہار فرمایا جس نے دنیا محوحیرت بنادیا۔ جب حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں سرور کونین ؐ کو معاندین اسلام کی طرف سے کوئی گزند یا تکلیف نہ پہنچ جائے تب آپؐ نے یار غار و خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے خطاب فرمایا اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا غمزدہ نہ ہوں بیشک اللہ تعالی ہم دونوں کے ساتھ ہے اور کفار ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالی کی تائید و نصرت سے باطل طاقتوں کے منصوبے ناکام ہوگئے اور حضور پر نورؐ اپنے یار غار کے ساتھ صحیح سلامت مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔

 اس واقعہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہر میدان میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کے لیے عزم وعزیمت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جو انسان اس بلند خصلت یعنی عزم و حوصلہ سے محروم رہتا ہے وہ آخرت پر دنیا کو ترجیح و فوقیت دینے لگتا ہے اور اشرف المخلوقات کے اعلی و اشرف منصب پر فائز ہونے کے باوجود جانوروں سے بھی بدتر بن جاتا ہے۔ اسی لیے عزم و عزیمت سے عاری لوگوں کو دین اسلام پسند نہیں کرتا چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جو شخص جہاد کے دوران میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو وہ گناہ کبیرہ اور مہلک ترین گناہ کا مرتکب ہے۔دین اسلام ہمیشہ اپنے ماننے والوں سے اولو العزمی اور ثابت قدمی کا تقاضا کرتا ہے چونکہ عزم و عزیمت اور بلند ہمتی سے انسان کو نیکیوں کی راہ پر بلاخوف و خطر چلنے اور ہر برائی سے اپینے دامن کوبچانے کی تحریک ملتی ہے۔

اگر تمام مسلمانان عالم عزم و حوصلہ سے کام لینا شروع کردیں اور اپنی تقاریب میں اسراف سے کام لینے کے بجائے تعلیمی و تحقیقی ادارے قائم کرنے کا عزم مصمم کرلیں اور ان اداروں کو پیسہ کمانے کی بجائے علم کی ترویج و اشاعت اور خدمت خلق کے لیے استعما ل کرنا شروع کردیں تو ایک صالح انقلاب آسکتا ہے جو تبلیغ اسلام کا عملی نمونہ بھی ثابت ہوگا۔ عزائم کو مہمیزاور طبیعتوں کو دوآتشا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان تفکر و تدبر ، تخیل و تعقل اور تفہیم کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرے تاکہ نفس میں حسنات کے لیے آمادگی اور سیئات کے لیے نفرت پیدا ہو۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