چندر شھیکر راو: سلام تجھ کو اور تیری اڑان کو

سلیمان سعود رشیدی

ہم کہ مایوس نہیں ہیں انہیں پا ہی لیں گے
لوگ کہتے ہیں کہ ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے

عرش صدیقی نے شاید یہ شعر کے چندرشھیکرراو کے لئے ہی کہا تھا، کبھی نہ جھکنے کبھی نہ رکنے والالیڈر نے تیرہ سال کی طویل جدوجہد کے بعد ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ۲۰۱۴ کے الیکشن میں  جئیت سے شروع ہونے والایہ  سلسلہ بالآخر اس الیکشن میں بھی جیت تک آپہنچا اور کے چندرشھیکرراو وزیراعلی  بن گئے۔

امید کی شمع اپنے خون پسینے سے روشن رکھنے والے کے چندرشھیکرراو سے اس قوم نے انگنت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں،کے چندرشھیکرراو ان امیدوں پر اس بارکتنا پورا اتریں گے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن کے چندرشھیکرراو کی تقاریر کا خلاصہ نکالیں تو ایک ہی بات سامنے آئے گی اور وہ ہے، تلگانہ میں تبدیلی، لیکن سیاست کے تالاب میں آزمائے ہوئے مگر مچھوں کے ساتھ کے چندرشھیکرراو تبدیلی کیسے لائیں گے اور اس گندے تالاب کو شفاف جھیل میں کیسے بدل پائیں گے اس کا جواب تو راوہی خود دے سکتے ہیں۔

شاید راو علامہ اقبال کے اس شعر کا مطلب سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے  تلنگی سیاست میں کودے، راونے تلگانہ  کو فلاحی ریاست بنانے اور اس مقصد کے حصول کے لئے تلگانہ راشٹرسمتی کی بنیاد رکھی، تقریباً ۱۳ سال کی جدوجہد کے بعد دوہزار چودہ میں راوتلنگانہ  کی سیاست میں پہلی قوت اور پورے ہندوستان میں ۸ وایں مقام حاصل کیا اور پھر ۲۰۱۸ میں ایک بار پھر اکثریت کے ساتھ   سامنے آئے۔

آج اس ریاست کی سڑکوں پر ،ہسپتالوں ،میں اسکولوں میں پارکوں میں ،عدالتوں میں ہر جگہ کے   چندرشیھکرراوہی  کے  چندرشیھکرراوکے نعرے ہیں، کون ہے جوکے  چندرشیھکرراوکو ایک دلیر لیڈر کے طور پر نہیں جانتامگرجسقدر بھیک چندرشیھکرراوکومیں جانتاہوں اس کے لیے میں اتنا ہی کہنا چاہونگا کہ کرپٹ لوگ کے  چندرشیھکرراوسے خوفزدہ نہیں ہیں بلکہ اس کی طرز سیاست سے خوفزدہ ہیں، میں جانتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی حصول تلنگانہ کی جنگ لڑنے والے اس عظیم رہنما کو ایک دن بھی مایوس ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ،مگر ایک فکر اس کے چہرے پرہمیشہ صاف دکھائی دی ہے اور وہ ہے اس ریاست کے غریبوں کی فکر ،کے  چندرشیھکرراوکے پاس لگتا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اور بات ہی نہیں ہے اور وہ یہ کہ اس قوم کے پاس پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں ہے ، اس قوم کا مہنگائی نے جینا محال کردیا ہے،برقی کی مسدودی اس قوم پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑرکھی تھی ،اس قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا ہے،اس قوم کے لیے صحت کا حصول مشکل ہے اس قوم کی مقدر میں اچھی تعلیم کیوں نہیں ہے؟ ،اور پھر اس قسم کی گفتگو کے ساتھ ایک غصہ بھی دیکھا !! اور وہ یہ کہ میں اس قوم کواس حال میں پہنچانے والوں کو نہیں چھوڑونگا اس نے ہمیشہ للکاللکار کر کہا جس نے میرے اس ریاست کی عوام کا یہ حال کیا ہے میں ان سب کو وزارتوں سے دست بردار کرونگا !!! اور پھر  کے چندرشیھکرراوایک مظبوط اعصاب کا مالک لیڈر اس نے اپنا ایک بڑا اور اہم وعدہ پوراکردیا کیونکہ اس نے اپنی انتھک کوششوں سے ریاستی لٹیروں میں بھگڈر مچادی تھی ہم نے دیکھا کہ کہیں پورا خاندان ملک سے فرار ہونے کی کوششیں کرتا دکھائی دیا تو کہیں کوئی بھائی اور بہن گرفتاری کے خوف سے خوفزدہ دکھائی دیئے ،ہر کوئی جان چکا تھا کہ اس وقت اسٹیٹ کی کئی  قوتیں چندرشیھکرراوسے اس ہی لیے خوفزدہ ہ ہیں کہ وہ عوام کو جگا رہاہے عوام کے سامنے ایسے حکمرانوں کے چہرے بے نقاب کررہاہے جوپورے خزانے پر ہاتھ صاف کرکے بھی عوام کو صاف پانی تک نہ دے سکے معصوم بچوں کو دودھ کی بجائے زہر پلانے والوں کے خلاف لڑنا اگر جرم ہے تو پھر یہ جرم ہی سہی یہ سوچ کر پوری قوم بھی چندرشیھکرراوکے ساتھ کھڑی ہوگئی۔

