قرآن کریم کی عظمت اور ہماری غفلت

جمشید عالم عبد السلام سلفی

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا﴾ ’’بے شک یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور ان مومنین کو بشارت دیتا ہے جو صالح عمل کرتے ہیں کہ بے شک ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ [الإسراء: ٩]

     اور نبی کریم صلى الله عليه و سلم فرماتے ہیں : ’’خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ‘‘ ’’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔‘‘ [بخاری، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، احمد]

      قرآن کریم فصاحت و بلاغت سے پُر ایک جامع و کامل کتاب ہے جو علوم و معانی کا سرچشمہ، رشد و ہدایت کا گنجینہ، نیکی و بھلائی کا خزینہ، علم و دانائی کا ذخیرہ، حکمت و دانش اور بصائر و عِبر کا دفینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر طرح کا علم فراہم کر رکھا ہے مگر ان علوم کا مکمل احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء و الرسل ہیں اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کردہ یہ کتاب قرآن عظیم بھی خاتم الکتب ہے۔ یعنی اس کتاب نے پچھلی تمام آسمانی کتابوں مثلاً توریت، زبور، انجیل اور صحفِ ابراہیم و موسیٰ وغیرہ کے احکام و فرامین کو منسوخ کر دیا ہے۔ اس کتابِ مبین کے اندر فتح و ظفر، فوز و فلاح، کامیابی و کامرانی، نجات و سلامتی، رحمت و شفا اور ترقی و ارتقا کا راز پنہاں ہے۔ یہ کتاب حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی، راہِ راست سے بھٹکے مسافر کو صراطِ مستقیم پر لانے والی، زنگ آلود دلوں کو تابناک بنانے والی، دلوں کا کایا پلٹنے والی، گھٹا ٹوپ ظلمات کو ضیا گُستر کرنے والی اور اپنے پڑھنے والوں کے لیے یومِ جزا سفارش کرنے والی ہے۔ یہ کتاب بد مزاج کو بذلہ سنج، تُند خو کو خوش طبع، پست ہمت کو حوصلہ مند، بدطینت کو خوش خصال، بداختر کو اقبال مند اور بدخُلق کو خلیق و باکردار بنانے والی ہے۔ اس کی عظمت و وقعت اور فوقیت و برتری کا کیا کہنا؟ یہ ہر اعتبار سے محکم و مفصل، کامل و مکمل اور تمام طرح کے عیوب و نقائص سے پاک و منزہ ہے۔ اکنافِ عالم میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی اور آج تک کسی فردِ بشر سے اس کے مماثل کیا اس کے قریب تر بھی ایک آیت نہ بن پائی اور نہ قیامت کی صبح تک بن پائے گی۔ إن شاء الله

      آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اور حفظ کی جانے والی کتاب یہی قرآن عظیم ہے اور یہ امتیاز کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہے، جو اس کی عظمت و وقعت کی واضح دلیل ہے۔ قرآن کریم کو یہ عظمت و سربلندی کیوں نہ حاصل ہو؟ جب کہ انسان اسے جتنی بار اور جتنا زیادہ پڑھتا ہے وہ اُتنا ہی زیادہ اس کی حلاوت و چاشنی کو محسوس کرتا ہے، اسی طرح قرآن اپنے پڑھنے والے کے لیے خیر و بھلائی کے راستوں کو کھول دیتا ہے اور رشد و ہدایت سے فیض یابی کے لیے اس کے سینے کو وا کر دیتا ہے۔

     قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ نبینا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم فداہ ابی و امی کا ایک زندہ و جاوید معجزہ ہے۔ ویسے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوٹے بڑے بہتیرے معجزات عطا کیے گئے تھے مگر ان میں سب سے اعلیٰ و ارفع اور ممتاز و نمایاں معجزہ قرآن کریم ہے جو اپنی دلکش فصاحت، حیرت انگیز بلاغت، قوتِ استدلال، حسنِ بیان، ندرتِ اسلوب، تعیینِ حقائق اور حلِ مسائل میں بے نظیر و بے مثال ہے۔  اہل عرب جنھیں اپنی فصاحت و بلاغت اور طلاقت و لسانت پر بڑا ناز تھا، اور کیوں نہ ہو؟ جب کہ وہ قوم اپنی مافی الضمیر پر پوری طرح قادر، پُر زور مقرر اور بلد پایہ شاعر تھی، مگر پھر بھی اس قوم نے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور اس کے چیلنج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ قرآن کریم کی عظمت و وقعت، صداقت و حقانیت اور اس کے کلامِ الٰہی ہونے کی یہ ایک بیّن دلیل ہے کہ آج سے تقریباً چودہ صدیاں پیشتر عرب و عجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا کہ وہ اس جیسا کلام بنا لائیں مگر اس کا جواب دینے سے ساری دنیا کے فصحا و بلغا عاجز و قاصر رہے اور یقیناً إن شاء اللہ تاقیامت عاجز رہیں گے۔

