روزه كے فضائل

محمد عرفان شیخ یونس  سراجی

روزہ ایک عظیم عبادت اور اللہ سے قربت کا شاہکار ذریعہ ہے، جس کا ثواب  بے شماراور اجر  بہت زیادہ ہے۔روزہ سال میں ایک مرتبہ آنے والارحمت آمیز عبادت ہے جسےدیگر عبادات کے مقابلے میں  خصوصیت اور انفرادیت حاصل ہے۔ اللہ تعالی بذات خود ماہ رمضان میں رکھے گیے  روزے کا ثواب اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے،جیساکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:”اَلصِّیَامُ لِیْ،وَأَنَا أَجْزِيْ بِهِ“.(سنن نسائی،ح: 2214) ترجمہ : ”روزہ میرے لیے خاص ہے اور میں بذات خود "اپنے بندوں کو” اس کا جزا وبدلہ  دیتا ہوں“۔

کتاب وسنت میں اس عبادت کی  متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں،جو مندرجات میں مذکورہ ہیں:

پہلی فضیلت:  روزہ تقوی وپر ہیزگاری  کے اسباب میں سےایک  بڑا سبب ہے۔ یہ فضیلت روزہ کی فرضیت  کی علت  بیان کررہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

”يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ“.(سورہ بقرہ: ۱۸۳)

ترجمہ:”اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقوی اختیار کرو“۔

شیخ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  اللہ تعالی نے  مشروعیت روزہ کی حکمت  اپنے مقدس کتاب (قرآن مجید)میں ذکر کیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان : ”لعلکم تتقون “تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ روزہ تقوی کے اسباب میں سے ایک  عظیم الشان سبب ہے، بنابریں کہ اس میں  اللہ تعالی کے حکم کی تابعداری   اور اس  کے منہیات سے بچنے کا وسیلہ  موجود ہے۔

 تقوی کے مظا ہر  میں سے  بعض چیزیں  ذیل میں ذکر کیے جارہے ہیں :

1۔ روزہ  رکھنے والا مسلمان اللہ کی رضا جوئی کی خاطر   اکل وشرب اور اپنی بیویوں سے ہم بستری  کرنا  یکسر چھوڑ دیتا ہے تاکہ  رمضان کے موسم بہار سے مستفید ہوتے ہوئے اجرو ثواب سے اپنی میزان حسنات بھر سکے۔

2۔ روزہ دار  اپنے نفس کی تربیت  اللہ کی حراست میں کرتا ہے۔ اوران تمام چیزوں پر قدرت  واستطاعت  رکھنے کے بادجود کنارہ کش  رہتا ہے جن کی  طلب میں نفس بے قرار رہتا ہے، اس خوف سے کہ اللہ تعالی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے۔

3۔ یقینا روزہ شیطان کے راستوں کو تنگ کردیتا ہے، اس لیے کہ  وہ ابن آدم کے خون کے دوڑنے کی طرح  تیزگام رہتا ہے۔ روزہ کی مدد سے شیطان کی جماعت  ضعیف وناتواں پڑ جاتی  ہے اور معاصی کے  وقوع   کی قلت ہوجاتی ہے۔

4۔ غالبا روزہ داروں   کے خضوع وانقیاد میں اضافہ ہوتا ہے، اور یہ تقوی کے خصال میں سے بڑی خصلت ہے۔

۵۔ روزہ بذات خود  اسباب تقوی میں سے ایک سبب ہے اور ایسا راستہ ہے جو تقوی وپرہیزگاری تک رسائی کا    بہت بڑا ذریعہ ہے۔ (تفسیر سعدی، ص: 86)

دوسری:  روزہ   گناہوں کو مٹانے کا بہترین ذریعہ ہے،بنابریں جو شخص اپنی خطاؤوں کومٹانے کا خواہش مند ہے چاہیے  کہ وہ روزہ رکھے۔نبی کر یم ﷺکا فرمان ہے :

”اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمْضَانَ: مُكَفِّراتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ، إِذَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ“.(صحیح مسلم،ح:۲۳۳)

ترجمہ:  ”پنج وقتہ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ، اور رمضان کاروزہ  اپنے مابین  ہونے والے” گناہوں “کا  کفارہ ہے،آں وقت جب گناہ کبیرہ سے اجتناب کیا جائے“۔

تیسری: روزہ  ایک ڈھال ہے جس کے ذریعہ بندہ  جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر روزے کے ذریعہ  احسان کیا ہے، اس لیے کہ روزہ     جہنم کا ایندھن بننے سے بچاتا ہے، اس کے دومعانی ذکر کیے گیے ہیں :۔

۱۔روزہ  اللہ کے بندوں کو ان تمام اعمال سے محفوظ رکھتا ہے جو جہنم تک لے جانے کا محرک ہیں۔اسی لیے نبی کریم ﷺ نے  نوجوانوں کو نکاح کرنے کی وصیت کی ہے۔ نکاح  نگاہوں کو پست رکھنےوالا اورشرمگاہوں کی حفاظت   کرنے والا ہے، پس جو شخص   نکاح کی سکت نہیں رکھتا، چاہیے کہ وہ روزے کااہتمام کرے اس لیے کہ وہ ترس ہے۔ (صحیح بخاری، ح: ۱۹۰۵)

