انسان اور زمین کی حکومت (قسط 80)

رستم علی خان

چنانچہ ہدید نے وہ خط سوتی ہوئی بلقیس کے سینے پر دھرا اور خود اڑ کر روشندان میں جا بیٹھا تاکہ دیکھ سکے کہ بلقیس خط کو دیکھ کر کیا رد عمل اپناتی ہے- پس جب بلقیس سو کر اٹھی تو اس نے اپنے سینے پر ایک خط بمہر رکھا ہوا دیکھا- خط کو دیکھ کر بلقیس متعجب ہوئی اور اپنی خواب گاہ کی کھڑکیاں دروازے دیکھے تو سب بند تھے- یہ معاملہ دیکھ کر اور بھی متعجب و خوفزدہ ہوئی کہ بند کمرے میں خط کیوں اور کیسے پنہچا اور یہ کہ خط لانے والا بھی نظر نہیں آتا- چونکہ اس وقت یہ رواج تھا کہ جو قاصد خط لیکر جاتا وہ خط خود بادشاہ یا ملکہ کی خدمت میں پنہچاتا اور خط کا جواب جو بھی ہوتا لیکر واپس آتا- اس لیے بلقیس کو حیرانی ہوئی کہ یہ کون ایسا قاصد ہے جو بند کمرے میں سوتے ہوئے خط اوپر رکھ کر چلا گیا اور اس کے آنے جانے کی بھی خبر نہ ہوئی-

چنانچہ بلقیس اپنی آرام گاہ سے باہر نکلی اور اپنے تمام وزیروں مشیروں کو اکٹھا کیا- پہریداروں سے اس خط اور اس کے لانے والے کی بابت دریافت کیا لیکن سب نے لاعلمی کا اظہار کیا- تب وزیر اس کے کہنے لگے کہ خط پڑھ کر دیکھ لینا چاہئیے کس کیطرف سے ہے اور یہ کہ خط کا مضمون کیا ہے- تب بلقیس نے اپنے وزیروں سے کہا جیسا کہ ارشاد ہے؛ "کہنے لگی بلقیس اے دربار والو میرے پاس ڈال دیا گیا ہے ایک خط عزت کا اور وہ خط ہے سلیمان بادشاہ کیطرف سے اور وہ یہ ہے، شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے- کہ زور نہ کرو میرے مقابل اور چلے آو میرے پاس مسلمان ہو کر-” بلقیس نے خط کا مضمون نہایت تعظیم و تکریم سے پڑھا- اور پھر اپنے درباریوں سے کہا کہ کسی سلیمان کیطرف سے ہے جو ہمیں اسلام میں داخل ہونے کو کہتا ہے- بصورت دیگر جنگ کا اعلان کرتا ہے-

چنانچہ خط پڑھنے کے بعد بلقیس نے اپنے دربایوں سے اس بارے مشورہ مانگا اور کہنے لگی، ارشاد ربانی ہے؛ "کہنے لگی اے دربار والو جواب دو مجھ کو میرے کام میں مقرر نہیں کرتی کوئی کام جب تک تم حاضر نہ ہو-” یعنی اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ اب مجھے مشورہ دو کہ اس خط کا کیا جواب دیا جائے سلیمان علیہ السلام کو اور پھر کہا کہ تم سب کو معلوم ہے کہ میں بنا مشاورت تم سب کی کوئی کام سرانجام نہیں دیتی- منقول ہے کہ اللہ تعالی نے ملکہ بلقیس کو ایسی عقل سلیم عطا فرمائی تھی کہ عورت ہو کر امور سلطنت بہت خوش اسلوبی اور دانشمندی سے سنبھالا کرتی- پس جب بلقیس نے اپنے درباریوں سے مشورہ طلب کیا تو کہنے لگے- جیسا کہ ارشاد ہوا؛ "کہا انہوں نے ہم صاحب قوت اور صاحب جنگ سخت ہیں اور کام تیرے اختیار ہے سو تو دیکھ لے جو حکم کرے-” یعنی بلقیس کے درباری کہنے لگے کہ ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اگر سلیمان جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم بھی طاقت اور قوت رکھتے ہیں اور جنگ کرنے کے واسطے بھی تیار ہیں- باقی تمہیں جو بہتر لگے سو کرو ہمیں جو حکم کرو گی ہم اس واسطے تیار ہیں- یعنی اگر جنگ کرنی ہے تو بھی اور اگر بات چیت سے معاملات طے کرنے ہیں تو بھی ہم تمہارا حکم مانیں گے-