      قرآن کریم جہاں اپنی دلکش فصاحت، حیرت انگیز بلاغت، قوتِ استدلال، حسنِ بیان اور ندرتِ اسلوب کے لحاظ سے معجزہ ہے وہیں اپنی پیشین گوئیوں اور غیبی اخبارات کے بیان، بے مثال ہدایت و رہنمائی، ایجاز و اختصار، جامعیت و کاملیت، ہر دور کی ذہنیت و عقلیت اور غلط و بے بنیاد افکار و نظریات کے خلاف حجت و برہان کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے۔

      قرآن کریم کے موضوعات میں کافی وسعت و تنوع ہے مگر اس قدر وسعت و تنوع کے باوجود باہم کسی طرح کا کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، حسنِ ترتيب و تنسیق اور مضبوط بندش و تراکیب میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔ الفاظ و معانی میں یگانگت و یکسانیت پائی جاتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت نہایت بلیغ ہے اور اس کے بالمقابل دوسری آیت بلاغت و فصاحت سے گری ہوئی ہے، کوئی لفظ خوب فصیح ہے اور وہیں دوسرا لفظ غیر فصیح ہے اور کوئی عبارت دوسری عبارت کی بنسبت بلاغت کے اعلیٰ معیار پر قائم ہے بلکہ ان میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہے، ہر آیت و عبارت مقتضائے حال کے مطابق ہے اور ہر لفظ اپنی جگہ پر نہایت ہی مناسب اور وسعتِ معانی کے ساتھ ہم آہنگ ہے اس طرح کہ اگر اسے وہاں سے ہٹا دیا جائے تو کلام کی شان اور رونق ختم ہو جائے گی۔

      قرآن کریم ہی وہ عظیم و متبرک کتاب ہے جو ہر طرح کی تحریف و تغییر سے محفوظ و سالم ہے، اس میں باطل افکار و نظریات کے داخل ہونے کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے۔ نزولِ قرآن سے قبل رشد و ہدایت کے لیے پچھلی امتوں کو بھی کتابیں دی گئی تھیں لیکن شرف و محفوظیت کا جو مقام قرآن کریم کو حاصل ہوا اور دیگر آسمانی کتابوں میں سے کسی اور کتاب کو وہ شرف نہیں ملا۔ قرآن کریم کو اہلِ ہوس کے تغیر و تبدل سے بچانے کی ذمہ داری خود ربِّ ذوالجلال نے لے رکھی ہے۔ ویسے قرآن کریم میں تحریفِ معنوی کے مرتکب اس امت کے بہت سے طبقے ہوئے ہیں، یہ لوگ اپنے باطل افکار و نظریات اور فرسودہ عقائد و اعمال کے استدلال کے لیے آیاتِ قرآنی میں معنوی تحریف کرتے رہتے ہیں اور ان کی روش سے معلوم ہوتا ہے کہ کرتے رہیں گے مگر علمائے حق کی ایک جماعت ان کے غلط استدلالات کی نشاندہی کرتی رہی ہے اور إن شاء اللہ کرتی رہے گی۔

