موجودہ انتخاب میں کانگریس کس کس محاذ پر پچھڑ رہی ہے؟

صفدر امام قادری

        جمعہ کے روز کانگریس کے صدر راہل گاندھی انگریزی زبان کے ایک صحافی کے سوالوں میں گھر گئے۔ دیش، دنیا اور موجود ہ سیاست کی بہت ساری باتوں کے بعداس صحافی نے یہ سوال پو چھ دیا کہ کانگریس کی ایک خوبی اور اسی طرح ایک خامی کا تذکرہ کیجیے۔ خوش گوار ماحول میں چل رہی اس بات چیت میں یہ ایک دل چسپ موڑ تھا۔ کانگریس کی ایک طاقت کون سی ہے، اس پر گفتگو پھر کبھی ہو گی مگر کانگریس کی ایک کمزوری کون سی ہے جسے اس کے صدر ِ محترم سمجھتے ہیں، اس پر غور و فکر لازم ہے۔ راہل گاندھی نے کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے پربے اطمینانی کا اظہار کیا اور اسے آج کی تاریخ میں کانگریس کی سب سے بڑی خامی تصور کیا۔

        سیاست دان واقعتا کچھ ایسی چیز ہو تے ہیں کہ ان کے ہر کہے کو صرف سچ اور جھوٹ یا اچھے اور برے کی ترازو میں تولنا مشکل ہے۔ سامنے کے سچ کو وہ جھوٹ بنا دیں گے اور اندر کے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر دیں گے۔ سیاست میں اب پنچایت سے لے کر پارلیامنٹ تک یہی طور ہے،اس لیے بڑے سیاست دانوں کی باتوں کو حقیقی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ راہل گاندھی نے کانگریس کی خوبی بیان کر نے میں اسی پیچ در پیچ سیاست کے محاورے کا استعمال کیا اور بڑی شیریں زبانی سے کہہ دیا کہ عوام کا اعتماد ہماری حقیقی طاقت ہے۔ مگر کانگریس کی کمزوری پر گفتگو کرنا اس قدر آسان نہیں تھا۔ آدمی جب سچ اور جھوٹ، ایمان اور کفر کے پل صراط سے گزرتا ہے تو کبھی کبھی خدا لگتی ہی سہارا ہو تی ہے اور راہل گاندھی کی زبان سے ایمان کا وہ جملہ نکل گیا۔ اب بحث یہاں سے شروع ہو گی کہ کانگریس کا تنظیمی ڈھا نچہ کیسے بکھر گیا؟اسے کس نے بگاڑ تک پہنچایا؟ایک اور سنجیدہ سوال یہ بھی قائم ہو تا ہے کہ زوال کی یہ کہانی کس کی نگرانی میں لکھی گئی؟ہندستان کی عملی سیاست میں دلچسپی لینے والے ایک بڑے طبقے کو ایسے سوالوں کے جواب تک پہنچنے کی خواہش رہتی ہے۔ اگر یہ ناخوشگوار ہو تب بھی آیندہ کی توقعات اور ضرورتوں کے پیش نظر یہ ضروری کا م کرنا ہی چاہیے۔ کیوں کہ سیماب کا مصرعہ یاد آتا ہے:انھی اندھیروں سے بزمِ گیتی کو ایک روز روشنی ملے گی

        کہنے کو تو یورپ والوں کے بیچ یہ مشہور ہے کہ روم ایک دن میں نہیں بساتھا۔ اب یہ غور کریں کہ کیا دلّی ایک دن میں اجڑ گئی تھی؟جیسے تعمیر کے  مراحل ہوتے ہیں، اسی طرح زوال کے بھی مرحلے سامنے آتے ہیں۔ اچانک کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ دشواری یہ ہو تی ہے کہ ترقی کے مواقع پر اپنی محنت اور مشقت، خون اور پسینہ ایک کرنے کی باتیں لازمی طور پر ہمیں یاد رہتی ہیں مگرجب کبھی اپنی یا اسلاف کی کمائی ہوئی پونجی اپنی کوتاہیوں سے ہم لٹاتے چلتے ہیں، اس وقت ہمیں زیادہ باتیں یاد نہیں آتیں۔ تنبیہ کرنے والوں اور مخلصین کی جماعت کو خود سے دور کرتے جاتے ہیں اور جب سونے کی چڑیا اڑ جاتی ہے، اس وقت پتا چلتا ہے کہ ہمارے پاؤں تلے زمین کب کی کھِسک چکی ہے۔ اب پچھتانے اور ماتم کرنے کے علاوہ کچھ بچتا بھی نہیں ہے۔