۲۔ روزہ صائم کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے، جیساکہ  نبی کریم ﷺ کا فرمان گرامی ہے : ”اَلصَّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ“.(أخرجہ أحمد،ح:۱۶۲۷۳) ترجمہ :”روزہ   جہنم سے چھٹکارے کی  ڈھال ہے  ویسے ہی جیسے   تم میں سےکسی کی   مبارزت میں ڈھال ہوتی ہے“۔علاوہ ازیں اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں  فرمان ہے :”إِنَّمَا الصَّیَامُ  جُنَّةٌ يَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنَ النَّارِ، هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِيْ بِهِ“.(أخرجہ أحمد،ح:14669)ترجمہ: ”درحقیقت  روزہ ایک   ترس ہے جس کی بابت   بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے، وہ میرے لیے خاص  ہے اور میں خود اس کا  بدلہ دوں گا“۔

چوتھی:  یہ ایسی منفرد عبادت ہے جس کی اضافت اللہ تعالی نےاپنی طرف کی ہے، اور تمام عبادتوں میں اسے اپنے لیے خاص  کیاہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں ارشاد گرامی ہے : ”کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصَّيَامَ فَإِنَّهُ لِيْ وَأَنَا أَجْزِيْ بِهِ“.(صحیح مسلم،ح:۱۱۵۱)ترجمہ: ”بنی آدم کے تمام اعمال اس  کےلیے ہے سوائے روزہ کے، اس لیے کہ وہ میرے لیے  خاص ہے اورمیں اس کا بدلہ دیتا ہوں“۔

پانچویں:  روزہ داروں کی دعائیں    روزہ کی حالت میں مسترد نہیں ہوتیں، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:”ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ: دَعْوَةُ الصَّائِمِ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ“.(أخرجہ الطبرانی  فی الدعاء،ص: ۹۲۱۔وصححہ الألبانی  فی الصحیحۃ) ترجمہ: ”تین طرح کی دعائیں   مقیول ہوتی ہیں : روزہ دار کی دعا، مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا“۔

افطار  کے وقت دعا کی تقیید پر کوئی ایسی دلیل وارد نہیں ہوئی ہے  جو اس چیز کی توثیق کر رہی ہو۔  اس باب میں جو حدیث  آئی ہے وہ ضعیف ہے جس کے ضعف کو  علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”إروا ء الغلیل“میں قلمبند کیا ہے۔مذکورہ  بالا حدیث روزہ کی حالت میں کسی وقت کی تخصیص کیے بغیر  دعا کی مقبولیت کی بابت  اشارہ کرتی ہے۔

چھٹویں :  روزہ اپنے مصاحب کا بروز قیامت  سفارشی ہوگا، نبی اکر م  ﷺکا فرمان ہے : ”اَلصَّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَومَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصَّيَامُ: أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ، فَشَفِّعْنِيْ فِيهِ، وَيُقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّومَ بِاللَّيْلِ؛ فَشَفِّعْنِيْ فِيهِ، قَالَ: فَيُشَفَّعَانِ“.(أخرجہ أحمد فی مسندہ: ۲/۱۷۴،و صححہ  العلامہ الألبانی فی صحیح  الترغیب والترہیب: ۲/۷۹) ترجمہ: ”روزہ اور قرآن کریم بروز قیامت   بندوں کے لیے  سفا رش  کریں گے، روزہ  گویا ہوگا: اے میرے  پالنہار ! میں نے اسے (فلاں   بندہ کو) دن میں کھانے اور شہوات  کی تکمیل کرنے سے  روک رکھا تھا، لہذا تو اس کے  متعلق  میری سفارش قبول کرلے، اور قرآن مجید  کہے گا: میں نے  اسے(فلاں بندہ کو) رات میں سونے سے منع کیا تھا،  لہذا تو اس کے بارے میں  میری   شفاعت قبول کرلے، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ ان کی سفارش قبول کر لی  جائے گی“۔

ساتویں :  روزہ  جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہےاور اس کے راستوں میں سے ایک  ایسا راستہ ہے جو جنت تک لے جائے گا، بنا بریں جس  کا خاتمہ روزہ کی حالت میں ہو وہ  جنت میں داخل ہوگا، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : ”مَنْ قَالَ: لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ صَامَ يَومًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ خُتِمَ لَهُ بِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ“.(أخرجہ أحمد،ح: ۲۳۳۲۴،وقال  المنذری : إسنادہ لا بأس بہ، وصححہ الألبانی)  ترجمہ: ”جس نے   کہا کہ نہیں ہے کوئی معبود برحق مگر اللہ تعالی، اور اسی  حالت میں اس کا خاتمہ ہوجائے، تو وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جس نے ایک دن بھی  اللہ کی رضاجوئی  کی خاطر روزہ رکھا اور اسی پر اس کا خاتمہ ہوجائے، تو وہ جنت میں داخل ہوگا“۔

آٹھویں: روزہ داروں کے لیے  جنت میں خصوصی دروازہ  ہے جس کا نام "باب الریان” ہے، اس سے صائمین کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا، اور ان کے ورود مسعود کے بعد اس کے دروازے بند کردیئے جائیں گے، اورجو داخل ہوگیا وہ کبھی بھی  تشنہ لب نہیں ہوگا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : ”إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ: اَلرّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَومَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ“.(صحیح بخاری،ح:1896) وزاد  : ”ومن دخله لم يظمأ أبدا“.(سنن ترمذی،ح: 765)

نویں: روزہ دار کےمنہ کی  متغیر بو مُشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے،جو کہ یہ متفق علیہ روایت سے ثابت ہے: ”لَخَلُوفُ فُمِ الصَّائِمِ عِنْدَ اللهِ أَطْيَبُ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ“.

دسویں: صائم کو فرحت وانبساط کی بشارت دی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرما ن ہے :”لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ“.(صحیح مسلم،ح:۱۱۵۱) ترجمہ: ”روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک جب وہ افطار کرتا ہے، اور دوسرا جب وہ اللہ تعالی سے ملاقات  کرے گا“۔

تبصرے بند ہیں۔