      قرآن کریم کی آیات میں ایسی تاثیر و کشش ہے جو دلوں کو اپنی طرف مائل کرلیتی ہے، کان خود بخود اس کے سننے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اس کی تلاوت سے درشت و تند مزاج شخص میں محبت و مروت پیدا ہو جاتی ہے، اس کی آیات میں وہ کیف ہے جس سے زنگ آلود دلوں کو بھی جِلا ملتی ہے، اس کی زبان شُستہ و شیریں اور نہایت پُر اثر ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے سورما اور سخت دل انسان بھی اس کے سامنے سَرنِگوں ہوگئے اور ان کے رگ و پے میں ایمان کی لہر دوڑ گئی۔ دورِ نبوی سے لے کر آج تک بہتیرے لوگ قرآن کریم کی حیرت انگیز نغمگی و شیرینی سے متاثر ہوتے رہے ہیں اور إن شاء الله ہوتے رہیں گے اس لیے کہ اس کے اندر پیغامِ عبرت و نصیحت کے ساتھ ساتھ ایسی جاذبیت و کشش پائی جاتی ہے کہ بار بار کان اس کے سننے سے بھرتے نہیں بلکہ کانوں میں رس پڑتے ہیں اور زبان اس کی تلاوت سے تھکتی نہیں بلکہ لطف اندوز ہوتی ہے، مزید یہ کہ بار بار پڑھنے اور سننے کے باوجود اس کے ندرت و نئے پن میں کمی نہیں محسوس ہوتی۔ انسان اگر اپنے قلب و ذہن کے دریچے وا رکھ کر قرآن کریم کو عبرت کی آنکھوں سے پڑھے، نصیحت کے کانوں سے سنے، نصحیت پذیری والے دل اور سمجھنے والے ذہن و دماغ سے اس پر غور و فکر کرے تو دنیا و آخرت کی سعادت کے دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں، اور یہ اس کے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اتر کر کفر و معصیت اور ضلالت و گمراہی کی تمام آلودگیوں کو صاف کر دیتا ہے۔

دیدۂ   دل سے تلاوت  ہو   اگر قرآن کی

قلب بن جائے گا مخزن دولتِ ایمان کا

      قرآن کریم عربی زبان و ادب کا ایک کامل و مکمل اور بلند ترین نمونہ ہے۔ قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل کرنے کی خاص حکمت و مصلحت بھی پائی جاتی ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول رہا ہے کہ وہ ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں بھیجتا رہا ہے تاکہ نبی اپنی قوم کے سامنے اللہ رب العالمین کے پیغام کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر سکیں، اور دنیا جانتی ہے کہ خاتم الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ایسی قوم میں ہوئی جس کی مادری و قومی زبان عربی تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت دنیا کی فصیح ترین اور اپنے مافی الضمیر کو پوری طرح واضح کر دینے والی زبان بھی عربی ہی تھی اس لیے اس افضل الکتب کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل فرمایا تاکہ اس کے اولین مخاطب عربوں کو اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے میں کسی بھی طرح کی مزاحمت نہ ہو، کوئی دقت و پریشانی سدِّ راہ نہ بنے اور وہ لوگ کسی بھی طرح کا اعتراض یا یہ عذر نہ بیان کر سکیں کہ رسول تو عربی ہیں اور یہ قرآن عجمی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف پیرائے میں ان باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

      یہی وجہ ہے کہ ’’قرآن کریم اپنی امتیازی خصوصیات کی وجہ سے نہ صرف عربی زبان کو دوسری ساری زبانوں کی طرح مٹنے سے بچا لیا بلکہ مختلف لہجوں اور بولیوں کو ختم کر کے ایک ایسی میٹھی، دلنشین، مؤثر اور گھٹی ہوئی زبان کو جنم دیا جو سب عربوں کی متحدہ اور متفقہ زبان بن گئی اور بعد میں جس کا دامن اتنا وسیع ہوا کہ علم و فن کے لیے بحرِ بیکراں بن گئی، پھر بھی قرآن ہی اس کی کسوٹی بنا، اور آج تک اس کا یہ امتیاز باقی ہے اور جب تک عربی زندہ اور روئے زمین پر ایک مسلمان بھی باقی ہے، ہمیشہ رہے گا۔‘‘ [عربی ادب کی تاریخ ٢/٣٩]

