میں اوّل مسلمان، دوئم بھی مسلمان اور آخر بھی مسلمان ہوں

عبدالعزیز

 مولانا محمد علی جوہرؒ نے قصر سینٹ لندن میں 19 نومبر 1930ء کو گول میز کانفرنس میں ایسی ایک تاریخی تقریر کی تھی جس کا ہر لفظ اور ہر جملہ آج بھی اہم ہے، جتنا اس وقت اہم تھا۔ مولانا محمد علی جوہر آزادی کے صف اول کے سپاہیوں میں شامل تھے اور اگر یہ کہا جائے کہ مولانا اور گاندھی جی نے آزادی کی لڑائی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور دونوں ہم پلہ اور ہم رکاب تھے تو غلط نہ ہوگا۔ کانفرنس میں جو تقریر مولانا موصوف نے کی تھی اس میں مسلمانیت اور ہندستانیت کے تعلق کی تشریح پیش کی تھی۔ اسے حرف آخر کا درجہ آج بھی حاصل ہے۔ اب تک ایسی بے لاگ اور دو ٹوک بات کسی اور نے نہیں کہی جو فرقہ پرستوں کا منہ بند کردے۔

جو لوگ مسلمانوں کو فرقہ پرستی اور تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ اگر گاندھی اور مولانا کی تقاریر ، بیانات اور نظریہ سے بخوبی واقف ہوتے اور اسے دل و جان سے مانتے تو فرقہ پرستی کی آگ کب کی بجھ گئی ہوتی۔فرقہ پرست جو اپنے آپ کو قوم پرست کہتے ہیں ان کے بارے میں مولانا نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ فرقہ پرستی انسانیت اور آدمیت کی دشمن ہے، لیکن میرا مذہب اتحاد آدم کا سبق سکھاتا ہے جس سے میں ایک انچ بھی ہٹنا گوارا نہیں کرسکتا۔ مولانا محمد علی جوہرؒ کی تقریر کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو:

 ’’اب میں ایک لفظ مسلمانوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں کسی دوسرے وقت تفصیل سے گفتگو کروں گا۔ انگلستان میں اکثر اصحاب ہم سے سوال کرتے ہیں کہ یہ ہندو مسلم سوال سیاست میں کیوں اٹھتا ہے اور اس کا ان چیزوں سے کیا واسطہ ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ آپ کا تخیل مذہب کے متعلق غلط ہوگا اگر سیاست کو اس کے باہر رکھا جائے۔ مذہب میرے خیال میں نہ کسی عقیدہ کا نام ہے اور نہ کسی طریقۂ عبادت کا۔ مذہب زندگی کی ایک تعبیر ہے۔ میرے پاس ایک تمدن ہے، ایک سیاسی نظام ہے، ایک نظریۂ زندگی ہے، اور اسلام ان سب کا امتزاج ہے۔ جہاں تک احکام خداوندی کے بجالانے کا تعلق ہے تو میں اول بھی مسلمان ہوں، دوم بھی مسلمان ہوں اور آخر میں بھی مسلمان ہوں؛ یعنی میں مسلمان ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی سلطنت یا قوم میں اس سیاسی نظام، اس تمدن، اس ضابطہ اخلاق ، اس امتزاج کو چھوڑ کر شامل ہوجاؤںتو میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا۔ میرا پہلا فرض اپنے خالق کی رضا جوئی ہے نہ کہ ملک معظم یا میرے ساتھی ڈاکٹر مونجے کی اور یہی حال ڈاکٹر مونجے کا ہے۔ احکام خداوندی کی بجا آوری میں ان کو پہلے ہندو ہونا چاہئے اور مجھ مجھ کو مسلمان؛ لیکن جہاں ہندستان کا سوال آتا ہے، جہاں ہندستان کی آزادی کا سوال آتا ہے یا جہاں ہندستان کی فلاح وبہبود کا سوال آتا ہے۔ جہاں ہندستان کی آزادی کا سوال آتا ہے میں اول بھی ہندستانی ہوں، دوئم بھی ہندستانی ہوں اور آخر میں بھی ہندستانی ہوں اور ہندستانی ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں۔

 میں دو برابر کے دائروں سے تعلق رکھتا ہوں جو ہم مرکز نہیں ہیں۔ ایک ہندستان ہے اور دوسرا دنیائے اسلام ہے۔ جب میں تحریک خلافت کے وفد کے سربراہ کی حیثیت سے 1930ء میں انگلستان آیا تو میرے دوستوں نے کہا تھا کہ ہماری اسٹیشنری کیلئے کوئی طغریٰ ہونا چاہئے۔ میں نے یہ طغریٰ دو دائروں کی شکل میں بنایا۔ ایک دائرے میں لفظ ہندستان لکھا اور دوسرے میں لفظ ’خلافت‘ کے ساتھ اسلام۔ ہم بحیثیت ہندستان مسلمانوں کے دونوں دائروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر دائرے میں 30کروڑ انسان ہیں۔ ان دائروں میں سے ہم کسی کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم قوم پرست نہیں ہیں۔ہمارا رتبہ اس سے بھی بلند ہے اور بحیثیت مسلمان کے میرا عقیدہ ہے کہ خدانے انسان کو پیدا کیا اور شیطان نے قوموں کو۔ قوم پرستی تفریق پیدا کرتی ہے اور ہمارا مذہب اتحاد کا داعی ہے۔ کوئی مذہبی یا صلیبی جنگ اس قدر ہلاکت خیز نہیں ہوئی جتنی آپ کی گزشتہ جنگ اور یہ آپ کی قوم پرستی کی جنگ تھی نہ کہ میرا جہاد۔

