مسلم قیادت کا فقدان اور ہماری آپسی رنجشیں

سید فاروق احمد سید علی

شہر اورنگ آباد میں گذشتہ ۱۱ او ر۱۲مئی کو فرقہ پرستو ں کی جانب سے شہر کے قدیم علاقے کو فساد میں جھونکا گیا، آگ لگانے اور مسلمانو ں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا جس میں کھلے طور پر پولس بھی فسادیوں کے ساتھ ملوث رہی جس کے کئی ثبوت سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئے۔ فساد ہونے کے بعد مختلف قسم کی سیاست شروع ہوئی ہر کوئی اپنی دوکان چمکانے کی خاطر مختلف قسم کے سہارے تلاشنے لگا۔ جہاں ایک طرف ہندو ایم پی و لیڈران اپنی قوم اور طبقہ کے لوگوں کو بچانے کے لئے ہر حد سے گذررہے تھے وہیں ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کے ساتھ یکطرفہ کاروائی اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں مجلس اتحاد المسلمین کے بے باک ایم ایل اے امتیاز جلیل اور ان کے ساتھیوں نے اپنی قیادت کا لوہا منوایا اور حالات کو قابو میں کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلمان انتشار کا شکار تھے جنہیں کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ کیا جائے تب امتیاز جلیل نے واقعی قیادت کا حق ادا کیا۔ ۔ ۔ میں یہاں اپنی بات روکتا ہوں۔

آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں کیلئے ملکی حالات اتنے سنگین نہیں رہے ہوں گے جتنے کہ آج ہیں۔ پورا ملک تو ہندو راشٹر نہیں بن سکتا ہے لیکن ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں آر ایس ایس کا ہندتوایجنڈہ زیادہ سے زیادہ نافذ کرنے کی وزیر اعلیٰ اترپردیش یوگی زیادہ سے زیادہ کوششوں میں مصروف ہیں اور مسلمانوں پر زیادہ سختیاں پورے ملک میں ہورہی ہیں لیکن اترپردیش میں یوگی خود کو نمبر ایک کٹر مسلم دشمن ہندتوادی ثابت کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف مختلف مہمامات چل رہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو سکون سے رہنے نہیں دیا جائے۔ اترپردیش ہی کیا ہر ریاست میں سنگھ پریوار بی جے پی کی حکومتیں مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں ہی نہیں مجرمانہ سازشیں کرتی رہتی ہیں۔ راجستھان میں گائو رکھشکوں کو حکومت نے کھلی چھوٹ دے رکھی۔ مدھیہ پردیش میں بھی مسلمانوں پر مختلف بہانوں سے ظلم ہورہا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں خانہ جنگی جیسی صورتحال کردی گئی ہے۔ کچھ ریاستوں میں جہاں مسلمان کم ہیں اور ہندو زیادہ ہیں وہاں انہیں ڈرا دھمکا کر ان کی املاک کو نقصان پہنچانے اور انہیں ہر ممکنہ تکلیف دے کر پریشان وہراساں کیا جارہا ہے۔

مگر ان سب کے خلاف آواز اٹھانے والے اور ارباب اقتدار تک اپنی آواز پہنچانے والے آٹے میں نمک کے برابر ہے جن کی آوازیں فضا میں کہیں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔

ایسانہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس قیادت کا فقدان نہیں ہے بشرطیہ کہ وہ ایماندارانہ طور پر مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری قبول کرلیں اور ان میں اس کے سیکولرزم پر کہیں بھی آنچ نہیں آتی ان کی وطن سے محبت کو کوئی زک نہیں پہنچتی ہے، لیکن وہ خود ہی اندر سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ نہ تو مسلم مسائل پر کھل کر گفتگو کرنا چاہتے ہیں نہ اس کے حل کی سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ہاں وقتاً فوقتاً ایسے موضوعات کو ضرور اٹھادیا جاتا ہے جس سے کہ مسلمانوں کو لگے کہ اب ان کے بارے میں کچھ سوچا جارہا ہے حالات بدلنے والے ہیں اب ان کے حق میں کچھ ہوگا لیکن ایسا ہوتا کچھ بھی نہیں۔

اورجوقوم کا ہمدرد واقعی قوم کے لئے کچھ کر گزرنے کے لئے اپنی جان جوکھم میں ڈال رہا ہے اس کو اپنے ہی لوگوں سے کافی نقصان پہنچتا ہے او رپہنچ رہا ہے ہمارا المیہ ہے کہ ہم پہلے تو کسی کو قائد تسلیم نہیں کرتے اور جس کو تسلیم کرتے ہیں اس سے یہ امید لگاتے ہیں کہ وہ ہمارے گھر کا راشن بھی بھرے گا۔ اور ظاہر ہے وہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کی ٹانگ کھینچا شروع کردیتے ہیں اور آج کل تو اپنی ذہنی غلاظت نکالنے کے لئے سوشل میڈیا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہم اپنے لیڈروں میں سے کسی ایک کے پرستار ہوجاتے ہیں اور باقی کے خلاف ہر طرح کی بدزبانی روارکھتے ہیں۔ مسلم لیڈر اور دانشور خود بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور اسکینڈل اچھالنے کے عادی ہیں، ہر ایک دوسرے کو گرا کر اوپر آنا چاہتا ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کی قیادت کے ابھار کا راستہ روکا ہے کیونکہ ہر چھوٹے بڑے لیڈر اور دانشور کو مخالفین کے ٹولے سے سابقہ پڑتا رہتا ہے اور یہ مخالفت سخت ناشائستہ ہوتی جارہی ہے۔ اس طرح شخصیتوں کے بناو اور تعمیر کا عمل مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے اور ہمارا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ ہم کسی کو اپنے سے اوپر دیکھنا ہی نہیں چاہتے دوسری قوم کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔

مولانا شبلی نعمانی صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے مسلمانوں کی تاریخ او رتاریخی کارنامے اس لئے لکھے کہ وہ ماضی سے متاثر ہوکر آگے کی جدوجہد کریں مگر میری کتابوں کا الٹا اثر ہوا، ان کتابوں سے مسلمانوں پر اپنی برتری کا جھوٹا نشہ طاری ہوگیا اور وہ بس نشے میں مست رہنے لگے۔ مگریہ جھوٹا زعم خاص طو رپر ہندوستانی مسلمانوں کو بہت مہنگا پڑا اور باقی دنیا میں جو حالات آج کل ہیں وہ اس زعم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ دراصل مسلمانوں کی کمزوری ان کے جوشیلے مقرر ہیں، ان جوشیلی تقریروں کا بنیادی عنصر نفرت ہوتا ہے او رہماری بیشتر سیاسی ومذہبی تحریکوں نے مسلمانوں کا نفرت کے گندے جوہڑوں میں غرق کیا اور ساتھ ہی خوش فہم بھی بنایا کہ وہ اگرچہ گندے نالوں میں لت پت پڑے ہیں مگر امید رکھتے ہیں کہ یہیں بیٹھے بیٹھے معجزہ ہوجائے گا اور وہ آسمانوں کی اڑان کا مزہ لیں گے۔

 مسلم لیڈران کی طرف نظر اٹھاکر دیکھیں تو اپنے قد کے اعتبار سے احمد پٹیل، سلمان خورشید، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، غلام نبی آزاد، پروفیسر سیف الدین سوز، کے رحمن خان، ایک ہی وقت میں یہ سب کانگریس کے بڑے لیڈران میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سماجوادی پارٹی میں اعظم خان کا قد ہمیشہ ملائم سنگھ یادو کے بعد سب سے بڑا رہا، اختیارات کتنے ہیں اس کی بات جانے دیجئے لیکن بی جے پی میں بھی سید شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی عہدے یا مرتبہ کے اعتبار سے پارٹی کے بڑے لیڈران میں شمار کئے جاتے رہے ہیں ان پارٹیوں کے دائرے کے باہر آکر بات کریں تو آسام میں مولانا بدالدین اجمل، آندھرپردیش میں بیرسٹر اسدالدین اویسی، مہاراشٹر میں ابوعاصم اعظمی، بیشک وہ سماجوادی پارٹی سے منسلک ہیں۔

مسلم لیگ کے جی ایم ایم بنات والا سے لیکر ای احمد تک اور اب اترپردیش میں ڈاکٹر ایوب انصاری ان کے علاوہ ہمارے وہ علمائے کرام جو براہ راست سیاست میں ہوں یا نہ ہوں مگر قد کے اعتبار سے مندرجہ بالا تمام ناموں پر بھاری نظر آتے ہیں ان میں مولانا سید احمد بخاری، مولانا ارشد مدنی مولانا توقیر رضا خاں بریلوی، مولانا محمود مدنی، مولانا کلب جواد کسی طرح بھی اپنی اہلیت اور صلاحیت کے اعتبار سے یادوئوں، ٹھاکروں، جاٹوں یا دلتوں سے کم نہیں ہیں مگر کیا بات ہے کہ ہم سب ایک پلیٹ فارم پر کیو ں نہیں آجاتے کس چیز نے ہمارے قائدین کو ایک ساتھ نہ آنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ کوئی بھی اپنے آپ کو جھکانے کے لئے تیار نہیں۔ ۔ کیا ابھی بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم سب ایک چھت کے نیچے آجائیں۔ ؟۔ اس کا جواب وہی بہتر جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔

مسلمانوں کی دگرگوں حالت، دھواں ہوتی زندگیاں خالد بن ولید، سلطان محمد فاتح، محمدبن قاسم، صلاح الدین ایوبی کی راہ تکتی ہیں۔ اور دنیا کا ہر وہ مظلوم مسلمان جو ظالموں کے چنگل میں ہے،یہ دعا کرتا ہوگا کہ مشرق وسطیٰ سمیت زمین کے جس حصے میں مسلمان غم و الم کی چکی میں پس رہے ہیں، مسلم امہ اس پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرے۔ کشمیر، برما، فلسطین، عراق، شام افغانستان میں امت مسلمہ کے بے گناہ خون کاجواب طلب کرے۔ کاش کہ عالم اسلام اپنے المیے سے باہر نکال آیے۔ کہ یہی دین کی بقا کا راستہ ہے۔ اور یہی ہمارے دین و ایمان کا مسئلہ ہے۔

آخر میں میری ناقص رائے یہی رہے گی کہ ہم وطن عزیز کی دن بدن ابتر ہوتی حالت کے پیش نظر ایک پلیٹ فارم پر آجائیں متحد ہو کر اپنی آواز کو بلند کریں اور جوآواز اٹھا رہا ہے اس کی ٹانگیں کھینچنا بند کریں۔ اپنی اصلاح کی فکر کریں۔ جلد از جلد ہوش کے ناخن لیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ

ہمیں ہی قاتل کہے گی دنیا ہمارا ہی قتل عام ہوگا

ہم ہی کنویں کھودتے پھریں گے ہم ہی پہ پانی حرام ہوگا

تبصرے بند ہیں۔