جو اپنے عیب سے غافل نہ ہوگی، باخبر ہوگی

جمالؔ کاکوی

جو اپنے عیب سے غافل نہ ہوگی،باخبر ہوگی

وہ عارف کی نظر ہوگی،  نگاہِ دیدہ بر ہوگی

ہماری آہ کیا کمبخت اتنی بے اثر ہوگی

نہ ان کا دل پسیجے گا نہ ان کی آنکھ تر ہوگی

زمیں کو دیکھ کر روتی وہ ہوگی درد کی ماری

دعا رب سے کرتی ہوئی ضعیفہ چاند پر ہوگی

زباں سے دعوئے حق،عمل سے کافر ومشرک

شہادت مسترد ہوگی،   قسم نہ معتبر ہوگی

صبر پونجی قناعت ہوگا جس کا سرمایہ

عبادت میں ریاضت میں بسر شام و سحر ہوگی

بندھے گی سر پہ جو دستار اس کاپاس بھی ہوگا

زباں شیریں زباں ہوگی، نظر نیچی نظر ہوگی

زمانے کا بھلا اس میں اگر ہوتاہے ہونے دو

گراہ کھل جائے گی پونجی اِدھر سے کچھ اٌدھر ہوگی

بھلا وہ شخص ہے دل میں محبت اس کے زندہ ہے

کسی کا دل دکھے پر آنکھ اس کی تربترہوگی

قفس کادرکھلاسیّادنے چھوڑا تو ہے لیکن

رسائی آشیاں تک کس طرح بے بال وپر ہوگی

بابانگِ دہل ظالم کو میں ظالم ہی بولوں گا

مروں گا حق کی خاطر زندگی حق پہ بسر ہوگی

تمہیں شاعر نہیں جمالؔ میں وحشی سمجھتاتھا

کبھی سونچا نہ تھا فکرِسخن بھی چارہ گر ہوگی

تبصرے بند ہیں۔