انسانیت سوز جرائم، اقلیتوں کا قتل عام اور سیاسی سرپرستی

سید منصورآغا

دہلی ہائی کورٹ کی ایک دورکنی بنچ نے 1984میں سکھ کشی کے کیس میں ایک سینئر سیاسی لیڈر کو تا حیات قیدکی سزا سناتے ہوئے یہ نشاندہی کی ہے کہ ہمارے ملک میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی سزا کا کوئی موثرقانون نہیں۔ جسٹس ایس مرلی دھراورجسٹس ونود گوئل پر مشتمل بنچ نے ایسے معاملات میں قانون کو لاگو کرنے کیلئے ایک مضبوط نظام پرزوردیا اور کہا کہ ان جرائم میں حصہ لینے والوں کو سیاسی حفاظت مل جاتی ہے اس لئے ان کو سزانہیں ملتی۔ عدالت نے خاص طور سے گجرات 2002، مظفرنگر 2013، ممبئی 1993 وغیرہ میں مسلم کشی کی وارداتوں اور2008میں اڑیسہ کے کندھمال میں عیسائیوں کی اجتماعی ہلاکت کو حوالہ دیاہے اورکہا ہے کہ یہ ایسے ہی چند معاملے ہیں جو سیاسی سرپرستی میں ہوئے۔ ہم ان میں 18فروری 1983 کے دن آسام میں نیلی کے علاقہ میں جھگی بسیتوں کے تین ہزارسے زیادہ مسلم باشندوں کے قتل، 1986میں ہاشم پورہ میں 38مسلمانوں کے حراستی قتل اور 1970میں بھونڈی، جل گاؤں اورمہد میں مسلمانوں کی منصوبہ بند ہلاکت اوراملاک کی تباہی، اوراکتوبر1989کے بھاگل پورفسادات کو شامل کرنا چاہیں گے جس میں شہراوردیہات میں ایک ہزارسے زیادہ مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا تھا۔ عورتوں اوربچوں سے بھری بس کو جلا دیا گیا۔ یہ سب عدالت کے مشاہدہ کے عین مطابق بجا طور پر ’’سیاسی سرپرستی وحفاظت میں تھوک میں ہلاکتوں‘‘ کی وارداتیں ہیں۔ بیشک بھاگل پور معاملہ میں اور ہاشم پورہ کیس میں چندافراد کو سزا ہوئی۔ گجرات میں بھی تیستاسیتلواد کی این جی او’سی جی او‘ کی کوششوں سے چند خطاکاروں کو سزاہوئی جن میں ایک سابق وزیر بھی تھیں، مگرسیاسی تحفظ کام آیا اورہائی کورٹ سے بری ہوگئیں۔ان میں سے کسی بھی کیس میں وہ سیاسی گرگے گرفت میں نہیں آئے جو ان جرائم کے سرغنہ ہیں۔

عدالت کا مشاہدہ ہے کہ’’یکم تا4 نومبر1984میں سکھوں کا جو قتل عام ہوا وہ سیاسی لیڈروں کا کرایا ہوا تھا اوراس میں نفاذ قانون کی ذمہ دارایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔‘‘ یہ وہ مشاہدہ ہے جس کی بازگشت تقریباً ہر فسادکے بعد میڈیا میں، خاص طورسے اردومیڈیا میں سنائی دیتی ہے۔ لیکن کسی کے کان پرجوں نہیں رینگتی۔

