لال سنگھ کی زہر افشانی: شہید شجاعت بخاری قتل کی حقیقت کیا ہے؟

محمد شفیع میر

مود ی حکومت مسلمانوں کے خلاف جس طرح گھٹیا پروپیگنڈا کررہی ہے، ضروری ہے کہ ان مذموم سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے گھنائونے کردار کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ بی جے پی کی پالیسیوں سے اقلیتی طبقہ بہت تنگ آچکے ہیں ۔ مودی سرکار مسلمانوں ، دلتوں اور مختلف اقلیتوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، آئندہ انتخابات میں اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ مسلم دشمنی کا یہ ننگا ناچ بند ہونے والا نہیں ، ماضی کے اوراق اُلٹ کر دیکھئے کہ جموں و کشمیر میں بھاچپا لیڈران نے کس قدر مسلم مخالف مہم شروع کر دی ہے اور دھڑلے سے بھاجپا لیڈران اپنی ناپاک سازشوں کا اعتراف کھلے عام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ روزِ اول سے ہی بھاجپا مسلم دشمنی کی آگ میں جل رہی ہے لیکن مودی اقتدار کے بعد مسلم دشمنی کی جو تازہ لہر ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے وہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ بھاجپا لیڈران کا مسلمانوں کے خلاف آئے روز زہر اگلنامودی سرکار کی مسلم مخالف پالیسی ایک اہم حصہ ہے،  ملک میں تعمیر و ترقی ہو ئی ہویا نہ ہوئی ہو لیکن مسلم مخالف مہم پر مودی سرکار عملی طور جو کام کر رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ لال قلعے سے امن کا پیغام دینے والے مودی سرکار میں مودی کے ہوتے ہوئے جموں و کشمیر میں مسلم دشمنی کاتانابانا بام ِ عروج پر ہے۔ اگر مودی امن کی باتیں دل کے نہاخانوں سے کہتے اور کرتے تو آج لال قلعے کی تاریخی عمارت ’’ڈالمیا لمیٹڈ‘‘ کے قبضے میں نہیں ہوتی۔

مودی جی کے کہنے اور کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اپنے لیڈران کو جو سبق پڑھایا جاتا ہے وہ مودی کی شخصیت کو داغدار تو کر ہی رہا ہے لیکن ملک کو بھی داغدار کئے بغیر نہیں رہتا۔ مودی کی گودی میڈیا بھی اس سازش کی پارٹنر ہے۔ خریدی گئی پرنٹ میڈیا سے لیکر الکٹرانک میڈیا تک تمام ذرائع ابلاغ اس حوالہ سے کلیدی رول ادا کئے جار ہے ہیں ، عالمی میڈیا چونکہ صہیونیوں کے زیر قبضہ ہے اس لیے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے۔

جموں و کشمیر میں بی جے پی کے مسلم دشمن چند نمونے ہیں جو خود کومودی بھگت ثابت کرنے کے لئے مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے کے ساتھ ان کے خلاف پر تشدد اقدامات کی ترغیب دیتے ہیں ۔ گزشتہ روز بی جے پی کے لاڈلے لال سنگھ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران جس طرح سے کشمیری صحافیوں کو دھمکی آمیز لہجے سے یہ کہہ کر کہ’’ اگر کشمیری صحافی نہیں سدھرے تو اُن کا حشر بھی شجاعت کے جیسا ہوگا‘‘ڈرایا اور دھمکایا وہ مودی سرکار کیلئے انتہائی شرمناک اور ہتک آمیز ہے۔ لال سنگھ کی موجودہ مسلم دشمنی کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو انہیں ’’مسٹر کرمینل‘‘ کا نام دینا بہتر ہوگا۔

لال سنگھ کی مسلم دشمنی بس یہاں تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنی اس مسلم مخالف مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ناپاک کوشش میں پورا زور لگا رہے ہیں۔ گو کہ پھاجپا کے لاڈلے لال سنگھ کو مسلم مخالف پالیسیاں اور سازشیں انجام دینے میں ہر وقت ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے لیکن یہی وجہ ہے کہ یہ بار بار کی شکستیں انہیں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور دشمنی کا کھلا اعتراف کرنے کی پر مجبور کرتی رہتی ہیں ۔ اِن کے دل ودماغ سے یہ سب محو نہیں ہو رہی ہیں جبھی تو لال بجھکڑ بار بار مسلمانوں کے خلاف اناپ شناپ بکتے رہتے ہیں۔

