مسلم ممالک کی تین خصوصیات

ابوفہد

1 – فوجی بغاوتیں:

مسلمان ممالک اس معاملے میں بہت خاص واقع ہوئے ہیں۔ جب دیکھو تب کوئی نہ کوئی فوجی جرنیل حکومت کا تختہ پلٹ کر خود اقتدار پر براجمان ہوجاتا ہے۔ پاکستان،مصر،ترکی، بنگلہ دیش، ایران، انڈونیشیا اورعراق جیسے ممالک میں فوجی بغاوتیں ہوئی ہیں اور بعض ممالک میں کئی کئی بار ہوئی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے اگر کسی ملک میں ایک بار کامیاب فوجی بغاوت ہوگئی تو وہاں فوجی بغاوت باربار ہوتی ہے اور خود فوج کو، اپوزیشن جماعتوں کو یا پھر عوام کو لگتا ہے کہ اقتدار کی تبدیلی کا یہ ایک سستا،سریع اور آسان پروسس ہے۔ پاکستان اورترکی اس کی واضح مثال ہیں جہاں کئی بار بغاوتیں ہوئیں ، کچھ ناکام رہیں اور کچھ کامیاب، پاکستان نے اپنی چھوٹی سی عمر میں آٹھ فوجی بغاوتیں دیکھیں جن چار اقتدار کا تختہ اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوئیں۔ ترکی میں گزشتہ چند سال کے عرصے میں کئی فوجی بغاوتیں ہوئیں جنہیں ناکام بنادیا گیا۔ ابھی سوڈان میں فوجی بغاوت ہوئی ہے اوردیکھئے یہ کس صورت حال پر منتج ہوتی ہے۔ آثار تو بہر حال کچھ زیادہ اچھے نظر نہیں آتے۔ البتہ سوڈان کی فوجی بغاوت میں اور سابقہ فوجی بغاوتوں میں فرق بھی ہے، کم از کم اتنا فرق ضرور ہے کہ سوڈان میں فوجی بغاوت  عوامی احتجاج کو سہارا دینے کے لیے ہوئی ہے۔لیکن مسلم ممالک کا حال یہ ہے کہ یہاں حالات بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ یہاں نہایت پر امن احتجاج بھی بسا اوقات آگ  اور خون کی نذر ہوجاتاہے۔  دنیا کے اکثر ممالک میں تو یہی ہوتا ہے کہ  فوج حکومت کو سپورٹ دینے کے لئے ہوتی ہے ، حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور فوج ہر حال میں حکومت کے حکم کی منتظر رہتی ہے مگر مسلمان ممالک میں فوج اقتدار کی تبدیلی کے کام بھی آتی ہے۔بلکہ ملک میں انارکی اور افرا تفری پھیلا نے کے کام بھی فوج سے لئے جاتے ہیں اور بیرونی طاقتوں کے لئے ایسی بغاوتیں نہایت  سستا اور سرل  گیم بھی ہیں۔ایسے چار مسلم ممالک کا تعلق تو  ایک ہی بر اعظم افریقہ سے ہے، جو فوجی بغاوتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں، یہ ہیں مصر، لیبیا، سوڈان اور الجزائر۔بیشک فوجی بغاوتیں غیر مسلم ممالک میں بھی ہوتی ہیں اور تھائی لینڈ وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مرتبہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے، تھائی لینڈ اور برما تو اس لحاظ سےبھی  دیگر ممالک میں سر فہرست ہیں کہ یہاں فوج کا اقتدار طویل ترین اقتدار رہا ہے۔ برما 1962 سے فوج کے زیراقتدار چلا آرہا ہے ۔مگر عموما سر فہرست مسلمان ممالک ہی ہیں اور یہ بھی ہے  کہ ان کا جرم زیادہ بڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ صاحب ایمان ہیں اور یہ اس کی پاداش ہے کہ مسلم ممالک میں اسلام ، اسلامی تہذیب وثقافت اور اخلاق وقانون سے پہلو تہی کی گئی اور بارہا کی گئی۔ اکثر مسلم حکمرانوں کا رویہ اپنی عوام کے حق  میں خیرخواہی والا نہیں رہا۔

