مدارس کی صحافتی خدمات پر ایک طائرانہ نظر

سہیل انجم

ہندوستان میں بڑی تعداد میں دینی مدارس قائم ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا کوئی باضابطہ سروے نہیں کیا گیا اس لیے ان کی صحیح تعداد کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔ لیکن بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی تعداد ہزاروں میںہے۔ ملک کا ہر بڑا ادارہ اپنا کوئی نہ کوئی رسالہ بھی شائع کرتا ہے۔اب تو متوسط ادارے بھی رسالہ نکالنے لگے ہیں خواہ وہ سہ ماہی ہی کیوں نہ ہو۔ جس طرح مدرسوں کی تعداد کا کوئی باضابطہ سروے نہیں کیا گیا اسی طرح اردو کے مذہبی مجلات کا بھی کوئی باضابطہ سروے نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم راقم کی ایک نامکمل تحقیق کے مطابق ان کی تعداد بہرحال تین سو سے زائد ہوگی۔ ہندوستان میں کسی مدرسے سے جاری ہونے والا پہلا مذہبی اخبار ”تحفہ ¿ حنفیہ“ تھا جسے بریلوی مسلک کے عالم دین مولانا قاضی عبد الواحد عظیم آبادی نے مدرسہ حنفیہ پٹنہ سے 1897 میں جاری کیا تھا۔ یہ دعویٰ ایک انگریزی اسکالر ڈاکٹر اوشا سانیال نے اپنے تحقیقی مقالہ ”برطانوی ہندوستان میں عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست: مولانا احمد رضاخاں بریلوی اور ان کی تحریک 1870-1920“ میں کیا ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ انگریزی میں لکھا گیا ہے جس کا اردو ترجمہ مذکورہ نام سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے 2010 میں شائع ہوا ہے۔ مولانا ثناءاللہ امرتسری نے 1903 میں امرتسر سے اخبار اہلحدیث جاری کیا تھا جو 1947 تک نکلتا رہا۔ وہ امرتسر کی ایک مسجد میں امام و خطیب بھی تھے۔ دار العلوم دیوبند سے جون 1914 میں دو مذہبی رسالے ماہنامہ ”الرشید“ اور ماہنامہ”القاسم“ جاری کیے گئے۔ ان کے مدیرمولانا حبیب الرحمن تھے۔ یہ رسالے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی کی یاد میں شروع کیے گئے تھے۔ مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے 1923 میں ایک دو ماہی رسالہ محدث جاری ہوا جو بعد میں سہ ماہی ہو گیا۔ وہ 1948 تک نکلتا رہا۔ آزاد ہندوستان میں حکیم عبد الشکور شکراوی نے 1951 میں دہلی سے ”اخبار اہلحدیث“ جاری کروایا۔ بعد میں ان کے فرزند حکیم اجمل نے شکراوہ میوات میں واقع اپنے تعلیمی ادارے سے 1976 میں ماہنامہ ”مجلہ اہلحدیث“ شروع کیا جو ستمبر 2020 میں ان کی حیات تک نکلتا رہا۔ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ سے 1940 میں پندرہ روزہ ”الہدیٰ“ جاری ہوا تھا جو غالباً اب بھی نکل رہا ہے۔ سری نگر سے 1942 میں ہفت روزہ ”مسلم“ اور 1955 میں مدرسہ ریاض العلوم جامع مسجد دہلی سے ماہنامہ ”الاسلام“ جاری ہوا۔ اسی طرح اہل تشیع نے بھی متعدد مذہبی پرچے نکالے اور قادیانیوں نے بھی۔ ایسے بہت سے پرچے اب بھی نکل رہے ہیں۔ ویسے پہلا مذہبی پرچہ ”مظہر الحق“ کے نام سے مولوی باقر نے 1843 میں دہلی سے نکالا تھا۔

 اس وقت جو رسائل و جرائد نکل رہے ہیں ان سے بہت سے لوگ وابستہ ہیں اور قومی پیمانے پر نہ سہی، مقامی سطح پر ہی ان کے بہت کچھ اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔ مذہبی رجحانات کے حامل اور تعلیم یافتہ افراد کے ایک محدود طبقے کے استثنا کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ ان رسائل کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان سے وابستہ افراد بھی ان کو لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔ اگر ہم دینی مجلات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں تو مذہبی صحافت کا ایک وسیع منظرنامہ ہماری نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ یہ منظرنامہ دو چار دنوں کی بات نہیں بلکہ تقریباً پونے دو صدی کا قصہ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اردو صحافت کے دامن کو مالامال کیا ہے۔ علوم اسلامی کے ماہرین کے زیر ادارت شائع ہونے والے ان جریدوں نے اردو دنیا کو ایک نئے جہان معانی کی سیر کرائی ہے۔ اس نے اردو صحافت میں کئی نئے ابعاد جوڑے ہیں اور اسلامی صحافیوں کی کھیپ کی کھیپ تیار کی ہے۔ بظاہر یہ مجلات صحافت کی دنیا میں کوئی بڑا ہنگامہ برپا نہیں کرتے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے مکتب فکر کی ذہن سازی اور قارئین کو حالات سے باخبر رکھنے میں جو رول ادا کیا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ یہ جریدے بظاہر بڑے بے مایہ نظر آتے ہیں۔ ان میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ ان کا انداز پیشکش بھی عموماً بڑا پھیکا اور غیر مو ٔثر سا ہوتا ہے۔ ان کا الگ سے عملہ نہیں ہوتا۔ ان کے مدیر باہر سے نہیں آتے بلکہ اساتذہ میں سے کسی کو ادارت کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ بہت کم مجلات ایسے ہوں گے جن کے مدیروں کو دوسرے کام نہ کرنے پڑتے ہوں۔ ان کو صحافت کی ٹریننگ بھی نہیں دی جاتی۔ ادارت کے فرائض انجام دیتے دیتے وہ کہنہ مشق اور تجربہ کار صحافی بن جاتے ہیں۔ یہ مجلات جہاں مختلف موضوعات پر اپنے قارئین کی رہنمائی کرتے ہیں وہیں وہ طلبہ کے اندر مضمون نویسی کی صلاحیت پیدا کرنے میں بھی اہم رول ادا کرتے ہیں۔