کھٹوعہ عصمت دری و قتل کیس معاملہ میں لال سنگھ نے جس قدر مسلم دشمنی کی طوفان ِ بدتمیزی کی مہم چلائی کیاوہ جموں و کشمیر کے مسلم طبقہ کے لئے ذات پات کی زنجیروں سے آزاد ہوکرایک جٹ ہونے کے لئے نا کافی تھا؟؟…… افسو س ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کا مسلمان فرقوں میں بٹ چکا ہے،  ذات پات میں بٹ چکا ہے۔ مسلمان ہماری عظیم پہچان اور شان تھی جس سے کافر ڈرتے تھے، خوف کھاتے تھے، لیکن ہم نے اپنی پہچان کو ایسے مسخ کر دیا کہ آج لال سنگھ جیسا نکما مسلمانوں کو کھلے عام دھمکا رہا ہے اور مسلمان اپنے اصل مقام سے آگاہ ہونے کے بجائے گمراہ ہوتا جا رہا ہے۔ کھٹوعہ معاملہ میں ہم مسلمان نہ بن سکے بلکہ وہاں گوجر بن کر رہے اور اب کشمیری صحافیوں کوجان سے ختم کرنے کی کھلی دھمکی سن کر بھی ہم مسلمان بننے سے قاصر ہیں اس سے پہلے کہ ہم گوجر کشمیری بن کر اپنی عظیم پہچان کو مزید ختم کر دیں ایک جٹ ہو کر مسلمان ہو جائیں تاکہ ہم ایسی قوتوں کو سبق سکھائیں جو کھلے عام مسلمانوں کو جان سے مارنے کی گیدڑ بھبکیاں دیتے ہیں۔

بحیثیت ایک ادنیٰ صحافی ہوتے ہوئے میں بی جے پی کے لاڈلے لال بجھکڑ سے یہ کہہ دینا چاہوں گا کہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ بہت قدیم ہے، جموں و کشمیر میں لاکھوں مسلمان آباد ہیں اوریہ ریاست جموں و کشمیر کسی کے باپ کی جاگیر نہیں کہ کوئی کسی کو دھمکائے،  جو اس ریاست کا باشندہ ہے یہ جموں و کشمیر اُس کا ہے۔ ہاں اتنا وثوق سے کہوں گا کہ اگر آپ اپنا ریکارڈ دیکھیں گے تو آپ واقعی اس ریاست کے چھوڑیئے اس ملک کے باشندے بھی نہیں ہونگے،  کیونکہ وطن عزیز نے اپنی پاک دھرتی پر ایسے انسان کو جنم ہی نہیں دیا ہے جو انسان ہندو مسلم بھائی چارے میں نفرتوں کا زہر گھولتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے جن مسلم صحافیوں کو آپ دھمکانے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں یہ ملک ایسے ہی صحافیوں کے دم سے وجود میں ہے۔ یہ ملک شجاعت بخاری جیسے بہادر،  نڈر اور حقیقت پسند جیسے صحافیوں کا ہو سکتا ہے۔ ارنب اور آشش جیسے منافقوں کا نہیں۔ شجاعت جیسے صحافیوں نے ہی اپنی جانیں نچھاور کر کے اِ س ملک کو انگریزوں سے آزاد دلائی ہے، ارنب اور آشش جیسے نا م نہاد صحافی اُس وقت بھی گوڈسے کے تلوے چاٹتے تھے۔ صحافی وہ ہوتا ہے جو حق پر اپنی جان دیتا ہیں وہ صحافی ہر گز نہیں ہوتا جو سماج میں نفرتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔

لاکھ کوششوں کے باجود آپ ان شا اللہ ناکام ہونگے کیونکہ اب حقائق کو سامنے لانے کیلئے صحافت کے میدان میں کام کرنا ہماری ضرورت نہیں مقصد بن چکا ہے۔ شجاعت کی شہادت نے نوجوان صحافیوں پر آپ جیسے نام نہاد سماج دشمنوں کو عوام کے سامنے ننگا کرنے کیلئے جو جنونی کیفیت طاری کی ہے وہ ضرور رنگ لائے گی اور صحافت کی حقیقی دنیا میں کشمیری صحافیوں کا نام اول درجے پر رقم ہوگا۔

دنیا کو معلوم ہے کہ شجاعت بخاری کا قتل کسی سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہے۔ لیکن اب قاتل کو ڈھونڈ نکالنے کی کیا گنجائش باقی ہے کہ جب لال سنگھ بغیر کسی ڈور خوف کے کشمیری صحافیوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہ کہتا ہے کہ’’ اگر اب بھی نہیں سدھرے تو آپ کا حشر بھی شجاعت جیسا ہوگا‘‘۔ کیا پولیس کے لئے لال سنگھ کا یہ بیان کوئی معنی نہیں رکھتا ؟؟کیا لال سنگھ کو ایسا بیانات دینے پر کوئی قدغن نہیں؟ کیا پولیس لال سنگھ سے خوفزدہ ہے؟؟ اگر ایسا ہے تو پھر شہیدشجاعت بخاری کے قتل کیس کی گتھی کو سلجھانے میں پولیس کس قدر کامیاب ہوسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