بلقیس نے اپنی قوم کی باتوں سے اندازہ کر لیا کہ یہ لوگ اپنی طاقت و قوت پر نازاں ہیں اور جنگ کرنے پر مائل نظر آتے ہیں- چنانچہ کہنے لگی کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے خط میں مال و دولت یا ملک و املاک کی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے اسلام کی دعوت کی ہے اور لکھا ہے کہ ہم لوگ آفتاب پرستی چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو جاویں- اور اگر ہم ان کا حکم نہ مانیں تو ہمارا ملک اور ولایت برباد کر دیں گے- یہ دعوت کسی بادشاہ سے زیادہ ایک نبی اور پیغمبر کی معلوم ہوتی ہے- اور پھر کہنے لگی بلقیس کہ جس وقت دو بادشاہ کسی بستی میں لڑتے ہیں تو خراب کرتے ہیں اس بستی کو- اور وہاں کے سرداروں کو بےعزت کرتے ہیں- جنگوں میں عزت دار بھی زلیل بھی ہو جایا کرتے ہیں- اگر تم جنگ پر مائل ہو تو یاد رکھو اسی طرح ہمارا ملک خراب ہو گا اور عزت والے زلیل ہوں گے-

تب درباری کہنے لگے جو تمہیں ٹھیک لگتا ہے وہ کرو اور ہم تمہارا ہر حکم مانیں گے- تب کہنے لگی کہ ہم پہلے سلیمان کو آزمائیں گے- اسے ہدیہ بھیجیں گے- پس اگر وہ نبی اور پیغمبر ہوئے تو ہرگز ہدیہ قبول نہ کریں گے- اور ہمارے اسلام قبول کیے بنا نہیں مانیں گے-

چنانچہ بلقیس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ میں حضرت سلیمان کی طرف ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تاکہ دیکھوں کہ اگر وہ پیغمبر ہیں تو ہرگز ہدیہ قبول نہ کریں گے اور بنا ہمارے اسلام لائے نہ مانیں گے- اس صورت میں جب ہمیں معلوم ہو کہ وہ ایک پیغمبر ہیں ان سے جنگ کرنا کسی طور ٹھیک نہیں ہو گا- تب اس کے درباریوں نے کہا تمہاری جو مرضی آوے سو کرو اور ہمیں پاو گی اپنے فرمانبرداروں میں سے-

چنانچہ بلقیس نے طرح طرح کے ہدئیے اور تحائف حضرت سلیمان کے پاس ایلچی کے ہاتھ بھیجے- حضرت سلیمان تخت پر بیٹھے تھے اور ہزار وزیر سونے چاندی کی کرسیوں پر ان کی ملازمت میں بیٹھے ہوئے تھے- اور دیو پری جنات گردا گرد حضرت سلیمان کے مودب کھڑے تھے- اور ہزاروں پرند ان کے سر پر سایہ کیے ہوئے تھے- تبھی ہدہد جو وہیں بلقیس کے محل میں پوری خبر لینے اور تمام کاروائی دیکھنے کو بیٹھا تھا- حضرت سلیمان کے پاس خبر لیکر پنہچا کہ بلقیس نے بہت سے تحائف اور ہدئیے اور سات اینٹیں سونے کی اور سات چاندی کی اور سات پردے زربفت کے حضور کی نذر بطور ہدیہ بھیجے ہیں- اور وہ اس سے آپ کی پیغمبری اور رسالت کا امتحان چاہتی ہے-