 1984کے سکھ کش فساد کا معاملہ توزرامختلف ہے، لیکن ملک میں رونماہونے والے پانچ ہزارسے زیادہ مسلم کش فسادات کے بہانے چاہے مختلف ہوں مگران سب کے روح رواں وہی سیاسی لیڈر ر ہے جو غیرہندواقلیتوں کومٹادینے، ان کی شناخت کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بیشک بیشترفسادات کانگریس کے دورمیں ہوئے، مگرانمیں وہی ذہنیت کارفرمارہی جس کو پہلے مہاسبھائی اوراب سنگھی کہا جاتا ہے۔ بیشک کانگریس نے اپنے سینے پرسکولرزم کا بڑا سا تغمہ (تمغہ نہیں) لگا رکھا ہے مگر ہر دور میں اس میں سنگھی، نیم سنگھی اورسنگھ حامی لیڈر موجودرہے ہیں۔ 1965میں جب پاکستان کے ساتھ مسلح جھڑپیں ہوئیں مرکزی سرکار نے سول ڈفینس کے کام میں جس طرح آرایس ایس کو ساتھ لیا اوربعد میں اس کی تعریف کی وہ آزادہندستان کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ ’ہندو افتخار‘ کی بحالی روزاول سے کانگریس میں شامل باثرمتعصبلیڈروں کے ایجنڈے میں رہی۔ اسی لئے ملک تقسیم ہوا۔ اسی کے تحت جواہرلعل نہرو کی رائے کو نظرانداز کرکے سومناتھ مندرکی نئی تعمیرہوئی اوراس مقام پرصدیوں سے موجود مسجد کو دوسری جگہ منتقل کردیاگیا۔

بہرحال یہ توضمنی باتیں ہیں، جن کا ذکریاددہانی کیلئے کردیا گیا۔ لیکن عدالت کے اس مشاہدے کے بعد کہ یہ فسادات سیاسی پشت پناہی میں ہوئے ہیں، اس الزام میں کوئی شک نہیں رہ گیا۔ 2002 میں گجرات میں مسلم کشی کی وارداتیں توابھی تک ذہنوں میں تازہ ہیں۔ریاست کے سابق ڈی جی پی مسٹرپی سریکمار نے اپنی کتاب ’Gujarat behind the curtain‘ (اردوترجمہ ’پس پردہ گجرات‘ ؛ناشرفاروس میڈیا، نئی دہلی۔ 25)میں گودھرا میں ریل میں آگ کی واردات سے لے کر ریاست کی سیاسی قیادت کی سرپرستی میں ایڈمنسٹریشن کی چھپی اورکھلیمددسے مسلم نسل کشی کی اس بھیانک واردات کی جو تفصیلات لکھی ہیں ان کوپڑھ کررونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

مودی جی کا بیان:

وزیراعظم نریندرمودی نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انصاف میں تاخیر کے حوالے سے کہا ہے کہ’’ چارسال پہلے کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ کانگریس لیڈر کو سزا مل سکتی ہے۔‘‘ بجافرمایا۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا۔ لیکن اگراس انصاف کاکچھ کریڈت سرکار کو بھی جاتا ہے تو انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جس طرح سکھ بھائیوں کو دیر سے سہی، ادھورا ہی سہی، انصاف ملا، اسی طرح گجرات، نیلی، ممبئی، کندھمال وغیرہ کے مظلوموں کو بھی انصاف ملے اوریہ جو درجنوں لوگ پچھلے چارسال میں ہجومی تشدد میں مارے گئے ہیں ان کو بھی انصاف ملے۔ورنہ آپ کا یہ کہنا بھی بس ایک جملہ ہی رہے گا۔