        ۱۸۸۵ء میں کانگریس قائم ہوئی۔ ۱۹۴۷ء میں آزادی کے حصول کے بعد مہاتما گاندھی نے بڑی معصومیت سے یہ مشوررہ دیا تھا کہ سیاسی جماعت کے طور پر کانگریس کو تحلیل کر دینا چاہیے اور سماجی خدمت کے کاموں کے لیے کانگریسیوں کو خود کو وقف کر دینا چاہیے مگر کانگریس کی پہلی صف میں اقتدار کی ہوس میں مبتلا رہ نماؤں کی بہتات تھی۔ بھلا درویش کی صدا کسے سننی تھی؟اس کا انجام گاندھی کی شہادت کے طورپر سامنے آیا۔ گوڈسے تو ایک برے خواب کی طرح ہماری تاریخ کا ایک کردار بنا مگر کیا گاندھی کی شہادت کے معاملے سے کانگریس کے لباس پر کچھ دھبّے نہیں پڑے تھے؟اس سے پہلے کانگریس ۱۹۳۷ء اور۱۹۴۷ء کے انتخابات میں اقتدار پسند جماعت کے طور پر سامنے آچکی تھی۔ بار بار کانگریس ٹوٹی اور مرکز سے لے کر ضلعوں تک بکھراو کا عمل سامنے آیا، اس میں اقتدار کی ہوس اورمطلق العنانی کے علاوہ کون سا سبب تھا؟کامراج پلان کس مقصد سے سامنے آیا تھا؟(۲۰۱۴ میں نریندر مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں اس کامراج پلان کو نافذ کیا اور ۲۰۱۹ء کے انتخاب میں بھی کانگریس کے اسی سنہرے اصول پر عمل درآمد ہے۔ ) اندرا گاندھی کے دورِ حکومت میں وہ زمانہ بھی آیا جب کانگریس کا صدر دیوکانت بروا یہ کہہ رہا تھا: اندرا ہندستان ہے اور ہندستان ہی اندرا ہے۔ آج نریندر مودی خود بھی اور ان کے چاہنے والے بھی اسی سیاسی روز مرے کا کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔

        کانگریس کا یہ سب سے بڑا المیہ رہا کہ اس کے قائدین ہمیشہ یہ بات حکومت میں رہتے ہوئے بھول جاتے تھے کہ وہ ہزاروں اور لاکھوں کی قربانیوں کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر حکومت کے دروازے تک پہنچے تھے۔ عوامی توقعات اور ملک کی تعمیر و تشکیل کی ذمہ داری انھیں ادا کرنی تھی۔ مجاہدینِ آزادی کی نسل جیسے جیسے ختم ہوئی، کانگریس میں پُر خلوص معاونین کا سلسلہ بھی ختم ہو ا۔ بعد کے زمانے میں اپنی حکومت بہر طور قائم رکھنے کا سودا ان میں اتنا سمایا کہ اقتدار کے علاوہ ایک بھی سبق یاد نہیں رہا۔ حالی نے اپنی ایک رباعی میں کپڑے دھونے کی مشق کی مثال دیتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ کپڑے کو دھونے میں اتنا نہ رگڑو کہ ’دھبّہ رہے کپڑے پہ نہ کپڑا باقی‘۔ ایمرجنسی کا نفاذ اور پھر آپریشن بلیو اسٹارآخر اقتدار کا نشہ نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ اس دوران کانگریس تین برس کے لیے حکومت سے باہر تھی مگر ۱۹۸۰ء میں دوبارہ اقتدار ملی تو وہ پھر پرانے خمار میں لوٹ آئی۔ اندرا گاندھی کو غیر ضروری طور پر اپنی جان کی قیمت بھی چکانی پڑی۔ ماں کی شہادت پر راجیو گاندھی کو حکومت تو ملی مگر کچھ اپنی ناتجربہ کاری اور کانگریس میں مفاد پرستوں کی ٹیم نے اس حکومت کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے اب راستے مسدود ہوتے چلے گئے۔