اگر کوئی طالب علم مضمون نویسی کا شوق رکھتا ہے اور اس کے اندر لکھنے کی صلاحیت ہے تو یہ پرچے اس کے لیے لانچنگ پیڈ ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے صفحات ایسے طلبہ کے لیے پہلی تجربہ گاہ ہیں۔ ان میں چھپنے کے بعد ان کے اندر مزید لکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ دھیرے دھیرے ایک اچھے قلمکار بن جاتے ہیں۔ وہ طلبہ کو صحافی بھی بناتے ہیں اور اگر کسی کے اندر صحافیانہ خوبو ہے تو اس کو ابھارتے اور نکھارتے بھی ہیں اور اس کی صحافتی لیاقت کو مہمیز کرتے ہیں۔ اسی طرح مدرسین بھی اگر لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ مجلات ان کے لیے بھی بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے جو تلخ بھی ہے کہ اردو اخباروں کی مانند ان مجلات کے قارئین کا حلقہ بھی باہر سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ پرچے دوسروں تک نہیں پہنچ پاتے یا دوسرے ان میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ اگر ان میں کوئی ایسا مضمون شائع ہوا ہے جو دوسروں تک بھی پہنچنا چاہیے وہ بھی نہیں پہنچتا۔ اس کے ذمہ دار مدارس کے منتظمین اور ان مجلات کے اہلکار خود ہیں۔ وہ اس کی کوئی کوشش نہیں کرتے کہ ان مجلات کے ایسے مشمولات کو جو برادران وطن سے متعلق ہوں یا جن میں بہت سی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ کیا گیا ہو ان تک پہنچائیں یا انھیں بتائیں۔

بعض اوقات ان میں ایسے بہترین مضامین شائع ہوتے ہیں جن سے اغیار کو بھی باخبر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حب الوطنی، قومی یکجہتی، فرقہ وارانہ یگانگت اور برادران وطن سے رسم و راہ اور دوستانہ تعلقات کے قیام سے متعلق بہت اچھے خیالات کا بھی اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہی ان کو پڑھتے بھی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دوسروں کو بھی ان مجلات کے ضروری اور اہم مباحث سے باخبر کیا جائے اور انھیں بھی حقیقی صورت حال بتائی جائے۔ اگر ان مجلات کے ذمہ داران اس سلسلے میں کوئی کوشش کرتے ہیں تو اس کی قدر افزائی ہوگی اور ان کی باتوں کا اثر بھی دوسروں پر پڑے گا۔ یوں تو ان مجلات میں مذہبی امور یا مسائل و فضائل سے متعلق مضامین شائع ہوتے ہیں لیکن بیشتر جرائد میں سیاسی مضامین بھی کثرت سے شائع ہوتے ہیں اور بعض مضامین بہت معیاری ہوتے ہیں۔ ان میں سیاسی حالات و واقعات کا بھرپور انداز میں تجزیہ کیا جاتا ہے۔ صرف ملکی سیاست پر ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست پر بھی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ لیکن متعدد مضامین عامیانہ ہوتے ہیں۔ بعض مجلات شدت پسند ہیں جن میں مسلکی تنازعات کو ہوا دی جاتی اور دوسرے مسالک کے پیروکاروں پر شدید انداز میں تنقید کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے معیاری مسلکی پرچے بھی نکلتے ہیں جن کے قارئین دوسرے مسلکوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان میں دوسروں کی تنقیص نہیں کی جاتی۔

بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی یا مسلکی مجلات کی بھی اپنی جگہ پر کافی اہمیت ہے اور ان مجلات نے بالخصوص مذہبی صحافت کے افق کو بڑی حد تک کشادہ اور وسیع کیا ہے۔ رواں ماہ میں اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر مختلف مقامات پر تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مدارس کے ذمہ داران بھی اس کوشش میں شریک ہوں اور کم از کم مسلکی مجلات کی صحافت کا ہی جائزہ لیں اور اس کی خامیوں و خوبیوں کا تذکرہ کریں اور خامیوں کو دور کرنے اور غیر معیاری مجلات کے معیار کو بلند کرنے پر تبادلۂ خیال کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