  2- ہر جرم کی سزا موت:

مسلمان  ممالک کو اس باب میں خاصہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں تقریبا ہر جرم کی سزا موت ہے، حتی کہ ہلکے پھلکے سیاسی نوعیت کے مسائل میں بھی موت کی سزائیں دی جاتی ہیں اور پھر بلکBulk میں دی جاتی ہیں ۔ایک ساتھ سیکڑوں افراد کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا جاتا ہے اور ان کی گردنیں اتار لی جاتی ہیں۔حکومتوں کے ذریعہ اجتماعی  موت دینے کے سارے گورکھ دھندے میں  عصبیتوں کا بہت  دخل ہے، یہ عصبیتیں سیاسی بھی ہوتی ہیں اور مذہبی بھی۔ چین کے بعد سب سے زیادہ موت کی سزائیں دینے والوں میں، ایران، سعودی عرب، مصر، عراق اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے بعد دیگر غیر مسلم ممالک کا نمبر آتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب میں بلک میں موت کی سزائیں دی گئی ہیں،ایک ہی دن میں 37 افراد کی گردنیں اتارلی گئیں، اس سے قبل بھی جنوی 2016 میں 47 افراد کی گردنیں اتاری گئیں تھیں، یہ سزائیں دہشت گردی کے معاملات میں دی گئی ہیں ، ان کے تعلق سے یہ وضاحت بھی میڈیا میں آئی ہے کہ یہ سزائیں اسلامی قوانین کے مطابق ہیں ، یعنی سعودی حکومت نے کوئی غیر اسلامی کام نہیں کیا ہے۔ مگر تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ ان میں زیادہ تر شیعہ برادری کے لوگ ہیں۔ یہی حال خودایران کا بھی ہے کہ موت کی سزاپانے والوں میں زیادہ تر کا تعلق اقلیتوں سے ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں چین کے بعد سب سے زیادہ موت کی سزائیں ایران میں دی جاتی ہیں۔حیران کرنے والی بات ہے کہ ایران میں محض تیرہ چود سال کے بچوں کو بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا ہے۔ مصر میں فوجی بغاوت کے بعد حکمراں پارٹی کے بہت سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہی کچھ عراق میں بھی ہوا اور بنگلہ دیش میں بھی۔ بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر شائع  ہونے والے فرحت جاوید کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ادھر حالیہ برسوں میں موت کی سزا پانے والوں میں ہر پانچ میں دو بے گناہ تھے۔اسی طرح  اردو وِی اَو اَے (VOA)نیوز پورٹل کی ایک نیوز10 اپریل 2019 کے مطابق ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ایران پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ایران میں زیادہ تر پھانسیاں شفاف ٹرائل کے بغیر ہی دی جارہی ہیں۔قطع نظر اس سے کہ قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے ایسے سروے اور قلم کار کے تجزئے کہاں تک درست ہیں اور کہاں تک نا درست ہیں ،یہ نوشتہ دیوار ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمراں کس طرح ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں۔اور کس طرح ناپسندیدہ اور غیر مسلک وغیرمذہب کے افراد کو موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں۔مولانا ابوالکلام آزادؒ کا قول’  تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوتی ہیں ‘ مسلم ممالک کی عدالتوں پر خوب صادق آتا ہے۔یہ چیز جہاں مسلم حکمرانوں کو انصاف کے کٹ گھرے میں کھڑا کرتی ہے وہیں دنیا کی موجودہ عدالتیں بھی عدل وانصاف کی فراہمی کے تعلق سے مشکوک ٹہر جاتی ہیں اور جب اہل ایمان اور ان کی عدالتوں کا یہ حال ہے تو پھر دنیا کی ان عدالتوں کا کیا حال  ہوگا جو دنیا کے بعد کی زندگی اور حشر ونشر پر یقین ہی نہیں رکھتیں  اور انہیں دنیا کے علاوہ کہیں اور اپنی ناانصافیوں کے لیے جوابدہی کا کچھ خوف ہی نہیں ہے۔

 ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے یہ طے کررکھا ہے کہ جو مخالف ہے اس کو ہر حال میں مٹی میں ملا دینا ہے۔ اس سے زندہ رہنے کا حق چھین لینا ہے۔ہمارے مسلم ممالک کی عدالتوں کو موت سے قبل اور نیچے کوئی سزا سمجھ میں ہی نہیں آتی۔خیر عدالتوں کا کیا ہے ، وہ تو سوکھے پتوں کی طرح ہیں،کہ یہ پتے جدھر کی ہوا ہوگی اُدھر ہی کو اڑتے پھرتے ہیں۔

اقتدار کی تبدیلی کے بعد بَلک (Bulk) میں موت کی سزائیں دینے کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہ خوف بھی ہے   جو بیشتر مسلم حکمرانوں کو لاحق ہے کہ اگرصاحب اقتدار شخص اپنے مخالف کو موت نہیں دے گا تو وہ شخص خود صاحب اقتدار شخص کی جان بھی لے سکتا ہے ۔ دوسرے اس میں  بڑی حد تک  ڈکٹیٹر شپ  والے مزاج کو بھی دخل ہے، آمرانہ مزاج اپنے سامنے کسی کو بھی اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے برداشت نہیں کرسکتا اور اگر کوئی جرات کرتا ہے تو اس کی جان لے لی جاتی ہے۔ آج کل کی ہی خبر ہے کہ جنرل سیسی امریکی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکے کھڑے ہیں  اور دست بستہ عرض گزار ہیں کہ حضور اخوان المسلمون کوجلد از جلد  دہشت گرد قرار دیں ۔ کیونکہ انہیں خوف ہے کہ جس طرح انہوں نے مخالفین کو پھانسیاں دلوائی ہیں ، کل کو اگرخدانخواستہ  خود اخوان یا ان کے حمایت یافتہ افراد اقتدار تک پہنچ گئے  تو پھراُن کی خیر نہیں، پھر خود ان کا حشر ونشر بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ خود انہوں نے دوسروں کا کر رکھاہے۔

اوریہ اِس ملی غفلت کا بھی شاخسانہ ہے کہ مسلمان کم وبیش ہزار سال تک نصف دنیا پر حکومت کرتے رہے اور انہوں نے کبھی بھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ انہیں آمرانہ طرزحکمرانی سے نکل کر جمہوری یا کم از کم شورائی طرز حکومت کی طرف آنا چاہئے، ہزار سالہ تاریخ میں دنیا کے کسی بھی کونے سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔ بلکہ اس کے برعکس مقابلہ اور موازنہ اس بات کے لیے ہوتا رہا کہ کس نے کتنے زیادہ سالوں تک حکومت کی، لمبی مدت تک حکومت کرنے والےباد شاہ ، شہنشاہ عالم کہلائے اور اس چیز کو یعنی نصف صدی تک حکومت کا کاروبار سنبھالے رکھنے کو ان کے حق میں ان کے عادل اوربہتر ین مدبر ومنتظم ہونے کی دلیل سمجھا  گیا۔البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ایک عرصے تک غلام خاندانوں کے ہاتھ میں بھی حکومت کی باگ ڈور رہی۔اور دہلی کے تاج وتخت طویل عرصے تک ، کم وبیش ایک صدی تک غلام خاندان  کےسپرد رہا ۔ مگر مجموعی طور پر جب ایک بار ملوکیت راہ پاگئی تو اس کے خلاف کچھ کرنے یا کم از کم اس میں جدید زمانے کے مطابق کچھ اصلاحات اور ترمیم کرنے کی بھی کوئی بات یا پہلو کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔

بَہار کا انجام خزاں:

مسلم ممالک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں اگر پتہ بھی کھڑکتا ہے تو ڈر لگتا ہے کہ اس کا انجام کہیں بھیانک خونزی کی شکل میں ظاہر نہ ہو۔ آج مشرق وسطیٰ میں جو صورت حال ہے خاص طور پر شام کی اس کی ابتدا ایک پُر بہار واقعہ ہی تو تھا جسے شروع میں عرب بہاریہ کا لقب دیا گیا تھا ، واقعہ تو خیر بذات خود پُربہار نہیں تھا کہ یہ خود سوزی کا واقعہ تھا ، مگر اس واقعہ کو چونکہ تبدیلی کی لہر کا آغاز سمجھاگیا اوراس لئے اس کے پیچھے اٹھنے والی لہر کوبَہار کا نام دیا گیا۔مگر بعد میں چل کر یہی عرب بہاریہ خونریز جنگ میں تبدیل ہوگئی یہاں تک کہ بڑے بڑےآباد شہر ویرانیوں  میں تبدیل کردئے گئے۔ جبکہ دنیا کے دوسرے دیشوں میں بڑی بڑی بغاوتیں سر کرلی جاتی ہیں اور کچھ دنوں بعد ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اور عرب بہاریہ کے مماثل اسٹرائک اور حتجاجات تو تقریبا ہر ملک میں روز روز کا قصہ اور صبح وشام کی کہانیاں ہیں۔آپ ذرا سوچیں کہ یہ سب مسلم ممالک میں کیوں ہوتا ہے اور اس میں ابھی تک بھی اصلاح کا کوئی عمل کیوں شروع نہیں کیا جاسکا بلکہ ابھی تک اس پہلو سے سوچا بھی نہیں گیا کہ مسلم ممالک میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ آج کی تاریخ میں سعودیہ اورایران کے تعلق سے روزانہ کی بنیادوں پر منفی خبریں آرہی ہیں، سعودی لڑکیاں ملک سے راہ فرار اختیار کررہی ہیں اور دوسرے ممالک میں پناہ لے رہی ہیں۔ حد تو یہ بھی ہے کہ انہیں پناہ دینے کے لیے بعض ممالک کے سربراہوں نے بھی باہیں پھیلا دی ہیں، جبکہ یہی سب سربراہ پناہ کے متلاشی جنگ کے مارے مہاجرین کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔ ایران میں بھی عورتوں کے حقوق کی آوازیں بہت زیادہ بلند کی جارہی ہیں، ان کی پشت پر عالمی طاقتوں کا خفیہ ہاتھ ہے اور ان ممالک کے دین بیزار افراد اور رہنماکا بھی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عرب بہار کا آغاز لیبیا کی طرح اب ان ممالک سے ہونے جارہا ہے اور جسکا انجام ہمیشہ کی طرح ناخوشگوار ہوگا۔کیونکہ مسلم ممالک میں آزادیوں کے نام پر ہر مخالف  عمل اورلہر کو ہواؤں کے دوش پر سوار کرکے اسے صبا رفتار بنایا جارہا ہے۔

سوڈان کی جو تازہ صورت حال ہے اس میں بھی کئی قلم کار خزاں دیدہ بہار کا نقشہ دیکھ رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔کیونکہ مسلم ممالک کی عجیب سیاسی صورت حال ہے۔ لوگ اصلاح کی خاطر سڑکوں پر آتے ہیں اور محض تبدیلی چاہتے ہیں اورپھر دھیرے دھیرے حالات بدلنے بلکہ پلٹنے شروع ہوتے ہیں اور اصلاح احوال کی نیک تمنائیں آگ وخون کے دریا میں بہہ جاتی ہیں ۔اور پھر کچھ نہیں رہتا سوائے قہر سامانی کے، حسرت و یاس کے  اور موت کے برہنہ رقص کے، جس کے عقب سے اٹھتی ہوئی شیطانی قہقہوں کی گونج پردۂ سماعت کو مزید بوجھل بنارہی ہوتی ہے۔