         کانگریس کی ان ناکامیوں نے ہی پھر ملک کے سیاسی نظام میں حقیقی تبدیلیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا سیاسی بھوت اورہندستانی سیاست میں خاندانی وراثت کو ہر جماعت کے لیے مخصوص کس نے کیا؟ نرسمہا راوکی قیا دت کے دوران کا نگریس پارٹی نے اپنی تاریخ کے سارے اوراق خاک میں ملا دیے۔ بابری مسجد کے انہدام کا قصور وار صرف کلیان سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ ہی ہیں ؟ہندستان کا وزیرِ اعظم کیا کر رہا تھا؟پہلی بار اٹل بہاری واجپائی کی حکومت بنوانے میں بھی نرسمہا راو کے ذریعہ ہندستان کے صدر کو دیر سے حمایت نامہ پیش کرنا ہی تھا۔ کانگریس کہیں پارٹی کے طور پر تھی ہی نہیں، بس نارتھ بلاک اور ساوتھ بلاک میں ریوڑیاں بٹتی رہیں اور کانگریس کے کارکن کھسوٹتے رہے۔ وہ تو کہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکامی نے عوامی سطح پرخاموش احتجاج کیا اور انجانے میں کانگریس کی فتح یابی ہو گئی۔ بہت مشقت کے بعد اسے منموہن سنگھ جیسا آدمی ملاجسے وزیرِ اعظم کی کرسی سونپ دی گئی۔

         من موہن سنگھ اس وجہ سے بااعتماد سمجھے گئے کیوں کہ وہ فرما ں برداری  کے پیمانے پر کھرے ثابت ہوتے۔ سونیا کی یکسر نا تجربہ کا ری او رراہل گاندھی کی نو عمری کے باوجود من موہن سنگھ کی حکومت دس برسوں تک چلی۔ کسی ایک صوبے میں بھی اس بات کی کوشش نہیں ہو ئی کہ اپنے اقتدار کے زمانے میں پارٹی کا انتظامی ڈ ھانچہ درست کر لیا جائے۔ دس برس تک صرف ایک کام تھا کہ کس طرح راہل گاندھی کوتربیت دی جائے تا کہ وہ ہندستان کے وزیرِ اعظم کی کرسی سنبھال سکیں۔ پرنب مکھرجی کبھی کبھی سیا سی حکمتِ عملی میں انفرادی شناخت کے لیے کوشاں ہو تے تھے تو انھیں راے سینا ہلس تک پہنچا دیا گیا۔ ۲۰۱۴ء میں یہی ہو نا تھا کہ اپنی اچھی بھلی اور کامیاب حکومت کے باوجود نریندر مودی کے طوفان میں کانگریس صرف چوالیس سیٹوں پر سمٹ گئی اور اس کے پاس واقعتایہ حوصلہ نہیں تھا کہ وہ خود کو ایک قومی پارٹی کے طور پر پیش کرسکے۔ ان دس برسوں میں رفتہ رفتہ مختلف صوبوں کی حکومتیں ہاتھ سے نکلتی گئیں اور یہ لوگ دلّی کی حکومت اور راج کمار کو سجانے سنوارنے میں سب کچھ غارت کرتے چلے گئے۔

        گذشتہ پانچ برسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جس جاں فشانی کے ساتھ اپنا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کیااور ایک ایک کر کے صوبائی حکومتوں کو اپنی مٹھی میں کیا۔ اس کی مذمت تو ہم سب کرتے ہیں مگر اقتدار کی طاقت سے جماعت کی قوت کیسے بڑھائی جا سکتی ہے، اسے تو سیکھنا ہی چاہیے۔ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا ہو ا نہیں کہتے۔ اچھا ہو ا کہ راہل گاندھی کو کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے کے بگاڑ کی بات سمجھ میں آئی۔ اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اگر نریندر مودی کے جائز نا جائز اقتداری کھیل تماشے کے باوجود اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نہیں بنی تو ناچار کسی دوسرے چہرے کو ہی سامنے آنا ہو گا۔ مایا وتی سے لے کر ممتا بنرجی تک کئی لوگ راہل گاندھی کے مقابل اور متبادل ہو سکتے ہیں۔ کانگریس کو ایسے موقعے سے اپنے مستقبل شناس ہو نے کا ثبوت دیتے ہو ئے یہ ہوش مندی دکھانی چاہیے کہ سر برہی چھوڑ کر آنے والے پانچ برسوں میں ملک کے ایک ایک گاؤں میں تنظیمی ڈھانچے کو پھر سے قائم کرنے میں لگ جائیں۔ اس کے بعد صرف اس کی حکومت نہیں بنے گی بلکہ تمام غلط کاروں کی سیاست اپنے آپ ملیا میٹ ہو جائے گی۔ وہ دن پھر سے نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل کا تاریخی دن ہو گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