سیتامڑھی لوک سبھا حلقہ: اساطیر، حقائق اور موجودہ مسائل

نایاب حسن قاسمی

سیتامڑھی ہندستان کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اورہندواساطیری روایات کے مطابق اسے مذہبی تقدس بھی حاصل ہے، ہندووں کی مخصوص زیارت گاہوں میں شامل ہے، اس کی بنیادی شناخت بھگوان رام کی بیوی سیتا کی جاے پیدایش کے طورکی پر جاتی ہے، بعد کے تاریخی ادوار میں اس کی حیثیتیں بدلتی بھی رہی ہیں۔ فی الحال یہ صوبۂ بہار کاایک حاشیائی اورمجموعی طورپر سرکار، میڈیااور سماجی وانسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے نیشنل و انٹر نیشنل اداروں کی پہنچ سے دورایک پسماندہ ضلع ہے۔ اس کے اپنے دُکھ ہیں اور اپنے آزار، جنھیں دوسرے توکیا، وہ لوگ بھی کم ہی سمجھتے ہیں، جن کی یہ جنم بھومی ہے، اس کی آغوش میں جنم لینے والے اس کے زیادہ تر فرزند ہندستان و بیرونِ ہند کے شہروں کی تعمیر و ترقی میں تو حصہ ڈالتے ہیں، مگر خود یہ ضلع عموماً اپنے سپوتوں کی ذہنی، فکری، علمی ومادی حصولیابیوں سے محروم ہی رہتا ہے۔ مذہبی طبقات میں یہاں ہندواور مسلم آبادی نمایاں ہے، مسلمان تقریباً21فیصد ہیں، جبکہ ہندو76فیصد، پھر ان میں مختلف برادریاں ہیں، جن میں یادوسیاسی اعتبار سے فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک سیتامڑھی لوک سبھا حلقے سے سب سے زیادہ یادوامیدواروں نے جیت درج کرائی ہے۔ سیتامڑھی پہلے مظفر پور ضلع کا حصہ ہوا کرتا تھا، 1972میں اسے مستقل ضلع بنایاگیا، پھر اس میں سے بھی کٹ کر ایک اور ضلع شیوہر1994میں بناہے۔

          سیتامڑھی لوک سبھا حلقہ سات اسمبلی حلقوں (بتھناہا، پریہار، سرسنڈ، باجپٹی، سیتامڑھی، رونی سیدپوراور ریگا) پر مشتمل ہے، اس حلقے میں کل ووٹرز 15,74,914ہیں، جن میں 8,32,370مرداور7,42,544خواتین ہیں۔ آزادی کے بعد پہلی بار 1957میں سیتامڑھی لوک سبھا حلقے سے اچاریہ جے بی کرپلانی پرجاسوشلسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑکر ممبرپارلیمنٹ منتخب ہوئے، جے بی کرپلانی کا نام ہندستانی سیاست میں متعارف و مشہور ہے، وہ گاندھیائی طرزِ فکر کے پیرووں میں نمایاں ہیں، آزادی کے پرجوش سپاہیوں میں شامل تھے، آزادی سے قبل 1946میں میرٹھ میں اجلاس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی جگہ انھیں کانگریس کا صدر بنایاگیا تھا، حالاں کہ آزادی کے بعد 1950میں پرشوتم داس ٹنڈن سے کانگریس کی صدارت کا الیکشن ہارنے کے بعد وہ کانگریس سے الگ ہوگئے، پھر اپنی سیاسی جماعت ’’کسان مزدور پرجا پارٹی‘‘ کے نام سے بنالی، اس پارٹی کاسوشلسٹ پارٹی آف انڈیا میں انضمام ہوگیااوراس کی کوکھ سے ایک تیسری پارٹی ’’پرجا سوشلسٹ پارٹی‘‘کے نام سے معرض وجودمیں آئی اور اسی کے ٹکٹ پر دوسرے لوک سبھا الیکشن میں کرپلانی سیتامڑھی سے منتخب ہوئے اور 1950کے بعد تاحیات(مارچ 1982) وہ اپوزیشن میں ہی رہے، حالاں کہ دوسری طرف ان کی بیوی سچیتاکرپلانی تاحیات کانگریس کی اہم لیڈر رہیں، یوپی کی پہلی وزیر اعلیٰ بھی بنائی گئیں۔ بہر کیف کرپلانی کی بھاری بھرکم شخصیت کے اعتبار سے آزاد ہندستان کی تاریخ کا یہ اہم پہلوہے کہ حیدرآباد(پاکستان)میں جنمے اور احمدآباد(گجرات)سے تعلق رکھنے والے جے بی کرپلانی سیتامڑھی(بہار)سے ممبرآف پارلیمنٹ منتخب ہوئے، اس انتخاب کی وجہ یقیناً ان کی قومی شہرت، جدوجہد آزادی میں سرگرم شرکت اوران کا بالابلند سیاسی قدتھا۔

