دوسرا لاک ڈاؤن

محمد صالح انصاری

          گزشتہ کئی دنوں سے ہم سب گھروں میں قید ہیں امّی نے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا ہے کہ کوئی گھر سے باہر نہیں جائےگا۔ اور یہ حکم گھر کے بڑے چھوٹے سب پر یکساں طور سے عائد تھی یہاں تک کی کئی دنوں سے امی بھی گھر سے باہر نہیں جا رہی تھی۔

وہ ماں جو ہر دن ہم بھائیوں بہنوں کو گھر میں تنہا چھوڑ کر صبح سویرے ہی بڑے صاحب کے یہاں چلی جاتی تھی اور دن اٹھنے کے بعد آتی تھی تب تک ہم سب بھوکے رہتے تھے اور جب ماں آتی تو ہم سب کو کھانا ملتا تھا،  اب وہ بھی گھر سے باہر نہیں جایا کرتی ہے۔ ہاں کبھی کبھی رات کے اندھیرے میں چور کی طرح چھپ چھپاکر جاتی اور بہت جلد گھر واپس آ جاتی۔

        ہم لوگ جب پوچھتے کہ ماں اب تم صاحب کے گھر کیوں نہیں جاتی؟ کیا ہوا کام چھوڑ دیا؟ یہ انہوں نے آپ کو کام سے نکال دیا؟ لیکن ماں کچھ نہ بولتی بس باتوں کو ٹال کر کسی کام میں لگ جاتی تھی۔ ہاں ایک بات ضرور تھی کہ ماں گزشتہ کچھ دنوں سے پریشان تھی لیکن ماں نے کبھی اپنے پریشانی کا ذکر ہم لوگوں سے نہیں کیا۔

آج جب شام کے وقت ہم لوگ بستر پر جانے لگے تو میں نے دیکھا کہ ماں کا سر بہت تیز جل رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے گرم توا میرے ہاتھوں پر رکھ دیا ہو۔ میں نے ماں سے پوچھا کہ ماں تمہارا سر اتنا گرم کیوں ہے اس سے پہلے تو اتنا گرم نہیں ہوتا تھا۔ جواب میں ماں نے مجھے بستر پر لیٹ جانے کو کہا۔ تبھی بڑی بہن چپکے سے پڑوس کے گھر سے آتی دکھائی دی شاید وہ کچھ لینے گئی تھی۔ وہ ماں کے پاس بیٹھ گئی اور ماں کے سر پر مالش کرنے لگتی ہے۔ آج کل بہن بھی بہت پریشان تھی ہر دن اسکول جانے والی اور کتابوں سے سر نہ اٹھانے والی بہن نے اسکول جانا بند کر دیا تھا پڑھائی میں بھی اب اُسکا من نہیں لگتا تھا۔ لیکن کبھی کبھی وہ کتابیں کھول کر دیکھ لیا کرتی تھی۔ رات بہت ہو چکی تھی بہن ابھی بھی ماں کے سر کو سہلا رہی تھی اور ہم دونوں بھائ پتا نہیں کب سو گئے معلوم ہی نہیں چلا۔

      صبح جب آنکھ کھلی تو ماں کو بستر پر پایا ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ آج گھر کے باہر حل چل تھی ہمارے ساتھ کے آصف ریحان فرحان اور بہت سارے ساتھی کھیلنے نکل پڑے تھے بڑے لوگ آج اپنی گاڑیاں باہر نکال کر صاف کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد محلے کے سارے لوگ اپنے اپنے کام پر  جا چکے تھے اور بچے اپنا بستا لٹکائے اسکول نکل گئے کیونکہ ہمارا نام ابھی نہیں لکھا گیا تھا اس لیے ہم ابھی سكول نہیں جاتے تھے لیکن آج بڑی بہن اور بھائی اسکول گئے تھے، میں اکیلا ماں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھا۔