ہم نے دیکھا کہ۱۳سالہ طویل جدوجہد کے بعد چندرشیھکرراو چوروں اور ڈاکوؤں کے لیے دہشت کی علامت بن گیا اور اس کے ساتھ عوام کے دلوں کاوزیراعلی بھی، عوام نے چندرشیھکرراوکو وقت سے پہلے ہی آزما لیاتھا کیونکہ چندرشیھکرراونے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والوں کو سزائیں دلانے کا وعدہ جو پورا کیا تھا ، اب تو عوام کی خوشی کا کوئی حال ہی نہیں ہے اور ٓاجکل تو بچہ بچہ ہی چندرشیھکرراوکے نام کے ساتھ وزیراعلی کا لفظ لگادیتاہے ،ایسا صرف اس لیے ہورہاہے کہ چندرشیھکرراو نے قومی مفادات کے خلاف ہونے والے غلط فیصلوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، چندرشیھکرراوا میں ایمانداری اور سچائی کے فروغ کے لیے کام کررہاہے اور یہ ہی بات ان کے مخالفین سے برادشت نہیں ہورہی ہے۔کیونکہ مخالفین اپنی لوٹ ما رکو چھپانے کے لیے اس قوم کو جھوٹ کے اندھیروں میں رکھنا چاہتے تھے ، مگر قوم نے خود ہی دیکھ لیا کہ جھوٹ کی سیاہی کے وہ سیاہ دھندلکے دھل چکے ہیں۔ اب انہیں ہر طرف اجالاہی اجالا نظر آنے لگا ہے طاقتور مافیا کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔

مگر ہم نے دیکھا کہ تلگانہ کی لاکھوں عوام کو پھر سے ایک موقع ملا کہ آؤ پھر سے اپنے لیڈروں کو چن لوتاکہ تم اپنے بہتر مستقبل کی ضمانت لینے کے لیے کسی ایک کے ہوجاؤ،مگر یہ الیکشن بھی کیا خوب الیکشن تھے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بارالیکشن سے پہلے ہی نتیجہ آچکا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح بھی ہوتا چلا گیا کہ عوام کا فیصلہ بھی اٹل ہے، اس سے قبل ہم نے دیکھا کہ ملک میں جاری انتخابی مہم خون سے رنگین رہی ہے بہت ہی عجیب وغریب صورتحال سے دوچار انتخابی مہم میں گزشتہ ادوار کی طرح گھما گھمی بھی کچھ کم رہی، انتخابی امیدواروں کی جانب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے بے پناہ پابندیوں کے باوجود زور آزمائی میں کسی قسم کی کوئی کسر تو نہ رہی مگر سڑکوں پر جو الیکشن کے زمانوں میں پوسٹروں اور بینروں کی بہاریں تھی اس کی شدت نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن اس ساری صورتحال کے باوجود ایسا لگتا تھا کہ عوام نے صرف ایک ہی شخص کی کامیابی کے لیے زائچہ نکال رکھا ہے اور وہ ہے چندرشیھکرراو۔