فکر مندی والی بات یہ بھی ہے کہ اسلامو فوبیا کے ایک سو چار ڈگری بخار میں مبتلا عالمی میڈیا اور عالم کفر کواس  تمام داروگیر اور قتل وقتال کے  پیچھے اتنا مال مصالحہ فراہم ہورہا ہے کہ وہ اس چیز کو اسلامی فکر و قانون سے جوڑکر بیان کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ عالمی میڈیا  اس حوالے سے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ مسلم ممالک میں کثرت کے ساتھ موت کی سزاؤں کے پیچھے اسلامی قانون کی سنگین سزاؤں کے ذریعہ اصلاح معاشرہ والی  دلیل اورعمل  موجودہے۔ حالانکہ اگر ہم اسلامی سزاؤں کا تجزیہ کریں تو اسلام کا ذہن یا منشا کہیں سے کہیں تک بھی محض سزا دینا نہیں ہے بلکہ ان کی غایت دنیا میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔اور اسلامی معاشروں سے فتنہ وفساد اور شرانگیزی کو ختم کرنا ہے۔ اور یہ چیز دنیا کے ہر قانون اور ہر ملک میں موجود ہے۔اسلام میں موت کی سزائیں محض تین چار ہی معاملات میں دی جاتی ہیں اور وہ بھی اس وقت جب ان کی سنگینی بہت بڑھ گئی ہو۔ اس کے بعد پھر اس میں مراعات و استثنیات  بھی رکھے گئے ہیں۔ مثلا اسلام میں قتل کی سزا قتل ہے، مگر یہ سزا ہر قتل کے لیے نہیں ہے بلکہ قتل عمد کے لیے ہے اور اس میں بھی یہ استثنا ہے کہ اگر مقتول کے ورثاء دیت لینے پر راضی ہوجائیں اور قاتل کو معاف کردیں تو اسلامی حکومت قانون کی اسی شق پر ترجیحی طور پر عمل کرے گی۔اور اگر غامدی صاحب کی مانیں تو صرف دو ہی معاملات میں موت کی سزا ہے، ایک قتل عمد اور دوسرے فساد فی الارض۔اور قتل عمد کی سزا کے  تعلق سے میں نے بیان کردیا کہ سزا یافتہ شخص کو کس طرح استثنا حاصل ہوجاتا ہےاور وہ  قتل کی سزا سے بچ جاتا ہے۔  جبکہ اس بات سے انکار کسی بھی صورت میں ناممکن ہے کہ ان سزاؤں سے اسلام کا مقصود  اصلی  دنیا میں امان وامان  کی صورت حال کو بحال رکھنا ہے۔اسی لیے اگر آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ خود حضرت محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب بھی  انتہائی درجے کی سخت سزائیں دینے سے بچتے اور گریز کرتے تھے، کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ مجرم نے اپنے جرم کا از خود اعتراف کیامگر حضورﷺ اور بعض صحابہ ابتدا میں گریز کی روش اختیار کرتے رہے اور خاصی ردو قدح اور سوال و جواب کے بعد حد نافذ کی ۔ تاریخ اسلام میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔

جنرل سیسی، بشارالاسد  اور اس جیسے افراد سے تو خیر یہ توقع کرنا فضول ہوگا کہ وہ اسلام کی بدنامی کو کوئی سنگین مسئلہ سمجھیں  گے ،تاہم ایران، سعودیہ اور ترکی جیسے ممالک سے تو یہ توقع کی ہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے انتقامی سیاسیت کے عمل سے اسلام کو بدنام  کرنے سے گریز کریں۔اور موت کی سزائیں صرف انتہائی صورت میں ہی دیں۔

تبصرے بند ہیں۔