        تھوڑی دیر بعد اسکول کی چھٹی ہو گئی بھائی اور بہن واپس گھر آ گئے۔ ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے ابھی تک چولہا نہیں جلا تھا۔ بہن نے جلدی سے چولہے پر چاول رکھا اور چٹنی بنائی۔ تھوڑی دیر بعد ہم سب نے چٹنی چاول کھایا لیکن ماں خانے کو نہیں آئی۔

     خانہ کھاتے ہی ہم لوگ اِدھر اُدھر کھیلنے میں مگن تھے بہن ماں کے پاس بیٹھی ماں سے باتیں کرتے ہوئے انکا سر سہلا رہی تھی اور بھائی باہر کھیلنے نکل گیا تھا۔ میں بھی کھیلتے کھیلتے باہر ریحان کے گھر کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے کوئی کہ رہا تھا کہ دیکھنا کل ہی سب کچھ بند ہو جائےگا۔

تو کوئی کہتا ارے ایسے کیسے اک پل میں سب بند ہو جائے گا۔

اُدھر سے لڑن چچا آ رہے تھے انہوں نے کہاں دیکھنا یہ بادشاہ پاگل ہے کچھ بھی کر سکتا ہے پہلے اچانک رات کے آٹھ بجے نوٹ بند کر دیا اب کہیں ایسا تو نہیں کی پورا دیش ہی بند کر دے

تبھی پاس کھڑے ارمان چچا نے کہا یہ کیسے ہوگا اگر سب بند ہو جائےگا تو سورت بمبئی ناسک اور پونا میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کا کیا ہوگا

وہ لوگ تو بھوکے مر جائیںگے

ایک ایک دانے کو ترس جائیںگے

اور پھر اتنا لمبا راستہ کوئی جہاز سے تھوڑی آئیگا

تبھی بیچ میں کوئی بولا

ہو سکتا ہے پیدل ہوائی چپل پہننے والا ہوائی جہاز سے اُڑ کر آ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ ہنسنے لگے لیکن اس ہنسی میں بڑا درد چھپا ہوا تھا جو اُنکے چہرے سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔

اب تک شام ہو چکی تھی مغرب کی نماز کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں میں جا رہے تھے تبھی بھائی کہیں سے کھیلتا ہوا آیا اور مجھے بھی ساتھ لیکر گھر کی طرف چل پڑا

راستے بھر بولتا رہا کہ اتنی دیر تک باہر مت رہا کرو دیکھ رہے ہو کتنی رات ہو گئی مغرب کی اذان ہوتے ہی گھر پہنچ جایا کرو

ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بڑی درد مندی اور محبت سے سر پر ہاتھ رکھے سمجھا رہا ہو پیار کر رہا ہو

بھلے ہی یہ باتیں بھائی بول رہا تھا لیکن نہ جانے کیوں آج مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا من کر رہا تھا کی گھر کا راستہ لمبا ہو جائے کوئی آسمان کو کھینچ کر چوڑا کر دے اور سورج کو روک لے تاکہ یہ باتیں میں سنتا رہوں۔

آج پتہ نہیں کیوں ابّو کی بہت یاد آ رہی تھی آج پتہ چلا کی جب ابّو نہیں ہوتے تو کیا چیز نہیں ملتی ہے۔ ابھی تک بس اتنا پتہ تھا کی میرے ابّو میرے پیدا ہونے سے کچھ دن پہلے اس دنیا سے چلے گئے لیکن آج لگا کہ وہ صرف دنیا سے اکیلے نہیں گئے بلکہ اپنے ساتھ ڈانٹ پیار نصیحت جھڑک بہت کچھ لے گئے جو مجھے نہیں ملی یا ہم جیسے لڑکوں کو نہیں ملی۔یہ ساری باتیں بھائی کو سن کر اچانک خیالوں میں آ رہے تھے۔

اب ہم گھر پہنچ چکے تھے رات کا اندھیرا اتنا کی ہم گھر میں کسی کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے موم بتی بھی آج ختم ہو چکی تھی۔ لائٹ ہمارے گاؤں میں ابھی تک پہنچی ہے نہیں تھی تو اُسکا سوال ہی نہیں۔ ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی موم بتی کون جاتا لانے۔ بہن ماں کے پاس بیٹھی کسی خیالوں میں گم تھی بھائی کو کچھ خبر نہیں کیا ہو رہا۔

