افتخار راغبؔ
درمیاں ابر کے ہیں آب سے نا واقف ہیں
ہم کہ بے مہریِ احباب سے نا واقف ہیں
…
ایسے پودے ہیں کہ واقف نہیں شادابی سے
ایسی ندیاں ہیں کہ سیلاب سے نا واقف ہیں
…
ایسے بھی گُل ہیں جو واقف نہیں رنگ و بو سے
ایسی آنکھیں بھی ہیں جو خواب سے نا واقف ہیں
…
جسم کو اپنے سمجھتے ہیں حسیں تاج محل
اور وہ بارشِ تیزاب سے نا واقف ہیں
…
کم نہیں زعم اُنھیں اپنی سخن دانی کا
گفتگو کے بھی جو آداب سے نا واقف ہیں
…
جب سے دیکھا ہے تصوّر میں تمھارا چہرہ
ایسا لگتا ہے کہ مہتاب سے نا واقف ہیں
…
اُن کو اندازہ ہو کیسے مِری غرقابی کا
جو تِری آنکھوں کے گرداب سے نا واقف ہیں
…
چوٹ لگتی ہے تو اب درد کہاں ہوتا ہے
رنج ہوتا ہے کہ احباب سے نا واقف ہیں
…
اس کی آغوش میں پلتی ہے ہماری عقبیٰ
آپ جس عالمِ اسباب سے نا واقف ہیں
…
سادہ لوحی ہے کہ بے مہری کہاں کھُلتا ہے
دل میں رہ کر دلِ بے تاب سے نا واقف ہیں
…
کچھ تقاضا بھی ہے حالات کا ایسا اے دل
’’کچھ تو ہم رونے کے آداب سے نا واقف ہیں‘‘
…
اُن کا چہرہ ہے پُر اسرار صحیفہ راغبؔ
حفظ ہم کر کے بھی ہر باب سے نا واقف ہیں
تبصرے بند ہیں۔