ان تمام باتوں کے باوجودتلگانہ  کی تاریخ کے انوکھے ترین انتخابات جس میں ووٹنگ سے قبل ہی اس ریاست  میں وزیراعلی کے لیے وزیر اعلی کے حق دار چندرشیھکرراوکا نام لیا جارہا تھا۔ چندرشیھکرراوکا ماننا ہے کہ جہاں کرپشن ہوگی وہاں کا نظام مفلوج ہوگا، چندرشیھکرراوکے پاس عزت کی پہلے بھی کوئی کمی نہ تھی اور آج بھی کوئی کمی نہیں ہے ، چندرشیھکرراونے کینسر جیسے ہسپتال کو بناکر کروڑوں عوام سے جو دعائیں وصول کی تھی اس کی قبولیت کا دن بھی آچکاہے کیونکہ یہ قوم ایک عظیم لیڈر کو جمہوریہ ہندوستان کے ریاست تلگانہ  کا وزیراعلی بنتے ہوئے دیکھے گی۔یہ صرف ریاست کی ہی نہیں بلکہ اس قوم کی بھی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے اس ریاست کے ستر سالوں میں زیادہ سے زیادہ ایسے ہی حکمران ملے ہیں جو اوپر سے لیکر نیچے تک لوٹ کھسوٹ کے ہی شوقین تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی ایک شعبہ اس ریاست  میں ایسا نہیں ہے جہاں کرپشن اور چوربازاری کا راج نہ ہو کوئی معمولی سا کلرک ہو یا پھر بڑے سے بڑاافسر رشوت لیے بغیر کوئی کام کرنے کوتیارنہیں ہوتا مگرچندرشیھکرراونے جس انداز میں اس ملک کے سب سے زیادہ طاقتورمانی جانی والی دو طاقتوں کو کرپشن اور چھوٹے وعدوں کی بنا پر ریاست سے دور رکھا اس نے تو جیسے پوری قوم کو ہی سکتے میں ڈال دیاہے کہ ایک ایسا آدمی جس کے پاس کوئی ریاستی طاقت بھی نہیں ہے اور سوائے اللہ اور عوام کی طاقت کے اس کے پاس کوئی ایسی جادو کی چھڑی بھی نہیں ہے کہ جس سے وہ اس قدر بڑا کام کرسکتاہے جسے کرنے سے وقت کے بڑے بڑے جرنیل بھی کانپتے رہے ہیں مگر کسی نے سچ کہاہے جن کے جزبے صادق اور جوان ہوان کی منزلیں خود چل کر ان کے پاس آجاتی ہیں جیسے کہ وقت سے پہلے وزارت اعلی کا تاج کے  چندرشیھکرراوکے پاس خود چل کر آچکاہے ۔

اور آج جب اپنے ارد گرد کے لوگوں کی  باتیں سنتا ہو تو ان کو کے  چندرشیھکرراوسے بہت سی امیدیں ہیں سب سوچتے ہیں نئی حکومت بننے کے بعد پینے کا صاف پانی، اور مکمل برقی نیز ملاوٹ سے پاک خالص دودھ، کھانے پینے کی تمام د و نمبر اشیاء مارکیٹ سے اٹھا کر تلف کر دی جائیں گی اور حکومتی جماعت میں شامل پرانے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو خیر باد کہہ کر شامل ہونے والے تمام فرشتہ سیرت، سیاستدان آج کے بعد بہترین، با اخلاق اور انسان دوست سیاست کریں گے ان کے قول و فعل میں نہ کوئی تضاد ہو گا اس حکومت کے وزرا مشیروں اور ارکان اسمبلی نہ تو رشوت لیں گے اور نہ ہی ٹھیکوں میں سے کمیشن کے خواہشمند ہوں گے، یہ سیاست و حکومت کو کمائی کا ذریعہ نہیں خدمت انسانی کا موقع سمجھیں گے اور عوام کی عدالت کے سامنے جوابدہ ہوں گے، کیا کر یں سب سمجھتے ہیں کے  چندرشیھکرراو خود نہیں کھاتا تو دوسروں کو بھی نہیں کھانے دیگا، لیکن لو گ یہ نہیں جانتے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔

ہر نظر  چندرشیھکرراوپر لگی ہوئی ہے۔ دل تو یہ چاہتا ہے کہ یہ نظریں کبھی نہ ہٹیں۔ مگر کیا کیجیے کہ معاملہ سیاست کا ہے۔ اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بلکہ یہ وہ وادی ہے جہاں وقت کی سنگلاخ حقیقتیں قدم قدم پر آپ کے پاؤں سے الجھتیں ہیں۔ اب ان سب سے بچ کر راو لوگوں کی امیدوں پر کیسے پورا اتر تا ہے یہ ایک آرٹ ہے جو کے  چندرشیھکرراو ہی بہتر جانتا ہے۔

1 تبصرہ
  1. عبدالغفار گدوال کہتے ہیں

    ماشااللہ بہت ہی بہترین ۔انداز میں تمام تلنگانہ کی عوام کے جذبہ اور دلی مسرتوں کی ۔صاحب قلم نے بہترین عکاسی کی ہے ۔۔اور قابل ریاستی وزیراعلی کے سی آر کے مثبت عزائم کی قابل تعریف ترجمانی کی ھے

تبصرے بند ہیں۔