 مگر جہاں میرے ملک کا تعلق ہے، جہاں محاصل تشخیص کئے جاتے ہیں، جہاں ہماری فصلوں کا واسطہ ہے اور جہاں عام زندگی کے ہزاروں مسائل کا تعلق ہے جن سے ہندستان کی فلاح و بہبود کا واسطہ ہے، وہاں میں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ میں ’’مسلم ہوں اور ہندستانی‘‘۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف کے بارے میں آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، اس لئے کہ اس کی بنیاد تمام تر ایک کا دوسرے پر غلبہ حاصل کرلینے کے خوف پر ہے۔ ہندستان کو بے دست و پا بنا دینے کے علاوہ ایک اور گناہ برطانیہ کا یہ بھی ہے کہ اس نے ہندستان کی غلط تاریخ مرتب کی اور اس کو ہمارے اسکولوں میں رائج کیا اور اسی وجہ سے ہمارے بچوں نے ہندستان کی مسخ شدہ تاریخ پڑھی۔ جو جھگڑے اکثر ہم کو اپنی سڑکوں پر تیوہاروں کے موقع پر نظر آتے ہیں اور جن تنازعوں کے محرکات ہمارے دانشوروں (میں ان کو غیر دانشور کہوں گا) کے دل میں بٹھا دیئے گئے ہیں۔ سب اسی غلط تاریخ کا نتیجہ ہے جو سیاسی اغراض سے ہمارے اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اگر وہ انتقامی ذہنیت جو ہندستان میں چند لوگوں کی سیاست میں کار فرما ہے واقعی موجود ہوتی اور اس حد تک موجود ہوتی جتنی کہ آج ہے اور مسلمان ہر جگہ 25فیصدی کی اقلیت میں اور ہندو 66فیصدی کی اکثریت میں ہوتے تو مجھے امید کی کوئی کرن آج نظر نہ آتی۔ مگر ہمارے صوفیوں اور سپاہیوں کا بھلا ہو کہ ان کی وجہ سے ایسے صوبے بھی ہیں جیسے کہ میرے دوست ڈاکٹر مونجے کا صوبہ جس میں ہم 4فیصدی ہیں اور ایسے بھی جیسے میرے دوسرا نواب سر عبدالقیوم کا صوبہ جس میں ہم 93فیصدی ہیں اور جس کیلئے ہم اس آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو دوسرے صوبوں کو حاصل ہے۔ سندھ کا پرانا صوبہ بھی جہاں مسلمان پہلے پہل آئے اور جہاں وہ 73فیصدی ہیں۔ پنجاب میں ان کی تعداد 56فیصدی ہے اور بنگال میں 55فیصد۔ اس سے ہم کو تحفظ حاصل ہوجاتا ہے کیونکہ ہم کو وہی ضمانت مل جاتی ہے جو ہندوؤں کو ان صوبوں میں حاصل ہے جن میں وہ بڑی اکثریت میں ہیں۔

 میں آپ کو احساس دلانا چاہتا ہوں کہ آپ پہلی بار ہندستان میں انقلاب لارہے ہیں؛ یعنی یہ پہلی دفعہ ہے کہ یہاں اکثریت کی حکومت ہوگی۔ رام چندر جی کے زمانہ میں اکثریت کی حکومت نہیں تھی ورنہ ان کو جلا وطن نہ کیا جاتا۔ پانڈو اور کورو راجگان جنھوں نے اپنی سلطنتیں جوئے میں ہار دیںکے وقت میں اکثریت کی حکومت نہیں تھی اور نہ محمود غزنوی، اکبر، اورنگ زیب کے زمانے میں۔ اسی طرح شیوا جی، رنجیت سنگھ ، وارن ہیٹنگز اور کلاؤ کے زمانے میں بھی اکثریت کی حکومت نہیں تھی۔ اب اس وقت لارڈ ارون کے زمانہ میں ہم ہندستان میں پہلی دفعہ اکثریت کی حکومت قائم کر رہے ہیں اور اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی میں اکثریت کی حکومت منظور کرتا ہوں۔ گومیں خوب جانتا ہوں کہ اگر 51فیصدی آدمی یہ کہیں کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں اور 49فیصدی آدمی یہ کہیں کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں اور 51فیصدی کے یہ کہنے سے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ دو اور دو واقعی پانچ ہوجائیں، پھر بھی میں اکثریت کا حکم ماننے کیلئے تیار ہوں؛ لیکن خوش قسمتی سے چند صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ایک وفاقی حکومت کے قیام سے جو ہندستان کیلئے موزوں ہے، نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے بلکہ ہندستانی والیانِ ریاست کابھی، اور یہی ہمارے موافق ہے۔

ہندستان میں مرکزی اور غیر مرکزی رجحانات کا اس قدر توازن پایا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت کا قیام مستقبل کیلئے صرف ایک مطمح نظر ہی نہیں ہے بلکہ فوری طور پر ممکن ہے۔ ہم اس کانفرنس سے اسی وقت جائیں گے جب ہندستانی ریاستوں سے نئے سمجھوتے ہوکر ان کی اور برطانیہ کی رضامندی سے ہندستان میں وفاقی حکومت قائم ہوجائے گی‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