اسکو لگا کہ اب تک تو کھانا بن چکا ہوگا لیکن کیسا کھانا وہی دال چاول جو روز بنتا تھا۔ چولہے کے پاس دیکھا تو چولہا ٹھنڈا تھا ایسا لگ رہا تھا اسکی تپش آج ماں کے جسم میں مل گئی تھی اور دال چاول حکومت کے خزانے میں جمع ہو گیا تھا

اب کوئی گھر میں تھا نہیں جو حکومت کے خزانے سے اناج واپس لاتا اور کوئی ایسا بھی نہیں تھا جو ڈاکٹر کو بلاتا تاکہ تپش ماں کے جسم سے ختم ہو۔ اور چولہے میں آگ پیدا ہو۔

لمحہ بہ لمحہ ماں کا جسم بہت گرم ہوتا جا رہا تھا بےسدھ ماں بستر پر پڑی تھی آنکھیں نم آنسو بہانے کو بیقرار تھیں لیکن حالات کچھ اور چاہتے تھے۔

تبھی اچانک بہن کو لگا کہ ماں کا جسم کڑا ہو رہا ہے ہاتھ پاؤں جواب دے رہے ہیں وہ بھاگتی ہوئی پڑوس میں بڑے صاحب کے پاس گئی لوگ بیٹھے کھانے پر گوشت روٹی کھا رہے تھے بہن کو اچانک دیکھ کر وہ لوگ چونک اٹھے۔

تبھی چچی نے سوال کیا؟ کیا ہوا بیٹی! بہن چاہ کر بھی کچھ بھی بول نہیں پا رہی تھی اس کو گھر کا بجھا چولہا اور ماں کا اکڑا ہوا جسم یاد آ رہا تھا. تبھی چاچی نے پھر سے کہا بتاؤ بیٹی کیا ہوا کچھ تو بولو۔

بہن کیا بولتی بس اتنا کہ ماں کو کچھ ہو گیا ہے ………….

چچی بولی چلو بیٹی آتی ہوں ان لوگوں کو کھانا نکال دوں۔ بہن واپس چلی آتی ہے بہت دیر تک انتظار کرتی رہی لیکن کوئی آنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ شہر میں دوسرا لاک ڈاؤن لگ چکا تھا جس کے ڈر سے پریشان ماں کا یہ حال ہوا تھا۔ اب ہر گلی چوراہے پر پولیس کڑا پہرا دے رہی تھی۔

بہن ایک بار پھر خوف اور ڈر پر قابو کر کے بڑی ہمت سے  باہر گئی لیکن اس بار پولیس کی لاٹھیوں نے اسکے جسم کو زخموں سے بےحال اور کڑا کر دیا تھا۔ اب ماں کی طرح وہ بھی بول نہیں پا رہی تھی اسکے ہونٹ سل اٹھے تھے اس کے کان بند ہو گئے تھے اسکی سانسوں نے اپنا راستہ چھوڑ دیا تھا۔ ہم کر بھی کیا سکتے تھے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔ پہلے ماں کے سرہانے بہن بیٹھتی تھی اب ماں اور بہن دونوں کے سرہانے ہم دونوں دنیا کی رونقوں سے انجان درد کے خواب میں بیٹھے تھے۔ ہم اور ہمارا والد جیسا بڑا بھائی دونوں بھوک سے بد حال اُن کے سرہانے نہ جانے کب سو گئے پتہ بھی نہیں چلا۔

[  ] دوسرے دن صبح پولیس والوں نے ماں اور بہن کو کفن دفن کیا اور اخبار میں عنوان لگا: "بے سہارا لوگوں کا سہارا بنی پولیس، حکومت کے خرچے پر ادا کیے آخری رسومات”

تبصرے بند ہیں۔