          اس کے بعدلگاتار تین بار (1962-71)ناگیندرپرساد یادوکانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر یہاں سے ایم پی منتخب ہوتے رہے، ایمرجنسی کے بعد فوراً 1977میں جنتاپارٹی سے شیام سندر منتخب ہوئے، 1980میں دیوراج ارس کی کانگریس پارٹی سے بلی رام بھگت، 1984میں کانگریس سے رام سریشٹھ کھریہر، 1989میں جنتادل سے حکم دیونارائن یادو، 1991اور1996میں جنتادل سے نول کشوررائے، 1998میں آرجے ڈی سے سیتارام یادو، 1999میں جے ڈی یو سے نول کشور رائے، 2004میں آرجے ڈی سے سیتارام یادو، 2009میں ارجن رائے اور 2014میں رالوسپاسے رام کمار شرما سیتامڑھی سے ممبرآف پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ شرماجی اس سے پہلے دوبار نانپور سے مکھیارہے، 2014میں اُوپندر کشواہا کی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی این ڈی اے کا حصہ تھی اور مودی لہر میں پورے ملک میں بہت سے لوگوں کی قسمت چمکی، جن میں رالوسپااور رام کمار شرما بھی تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد نہ تو پارلیمنٹ میں ان کی کارکردگی قابلِ اطمینان رہی، حالاں کہ پارلیمنٹ میں ان کی حاضری 92فیصد رہی، جو قومی شرح 80فیصداورریاستی شرح 87فیصدکے بالمقابل بہتر ہے، مگربحثوں میں ان کی حصے داری نہایت معمولی محض27 فیصدہے، جبکہ قومی سطح پر ممبران پارلیمنٹ کی حصے داری67فیصد اور ریاستی سطح پر 58 فیصد ہے، پارلیمنٹ میں ان کے ذریعے دریافت کیے گئے سوالات کی تعداد204ہے، جس کی نیشنل شرح292اور ریاستی شرح197ہے، یعنی رام کمار شرما کے سوال پوچھنے کی شرح ٹھیک ٹھاک ہے۔ یہ تو پارلیمنٹ کے اندر کی بات ہوئی، اگر ہم رام کمار شرما کے زمینی کاموں کا جائزہ لیں اور اپنے رائے دہندگان سے ان کے رابطے اور ان تک پہنچنے، ان کے مسائل کو سننے اور سمجھنے کی ان کی کوششوں کی تحقیق کریں، تو اس معاملے میں رام کمار شرما کی کارکردگی نہایت مایوس کن ہے، ایسا لگتاہے کہ چوں کہ ان کی جیت مودی لہر میں ہوئی تھی؛اس لیے جیتنے کے بعدوہ بس خوشی ہی مناتے رہ گئے، انھوں نے نہ تو الیکشن کے دوران کچھ زیادہ محنت کی اور ایم پی بننے کے بعد تو خیر کیاکرتے۔ مودی حکومت میں پھیلنے والے سماجی زہر کا اثر سیتامڑھی میں بھی نظر آیا اور گزشتہ سال کے اخیر میں خاص سیتامڑھی شہر کے آس پاس کے علاقے میں بھیانک فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں، جن میں ایک اسی سالہ بوڑھے کونہایت وحشیانہ طریقے سے مار ڈالا گیا، اس سارے سلسلۂ واقعات پر مختلف سماجی گروپس نے اپنے اپنے طورپر حکومت کے خلاف احتجاج کیا، نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی، پھر متعدد لیڈنگ نیوزچینلوں اور اخبارات نے اس واقعے پر خصوصی رپورٹنگ کی، تو ہلکا پھلکا اثر ہوا، مگر قابلِ ذکر ہے کہ اس سارے ایپی سوڈ میں سیتامڑھی کے ایم پی کہیں دوردورتک نظر نہیں آئے، حلقے میں ان کے ترقیاتی کام کابھی کوئی اتاپتانہیں ہے، عام طورپر لوگوں کو ان سے شکایت یہ ہے کہ وہ ایم پی بننے کے بعد کبھی حلقے میں نظر ہی نہیں آئے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں حلقے کے ایک گاؤں میں انھیں نوجوانوں کے زبردست احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مارچ میں ری پبلک ٹی وی نے ان کا ایک اسٹنگ آپریشن نشرکیاتھا، جس میں وہ کسی کارپوریٹ کمپنی سے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کرنے کے عوض دس کروڑ روپے مانگ رہے تھے، بعد میں جب رپورٹر نے انھیں ایک ہوٹل میں گھیرا، تو بے چارے بری طرح سٹپٹا گئے تھے، کوئی جواب ہی نہیں بن پارہاتھا۔