1984 کا پس منظر

اس فتنہ وفساد کی جڑ آنندپورصاحب قرارداد پرپرتشدد اصرار میں ہے۔1972 میں اکالی دل کو (جو بھاجپا کی اتحادی پارٹی ہے) انتخابات میں کراری شکست ہوئی۔ چنانچہ اس نے فرقہ ورانہ سیاسی شدت پسندی کا دامن تھاما، اور1973میں ایک قرارداد مطالبات منظورکی جو ’انندپورصاحب قرارداد‘ کہلائی۔ اس میں دو مطالبے اہم ہیں۔ اول ریاست کو داخلی معاملات میں خودمختاری دی جائے اور اورسکھوں کو برتری حاصل ہو۔دوسرے سکھ مت کو ہندودھرم سے الگ تسلیم کیا جائے۔ ہمارے علم اور مطالعہ کی حد تک ان مطالبات میں کچھ پہلو ناقابل قبول ضرور تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ ان پر توجہ نہیں دی جانی چاہئے تھی۔قبل آزادی جب ماسٹر تارا سنگھ نے سکھوں کیلئے الگ نظام کا مطالبہ کیا آخر ان کے ساتھ بھی توبات چیت سے ہی راہ نکلی تھی۔ سکھ قوم نے ملک کی حفاظت اورترقی میں جو نمایاں رول ادا کیا ہے، وہ بے مثال ہے۔ان کوجو شکایت ہوئی اس کو دورکرنے کیلئے سنجیدہ ماحول میں غور وفکرکا جمہوری عمل شروع نہیں ہوسکا اور تحریک کو ایک دوسری سکھ تنظیم ’دمدمی ٹکسال‘ کے لیڈرجرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے اچک لیا۔سرکار نے ان کے ساتھ نرمی دکھائی۔ وہ دہلی آتے اورکھلے عام اجتماعی ہلاکت کے غیرقانونی اسلحہ کے ساتھ گھومتے اور قانون خاموش تماشائی بنا رہتا۔منشاء غالبا یہ تھی کہ اکالی دل کو دوسری سکھ تنظیم زیرکردے۔لیکن بات جلد ہی ہاتھ سے نکل گئی۔جب 1983میں ان کو گرفتارکرنے کی کوشش کی گئی تووہ دربارصاحب میں چھپ گئے۔ ان کا گروہ بھاری اسلحہ سے لیس تھا۔ سرکار نے تحمل کے بجائے عجلت سے کام لیا۔ سرکاری اقبال کی خاطر آپریشن بلواسٹار کرڈالا۔ اس فوجی کاروائی میں دربارصاحب کو سخت نقصان پہنچا۔ بھنڈرانوالہ اوران کے ساتھی تومارے گئے مگر دربار صاحب کی بے حرمتی سے سکھوں کے مذہبی جذبات شدید مجروح ہوئے۔ اسی کے بعد پی ایم کے سکھ محافظوں نے شدید اعتماد شکنی کی اوروزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی کو قتل کردیا۔ ہرچند کہ اس وقت صدرجمہوریہ ایک سکھ رہنما گیانی ذیل سنگھ تھے جو وزیر داخلہ رہ چکے تھے۔ ڈاکٹرکرن بیدی شمالی دہلی کی ڈی سی پی تھیں اوراپنی جرأت و لیاقت کی وجہ سے مشہور تھیں۔ اوربھی بہت سے سکھ افسران تھے، مگر اندراجی کے قتل کے بعد غم وغصہ کو سیاسی سرپرستی میں سکھ قوم کے خلاف خوفناک تشدد میں بدلنے سے روکا نہیں جاسکا۔بیشک سیاسی لیڈروں نے قابل اعتراض رخ اختیار کیا۔ میں نے خود وہ منظردیکھا ہے۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو جیل میں ڈالدینیسے اس خطا کا تدارک نہیں ہوجائے گا جو اس وقت سرزد ہوئی۔ اس پر غورہونا چاہئے کہ آئندہ ایسا کچھ نہ ہو۔

قانون کا نفاذ ہو:

 ہم نے اپنے سابقہ کالم میں چارریاستوں میں کانگریس کی کامیابی کے حوالہ سے کہا تھا کہ نئی سرکاروں کو نفاذ قانون کو بناتعصب نافذ کرنے پر مستعد ہونا چاہئے۔ اس معاملہ میںآزاد ہندستان کا نظام ہمیشہ کمزوررہا۔ اب بات یہاں تک آگئی ہے کہ سپریم کورٹ کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ملک کی برسراقتداپارٹی اس کے فیصلوں کے خلاف سیاسی محاذ گرم کئے ہوئے ہے۔ سبریمالا ہو، یا اجودھیا یا ہادیہ (سابق نام اکھیلا ) کے والد اشوکن کا بھاجپا میں شامل ہونا ہرگوشے سے عدلیہ اورنفاذ قانون کے خلاف ماحو ل سازی جاری ہے۔

آخری بات

ہرچند کہ ان فسادات میں سرکاری مشینری اورسیاسی قیادت ملوث رہی ہے لیکن ان کے لئے کھلے عام کسی سیاسی پارٹی نے کوئی قرارداد منظورکرنے کی ہمت نہیں کی ہے۔اگراب بھی نفاذ قانون کے لئے پوری شدت سے آواز نہیں اٹھی، تو یہ بھی ہونے لگے گا۔ آئین کی کاپی جلانے والے اورپولیس افسرکو ہلاک کرنے والے کب تک سیاسی پناہ میں رہیں گے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