اسلام میں پیڑ پودوں کی اہمیت اور ماحولیاتی مسائل کا حل

مولانا ندیم احمد انصاری

کائنات میں اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا ایک مظہر یہ ہے کہ جہاں انسانوں اور دوسرے جان داروں کو اور بہت سی نعمتیں دی گئی ہیں، وہیں اس کو سازگار ماحول بھی عطا کیا گیا ہے اور ایسی چیزیں پیدا کی گئی ہیں، جو کثافتوں کو جذب کرلیتی ہیں اور مختلف النوع آلودگیوں سے ماحول کو بچاتی ہیں۔ انسانی زندگی اور انسان کو مطلوب جان دار اور بے جان وسائل کی حفاظت کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ انسان ماحولیات کا تحفظ کرنے کا اہتمام کرے اور ایسی چیزوں سے بچے جو فضا، زمین یا پانی وغیرہ میں آلودگی کا باعث بنتی ہوں۔

موجودہ تیز رفتار صنعتی ترقی سے پہلے جنگلات کی کثرت اور مظاہرِقدرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کے باعث آلودگی کا مسئلہ اتنا اہم نہیں تھا، لیکن اب کارخانوں کی کثرت، صنعتی فضلات کی نکاسی کے مناسب انتظام سے غفلت، آبادی کا پھیلاؤ، آلودگی پیدا کرنے والے ایندھن کا بے دریغ استعمال، جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی، دریاؤں میں فضلات کا بہاؤ، پُرشور سواریوں اور مشینوں کا استعمال اور اس طرح کے مختلف اسباب کی وجہ سے ماحولیات میں عدم توازن پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ آلودگی بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جس نے پوری دنیا کو فکر مند کر رکھا ہے۔ آج آکسیجن کی قلت کا مسئلہ جو منھ کھولے ہمارے سامنے کھڑا ہے، وہ بھی اسی کی دین ہے۔

شریعتِ اسلامی انسانی زندگی کے تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے، اس سلسلے میں بھی اس نے ہماری رہنمائی کی ہے، جیسے پانی میں استنجا کرنے سے منع کیا گیا، آپﷺ نے درخت لگانے کی ترغیب دی اور بلا وجہ درخت کاٹنے اور بلا ضرورت بلند آواز تک کو پسند نہیں کیا۔جو چیزیں دھواں چھوڑنے والی ہوں، ان کو ضرورت پوری ہونے کے بعد بجھا دینے کی ہدایت دی گئی۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی تعلیمات ہیں، جو صراحتاً یا اشاراتاً قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں اور ان کی بنیاد پر فقہا نے احکامات مستنبط کیے ہیں۔

مذکورہ بالا تمہید کے ساتھ فقہ اکیڈمی، انڈیا نے ایک سال ایسے ہی چند اہم مسائل پر باقاعدہ سیمینار کروایا تھا، جس میں ملک بھر کے اصحابِ علم و قلم نے شرکت کی۔ راقم السطور نے بھی طویل مقالہ پیش کیا، اس مقالے میں سے خاص پیڑ پودوں کی اہمیت سے متعلق سوال کا جواب یہاں پیش کیا جا رہا ہے، جس سے اندازہ ہوگا کہ اسلام اور شریعتِ اسلام نے تمام مسائل میں کس درجے باریک بینی سے کام لیا اور انسانی ضرورت کا لحاظ رکھاہے۔

زراعت اور کھیتی باڑی کی ترغیب

اسلام کی نظر میں درخت لگانے اور کاشت کاری کی بڑی اہمیت ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ، وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ۔ اور جب اٹھ کرجاتا ہے تو زمین میں اس کی دوڑ دھوپ یہ ہوتی ہے کہ و ہ اس میں فساد مچائے، اور فصلیں اور نسلیں تباہ کرے، حالاں کہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔[البقرۃ]اس آیت کے ذیل میں علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ یہ آیت زمین میں ہل چلانے اور اس میں فصل کاشت کرنے اور زمین میں درخت لگانے پردلالت کرتی ہے۔ یہ زراعت اور کھیتی باڑی پر ابھارنے کے لیے ہے اور طلبِ نسل سے مراد حیوانوں اور جان داروں کی نشوونما اور ان کا بڑھنا ہے اور اسی سے انسان کی قوت و طاقت مکمل ہوتی ہے۔قلت: دلت الآیۃ علی الحرث و زراعۃ الأرض و غرسھا بالأشجار حملاً علی الزرع، وطلب النسل، وھو نماء الحیوان و بذلک یتم قوم الانسان۔ [احکام القرآن]حضرت جابرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس مسلمان نے کوئی پودا لگایا تو اس درخت سے جو کھایا گیا وہ اس کے لیے صدقہ ہے، جو اس سے چوری کیا گیا وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے، اور جو درندوں نے کھایا وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے، اور کوئی اسے کم نہیں کرے گا مگر وہ اس پودا لگانے والے کے لیے صدقے کا ثواب ہوگا۔

مَامِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا اِلَّا کَانَ مَا أُکِلَ مِنْہُ لَہُ صَدَقَۃً، وَمَا سُرِقَ مِنْہُ لَہُ صَدَقَۃٌ، وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ مِنْہُ فَھُوَ لَہُ صَدَقَۃٌ، وَمَا أَکَلَتْ الطَّیْرُ فَھُوَ لَہُ صَدَقَۃٌ وَلَا یَرْزَؤُہُ أَحَدٌ اِلَّا کَانَ لَہُ صَدَقَۃٌ۔ [مسلم]

ایک روایت میں ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ ام مبشر انصاریہؓکے پاس ان کے باغ میں تشریف لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ باغ مسلمان نے لگایا ہے یا کافر نے ؟ انھوں نے کہا: مسلمانوں نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان ایسا نہیں جو کوئی پودا لگائے یا کھیتی کاشت کرے اور اس سے انسان یا جانور یا کوئی بھی کھائے تو اس کے لیے صدقے کا ثواب ہوگا۔

أَنَّ النَّبِیَّﷺ دَخَلَ عَلَی أُمِّ مُبَشِّرٍ الْأَنْصَارِیَّۃِ فِی نَخْلٍ لَھَا، فَقَالَ لَھَا النَّبِیُّﷺ : مَنْ غَرَسَ ھَذَا النَّخْلَ، أَمُسْلِمٌ أَمْ کَافِرٌ؟ فَقَالَتْ: بَلْ مُسْلِمٌ، فَقَالَ: لَا یَغْرِسُ مُسْلِمٌ غَرْسًا وَلَا یَزْرَعُ زَرْعًا فَیَأْکُلَ مِنْہُ اِنْسَانٌ وَلَا دَابَّۃٌ وَلَا شَیْئٌ اِلَّا کَانَتْ لَہُ صَدَقَہٌ۔[مسلم، بخاری]

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی ہی ایک روایت میں اس طرح ہے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ پودا لگانے والا اور کھیتی کرنے والا کوئی ایسا مسلمان نہیں کہ اس سے درندے یا پرندے یا اور کوئی کھائے مگر یہ کہ اس میں اس لگانے والے کے لیے ثواب ہوگا۔سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ ﷺ یَقُولُ: لَا یَغْرِسُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ غَرْسًا وَلَا زَرْعًا فَیَأْکُلَ مِنْہُ سَبُعٌ أَوْ طَائِرٌ أَوْ شَیْئٌ اِلَّا کَانَ لَہُ فِیہِ أَجْرٌ و قَالَ ابْنُ أَبِی خَلَفٍ طَائِرٌ شَیْئٌ۔[مسلم]ایک حدیث میں شجرکاری کی ترغیب دیتے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:جو شخض پودا لگائے گا، اس کے لیے اس پودے سے نکلنے والے پھل کے بہ قدر ثواب لکھاجائےگا۔ما من رجل یغرس غرساً الا کتب اللہ عز و جل لہ من الأجر قدر ما یخرج من ثمر ذلک الغرس۔ [مسند احمد]اسی لیے علما نے افضل ترین پیشے کے طور پر کاشت کاری کا ذکر کیا ہے۔ وقد اختلف العلماء فی أطیب المکاسب و أفضلھا، فقیل التجارۃ، و قیل الصنعۃ بالید، وقیل الزراعۃ، وھو الصحیح۔[شرح المنہاج للنووی، باب: فضل الغرس و الزرع]

بلا شدید ضرورت پیڑوں کو کاٹنا

بلا ضرورت جنگلات کو کاٹنے اور کھیتوں کو زیادہ پیسوں کے حصول کے لیے پلاٹس بنا کر آبادیوں کو بسانا، غیر اخلاقی و مکروہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ عبداللہ بن حبشیؓسے مروی ہے، رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :من قطع سدرۃ صوّب اللہ رأسہ فی النار۔جو کسی بیری کے درخت کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ جہنم میں اس کے سر کو اوندھا کردے گا۔[ابو دائود، سنن کبریٰ للنسائی]نیز رسول اللہ ﷺنے جنگ کے موقعوں پر بھی درختوں اور کھیتیوں کو بربادر کرنے سے منع فرمایاہے۔ نھی النبی ﷺ عن عقر الشجر، فانہ عصمۃ للدواب فی الجدب۔ [مصنف عبد الرزاق]امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیقؓ نے شام کی طرف لشکر روانہ کرتے وقت تاکید کی تھی: لا تعقرن نخلاً ولا تحرقنھا۔ دشمن کے کھجور کے باغات ہرگز نہ کاٹے اور جلائے جائیں۔ [مصنف عبد الرزاق]

تبصرے بند ہیں۔