          اس بار کے الیکشن میں صورتِ حال2014کے بالمقابل بالکل ہی مختلف ہوگئی ہے، مودی لہر اب نایاب ہے، دوسرے یہ کہ کشواہاکی پارٹی اب مہاگٹھ بندھن کا حصہ ہے یعنی آرجے ڈی، کانگریس وغیرہ کے اتحاد میں شامل ہے اور سیتامڑھی حلقے میں چوں کہ یادوووٹ سب سے زیادہ ہے، سو یہ آرجے ڈی کے حصے میں گئی ہے اور اس نے ڈاکٹرارجن رائے کو ٹکٹ دیا ہے۔ ارجن رائے پہلی بار2005میں جے ڈی یو سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور2009میں اسی پارٹی سے سیتامڑھی سے ایم پی بنے تھے، 2014کی مودی لہر میں تیسرے نمبر پرکھسک گئے تھے۔ آدمی ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں، تعلیم یافتہ  ہیں، پہلی مدتِ کار میں کام بھی کروائے تھے، ایک مقامی صحافی سے انٹرویو میں انھوں نے کہاہے کہ وہ سیتامڑھی میں صحت، تعلیم اور صنعت کے شعبوں میں کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں، اس ضلع میں یہ تینوں شعبے واقعی نہایت خستہ حالت میں ہیں، علاج کے لیے عموماً دربھنگہ اور پٹنہ اور تعلیم وروزگار کے لیے تو پتانہیں یہاں کے لوگوں کو کہاں کہاں جانا پڑتا ہے، بدعنوانی ویسے تو ہمارے پورے سسٹم کو جکڑے ہوئی ہے، مگرسیتامڑھی چوں کہ ہر اعتبار سے مین سٹریم سے کٹا ہوا ہے، جس کی وجہ سے عموماً میڈیا کی بھی یہاں تک رسائی نہیں ہوتی؛چنانچہ ضلع انتظامیہ سے لے کر پولیس تھانہ کے افسران اور بلاک سے لے کر گرام پنچایت کے مکھیا اور وارڈ ممبران تک ہر سرکاری کام میں بے حساب من مانی کرتے ہیں، عام لوگوں کو معمولی سے معمولی کام کروانے کے لیے بھی متعلقہ سرکاری نمایندے کی جیب گرم کرناپڑتی ہے۔ ضلع کی ترقی کے لیے ان تمام مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینا اوران کے حل کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔

          امید ہے کہ ارجن رائے اس بار سیٹ نکال لیں گے؛کیوں کہ یادوووٹ تو انھیں ملے گاہی، مسلمانوں کے پاس بھی ان کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہے؛اس لیے مسلمانوں کاووٹ بھی زیادہ تر ارجن رائے کو ہی جائے گا۔ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں، تو جس قسم کے عزائم کا اظہار انھوں نے کیاہے، ہم امید کریں گے کہ وہ ان کو زمینی سطح پر اتارنے کی بھی کوشش کریں۔ معاشی و سماجی بدحالی کے علاوہ ایک نیا مسئلہ سیتامڑھی میں پھر سے سرابھار رہاہے اور وہ ہے فرقہ وارانہ منافرت کے بڑھتے رجحانات، اس ضمن میں بھی انھیں خاص کام کرنے کے ساتھ سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت منظم جدوجہد کرنی ہوگی۔ این ڈی اے میں یہ سیٹ جے ڈی یو کے حصے میں آئی ہے، اس نے پہلے مقامی ڈاکٹر ورون کو ٹکٹ دیا تھا، مگر انھوں نے منع کردیا، تو آناً فاناً بی جے پی کے ممبر اسمبلی سنیل کمار پنٹو کو جے ڈی یو میں شامل کرکے ٹکٹ دے دیاگیا ہے۔ ان کے لیے انتخابی پرچار کرنے بی جے پی صدر امیت شاہ سیتامڑھی پہنچے تھے، 28اپریل کو ان کی ریلی تھی، پون گھنٹے کی تقریر میں ہوابازی ہی کرتے رہے، سیتامڑھی کے مسائل یا اس کی ضرورتوں پر بہ مشکل دوچار جملے بولے ہوں گے، سارازور راشٹرواد، موی مودی، پلواما اور فوج وغیرہ پر رہا اور اس بار بی جے پی تو پورے ملک میں انہی موضوعات پر الیکشن لڑرہی ہے، وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں مودی حکومت نے حقیقی معنوں میں کوئی ایسا کام کیاہی نہیں، جسے عوام کے سامنے پیش کرکے ان سے ووٹ مانگ سکے۔ امیت شاہ سیتامڑھی ریلی کے دوران مودی حکومت میں شروع کی گئی یوجناؤں کی ایک لسٹ لے کر گئے تھے اور بڑے مضحکہ خیز انداز میں انھوں نے اس لسٹ کو پڑھ کر سنایا، جس پر بی جے پی حامی حاضرین اچھلنے لگے، ان کی پون گھنٹے کی تقریر بونگیوں اورتضادبیانیوں کا’ ’شاہکار‘‘تھی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