      قرآن کریم کی تلاوت ایک اہم عبادت ہے، اس کی تلاوت سے مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، ویسے تو قرآن کریم پوری دنیائے انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا بیش بہا تحفہ اور ابدی ہدایت نامہ ہے مگر اس چشمۂ فیض سے صرف اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے متقی و پرہیزگار بندے ہی فیض یاب و سیراب ہوتے ہیں، اس کی تلاوت جہاں سکونِ قلب کا باعث ہے وہیں اس کی تلاوت کرنے والوں پر سکینت کا نزول ہوتا ہے، اللہ کی رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے اور رحمت کے فرشتے ان پر سایہ فگن ہوتے ہیں اور قاری قرآن کو قرآن کریم کے ہر ہر حرف پر ایک ایک نیکی دی جاتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ہر ہر نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ہوتا ہے، اس کی تلاوت سے شیطان دلوں میں رسائی نہیں حاصل کر سکتا ہے بلکہ جس گھر میں اس کی تلاوت کی جاتی ہے شیطان وہاں سے دور بھاگتا ہے اور وہ گھر شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے، کثرتِ تلاوت سے انسان کے اندر قوتِ گویائی کا ملکہ اور لسانت و طلاقت کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، استنباطِ مسائل میں عبور حاصل ہوتا ہے، پڑھنے والے کی زبان میں اگر لکنت ہے تو کثرتِ تلاوت سے یہ بھی دور ہو جاتی ہے، قرآن کریم کی تلاوت سے انسان کے اندر تدبر و تفکر کا حسین جذبہ بیدار ہوتا ہے اور اس کی معلومات اور حکمت و دانائی میں اضافہ ہوتا ہے، آخرت میں بھی جنت کے اندر قرآن کریم کے پڑھنے والے کا درجہ دیگر لوگوں سے بلند ہوگا اور اسے بزرگ و پاکباز فرشتوں کی ہم نشینی حاصل ہوگی، قرآن کریم اپنے پڑھنے والوں کے حق میں سفارش کرے گا اور اس کی سفارش قبول بھی کی جائے گی۔ اس لیے اسے کثرت سے تلاوت کرنے، اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے اور جہاں تک ہو سکے اسے ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر نہات ترنم اور خوش الحانی سے پڑھنے کی کوشش کرنی چاہے کیوں کہ ٹھہر ٹھہر کر اچھی آواز میں پڑھنا قلب و جگر پر اثر ڈالنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔

      مگر یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت اُسی وقت ہمارے حق میں نفع بخش ہو سکتی ہے جب ہم قرآن کریم کی روشن تعلیمات اور اس کے مطالبات و مقتضیات پر عمل پیرا اور اس کے اوامر و نواہی کے پابند ہوں گے، ورنہ پھر قرآن کریم اپنے پڑھنے والوں کے خلاف حجت ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

      ’’الْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ‘‘ ’’قرآن تمھارے حق میں حجت ہے یا تمھارے خلاف حجت ہے۔‘‘ [مسلم، ترمذي، نسائي، ابن ماجه، دارمي، احمد] یعنی اگر ہم اس کی تلاوت کریں گے اور اس پر عمل پیرا ہوں گے تو یہ ہمارے لیے نفع بخش ہوگا اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو یہ ہمارے خلاف حجت ہوگا۔

      آج ہمارے معاشرے میں طرح طرح کی برائیاں جنم لے چکی ہیں، ہر چہار جانب ظلم و تعدی اور فسق و فجور کا بازار گرم ہے، انسانیت بے راہ روی کے آخری دہانے پر قدم رکھ چکی ہے، عریانیت و فحاشی اور بدکاری و بدکرداری اپنی آخری حدود کو پہنچ رہی ہے اور اخلاقِ حسنہ کی جگہ اخلاقِ رذیلہ نے لے رکھی ہے، موجودہ دور میں جہاں اعتقادی بدعات و خرافات کا دور دورہ ہے وہیں حقوق و معاملات کا بھی فقدان ہے جس کی وجہ سے ہم قعرِ مذلت کی اتھاہ گہرائی میں گر چکے ہیں۔ اور ان سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی روشن تعلیمات پر عمل پیرائی کو پسِ پشت ڈال دیا ہے، دینی امور و معاملات کی انجام دہی سے کنارہ کش ہو چکے ہیں، مطلوبِ رب اوامر و نواہی کی پابندی تو دور کی بات قرآن کریم کی تلاوت بھی ہم پر گراں ہے، ہم تو فحش لٹریچر اور مخرب اخلاق رسائل و جرائد کے مطالعہ کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ یہی ہمارا محبوب مشغلہ بن چکا ہے، قرآن کریم جو ہمارے لیے سراپا رشد و ہدایت کا باعث تھا ہم نے اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ترک کردیا ہے۔