سلیمان علیہ السلام نے یہ بات سنکر اپنے ملازم دیووں کو حکم دیا کہ بادشاہی دروازے کے سامنے میدان کی دیوار سے سونے چاندی کی جو بنی ہے سات اینٹیں سونے کی اور سات اینٹیں چاندی کی اور سات پردے زربفت کے وہاں سے اٹھا کر لے آو- چنانچہ جب بلقیس کے ایلچی ہدئیے و نذرانے لیکر کے پنہچے- رسول شاہی دروازے کے میدان کی دیوار کے پاس جب آئے دیوار سب سونے چاندی کی اور یہ عظمت و حشمت دیکھ کے بھونچکا رہ گئے- اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم یہ چند طشت سونے کی سلیمان کی نذر کیونکر گزاریں گے- ہم دیکھتے ہیں کہ سب در و دیوار ان کی بارگاہ کے میدانوں میں سونے چاندی کے ہیں- اور ہماری یہ چودہ اینٹیں سلیمان کی عظمت کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہیں- اور جس دیوار سے حضرت سلیمان نے سونے چاندی کی اینٹیں اور پردے زربفت کے کھلوا کر منگوا لیے تھے- جب بلقیس کے ایلچی وہاں پنہچے وہ دیکھ کر کہا کہ شائد ہم کو چور ثابت کر کے پکڑنے کو یہ فریب رچایا ہوا ہے-

القصہ بلقیس کے ایلچی سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پنہچے اور نذریں گزاریں اور اپنی شرطیں بیان کیں- تب حضرت سلیمان نے ان سے فرمایا کہ تم مجھے اپنے تئیں اتنے سے مال سے مدد دیتے ہو جو میرے اللہ نے مجھے بےحد و حساب عطا کیا ہوا ہے- اور اس سے بہت بہتر عطا کیا ہے جو تمہیں عطا کر رکھا ہے- پس پھر جاو اپنے تحفوں کے ساتھ واپس اور انتظار کرو ان لشکروں کا جنہیں ہم تمہارے ساتھ جنگ کرنے کے واسطے بھیجیں گے- پھر نکال دیں گے تم کو وہ تمہارے شہر سے زلیل و رسوا کر کے-

چنانچہ بلقیس کے ایلچی وہاں سے واپس ہوئے اور سب ماجرا جا کر بلقیس سے بیان کیا- اور حشمت و عظمت حضرت سلیمان کی بیان کی اور یہ بھی کہ دیوار سے سات اینٹیں سوتے چاندی کی اور سات پردے زربفت کے غائب تھے- تب بلقیس نے کہا کہ بیشک سلیمان علیہ السلام علم والے ہیں کہ ہمارے بھیجے ہدئیوں کے بارے جان لیا اور پھر دیوار سے پردے اور اینٹیں نکلوانے کا مطلب تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہمارے واسطے اس محل میں جگہ ہے-

تب کہنے لگی کہ ہم بھی سلیمان علیہ السلام کو علم کے زریعے سے آزمائیں گے اگر وہ واقعی پیغمبر ہیں تو معجزہ دکھائیں گے ہم کو سو تب ہم ایمان لاویں گے- تب بلقیس نے سو غلام اور لونڈی سب کو ایک سا لباس پہنا کر اور نقاب اوڑھا کر اور ٹکڑا یاقوت ناسفتہ ڈبیا میں رکھ کر اور چند مادہ اسپ ساتھ کرہ کے ملا کر اور ایک شیشہ واسطے امتحان اور امتیاز کے سلیمان کے پاس ایلچیوں کے ہاتھ بھیجا اور کہا کہ تم جاو اور یہ سب سلیمان کے پاس پنہچاو۔

تبصرے بند ہیں۔