      نزولِ قرآن کریم کا بنیادی مقصد ہدایت حاصل کرنا ہے اور آج ہم قرآن کریم کے اسی بنیادی مقصد کو چھوڑ بیٹھے ہیں، عوام کے ساتھ ساتھ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کا طبقہ بھی اس جرمِ عظیم کا شکار ہے، قرآن کریم کا اعلان ہے کہ یہ ایک آسان کتاب ہے مگر ہم نے اس کو مشکل بنا دیا ہے اپنی مسلکی منافرت کی دیوار کو مضبوط بنانے کے لیے لوگوں کو براہِ راست قرآن کریم سے مستفیض و سیراب ہونے سے روکتے ہیں، رشد و ہدایت سے معمور اس آسان ترین کتاب کو ہم نے عوام کے سامنے مشکل بنا کر پیش کر رکھا ہے، ایک معمولی پڑھا لکھا شخص بھی اگر تلاوتِ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ اس کے ترجمہ کو پڑھے اور اس کے معانی و مفاہیم پر غور و فکر کرے تو وہ ضرور اس کی آفاقیت سے عبرت پذیر ہوگا، ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اس سے احکام و مسائل کا استنباط کرے مگر اتنا ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے رب کے فرمان کو سمجھے اور اس پر غور و تدبر کرے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا مطالبہ کر رہا ہے؟ اور ہم اس سے کتنا عہدہ برآ ہو رہے ہیں؟

      حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم سہل و سادہ نگاری میں اپنی مثال آپ ہے، سمجھ میں آنے نہ والے اور بلند ترین مضامین کو قرآن کریم نہایت حسین پیرایہ بیان و اسلوب میں ادا کرتا ہے جو فہمِ انسانی کے اتنا قریب تر ہے کہ عقلِ انسانی اگر اس پر غور کرے تو اس کی تردید کی جرأت نہیں کر سکتی ہے، قرآن منطق و فلسفہ کے پُر پیچ مسائل نہیں چھیڑتا ہے بلکہ عین فطرت کی عکاسی کرتا ہے، چناں چہ اس کے اندر جس مضمون کو بھی ادا کیا گیا ہے حسین پیرایہ بیان و اسلوب اور موزوں ترین الفاظ میں ادا کیا گیا ہے، ایک ہی مضمون کئی بار بیان ہوا ہے لیکن ہر مرتبہ پیرایہ بیان نیا و جداگانہ ہے جس سے تکرار کی بدنمائی نہیں پیدا ہوتی، سلاست و روانی میں بے مثل ہونے کی وجہ سے دنیا کی کوئی بھی کتاب تذکیر و موعظت اور ضبط و إتقان میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، مگر قرآن کریم کے سہل و سادہ ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس کے اندر دقائق و غوامض نہیں پائے جاتے، آپ قرآن کریم کی کوئی بھی سورہ یا کوئی بھی آیتِ کریمہ لے لیجیے آپ کو یہ خصوصیت نمایاں طور پر دکھائی دے گی کہ جہاں یہ سہل و سادہ نگاری میں اپنی نظیر نہیں رکھتا وہیں اس کے اندر بحرِ معانی کی ایک دنیا سمو دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر نو آیات پر مشتمل قرآن کریم کی ایک سورہ، سورہ بلد کو دیکھیے کہ کتنے ہی آسان اور چند جچے تلے مختصر جملوں میں پورے نظریہ حیات کو سمیٹ دیا گیا ہے جسے بیان کرنے کا حق بمشکل ایک ضخیم کتاب میں ادا کیا جا سکتا ہے، جہاں یہ سورہ سہل و سادہ نگاری کی واضح عکاس ہے وہیں اختصار و جامعیت کا بے نظیر نمونہ ہے، اور یہ معاملہ صرف اسی سورہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی یہی حالت ہے کہ کم از کم الفاظ میں بحرِ معانی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔

      آج ہم نے قرآن کریم کو صرف عملیات کی کتاب بنا دیا ہے، فقط تعویذ گنڈوں کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں، عملی طور پر ہم اسی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں کہ فلاں بیماری میں فلاں سورت کی تعویذ بنانے سے وہ تکلیف دور ہو جائے گی، فلاں سورت کا زائچہ بنا کر مکان و دوکان میں لٹکانے سے خیر و برکت حاصل ہوگی، یا اس سے تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیں تو آپس میں قرار پانے والی عہد و پیمان کی قَسموں میں اس کا استعمال کرتے ہیں، قول و قرار میں تاکید پیدا کرنے کے لیے اسے اٹھاتے ہیں، اور نہایت عزت و تعظیم کے ساتھ حریر و ریشم کے خوبصورت جزادانوں میں قید کر کے اسے طاقِ نسیاں میں رکھ دیتے ہیں۔ یہ برحق ہے کہ قرآن کریم دینی و دنیاوی تکالیف و مصائب کو دور کرنے کا ایک عمدہ ذریعہ ہے، اس سے کوئی بھی شخص انکاری نہیں ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فوائد اسی وقت حاصل ہوں گے جب ہم اسے پڑھیں گے، حرزِ جاں بنائیں گے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے۔

      ’’حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امتِ مسلمہ نے جس طرح جان بوجھ کر قرآن کریم کو پسِ پشت پھینک رکھا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ پھینکا ہو۔ ان کے اکثر لوگ دنیا کمانے کے لیے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، تاجر اور صنعت کار بنائیں گے اور اس کام کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کریں گے، مگر انھیں قرآن کی تعلیم نہیں دلوائیں گے اور دلوائیں گے بھی تو صرف ناظرہ قرآن کی یا حفظ کی، جس سے انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ کتنا ستم ہے کہ دنیا کی کوئی زبان سیکھی جائے تو اس کا ایک لفظ بھی مطلب سمجھے بغیر نہیں پڑھا جاتا، جب کہ قرآن پورا ناظرہ پڑھ لیا جاتا ہے، بعض اوقات حفظ کر لیا جاتا ہے، اس سے آگے اس کی تجوید اور حسنِ قرأت بھی حاصل کر لی جاتی ہے، مگر اس کا مطلب سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ جب اس کا مطلب ہی نہیں سمجھا گیا تو اس پر غور و فکر کا اور اس پر عمل کا مرحلہ کب آئے گا؟ پورا قرآن تو دور کی بات ہے روزانہ پانچ وقت جو نماز پڑھتے ہیں انھیں اس کا مطلب معلوم نہیں، نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنے مالک سے کلام کرتے ہوئے کیا عرض کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام ممالک میں (إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ) قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے عملاً نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ ان کی سیاست کفار سے لی ہوئی جمہوریت ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی دخل نہیں، یا قرآن و سنت کے احکام کی پابندی سے آزاد استبدادی ملوکیت ہے، ان کی تجارت و صنعت کا دار و مدار سود پر ہے، ان کی عدالتوں میں کفار کے قوانین رائج ہیں اور ان کی وضع قطع اور تمدن و تہذیب یہود و نصارٰی اور ہندوؤں کی سی ہے۔ ان کے ہاں قرآن صرف برکت کے لیے ہے، یا مجلس کی افتتاح کے لیے ہے، یا دم درود اور پیری مریدی میں خود ساختہ وظائف کے لیے، یا محبت و عدوات اور تسخیرِ قلوب کے عملیات کے لیے، یا اچھے سے اچھے کاغذ اور اچھی جلد والا خرید کر جہیز میں دینے کے لیے ہے، یا خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر اونچی سی اونچی جگہ رکھنے کے لیے وہ اس کی طرف پیٹھ نہیں کرتے، مگر بات اس کی ایک نہیں مانتے۔ ان کے دینی مدارس میں سالہا سال تک انسانوں کے مرتب کیے ہوئے مسائل پڑھائے جاتے ہیں، جب وہ دل و دماغ میں خوب راسخ ہو جاتے ہیں تو انھیں قرآن و حدیث سے دورے کی شکل میں سال دو سال میں فارغ کر دیا جاتا ہے۔ (إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ)

      حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم قرآن کو چھوڑنے کی یہ روش ترک کر کے صحابہ و تابعین کی طرح قرآن کی طرف واپس نہیں آئیں گے، اسے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا نہیں بنائیں گے، نصرتِ الٰہی اور باعزت زندگی سے محروم ہی رہیں گے۔‘‘ [تفسیر القرآن الكريم از عبد السلام بھٹوی جلد چہارم ص: ١٨٠،١٨١]

      آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کریم کو تبرک و زینت کے طور پر رکھنے کےبجائے اس کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہوں، اس کی تلاوت کریں، اس کے احکام و قوانین پر عمل پیرا ہوں اور اپنی سیرت و کردار اور قول و گفتار کے ذریعہ برادرانِ وطن کو بھی اس کی آفاقی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔

تبصرے بند ہیں۔