نوٹوں پر پابندی وطن دوستی یا فریب کی سیاست!

ڈاکٹر اسلم جاوید

ملک میں اقتصادی ایمرجنسی کا اعلان کر کے وزیراعظم نریندر مودی جاپان کی سیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ 8 نومبر کی رات وزیراعظم نے 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹوں کے چلن کو منسوخ کرنے کا ہنگا می طور پر اعلان کیا ،جس سے ملک بھر میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ۔ کوئی شہری چاہے وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو، اس اعلان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ غریب سے لیکر دولتمند ہر کوئی خود کو ایک ہی صف میں محسوس کرنے لگا۔ نریندر مودی کے اس اعلان نے غریب اور متوسط طبقات پر بجلی کا کام کیا ہے اور ان کا معاشی نظام درہم برہم ہوگیا۔ اچانک مالیاتی ایمرجنسی کے نفاذ سے عوام کو بچانے کے بجائے قوم کو منجھدار میں چھوڑ کر جاپان دورہ کے مزے لوٹنا کیا معنی رکھتا ہے یہ بھی ایک معمہ ہے۔ عوام کی تکالیف اور ملک کی معیشت سے جڑے مسئلہ پر بے حسی کیوں ؟بہر حال آج شب ہی وزیر اعظم وطن لوٹ چکے ہیں اور آ ج ہی وہ گوا کیلئے روانہ بھی ہوچکے ہیں۔
بدعنوانی کے خلاف اٹھائے جانے والے اس قدم کا آغاز چار روز قبل ہوا تھا، لیکن اس کے بعد سے اب تک بینکوں اور اے ٹی ایم بوتھوںکے سامنے لمبی قطاریں نظر آ رہی ہیں۔عام ہندوستانیوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ موجودہ این ڈی اے حکومت بڑے نوٹوں کا چلن بند کر کے ان کے ساتھ ایسا بھونڈا مذاق کر نے جا رہی ہے،جس کی مثال ملک کی تاریخ حتیٰ کہ غلام ہندوستان کی تاریخ میں بھی دور دور تک نہیں ملتی۔عوام کا خیال تھا کہ مودی جی سچے دیش بھکت ہیں اور وہ عوام کو پریشان کر نے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ،انہوں نے اس پابندی سے پہلے ہی عوام کو سہو لیات بہم کرنے کے سا رے انتظامات کرلئے ہوں گے،لیکن یہ سارا بھرم چار دن کے اندر ہی ٹوٹ گیا۔رپورٹیں بتا تی ہیں کہ عام ہندوستا نیوں کی جیبوں میں موجو د بڑے نوٹوں کوبینکوں میں جمع کرانے اور وہاں سے 4000 روپے واپس کرانے میں سرد موسم میں بھی پسینے چھوٹ رہے ہیں۔اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس اعلان سے پہلے عوام کو سہولت فراہم کرنے کیلئے کوئی بھی مناسب انتظامات نہیں کئے گئے۔نہ تو بنکوں میں اضافی کاؤ نٹر لگا ئے گئے اورنہ کوئی متبا دل انتظام کیا گیا کہ دوسرے سرکاری ادارے ہی عوام کی پریشا نیا ں دور کرنے میں کچھ تعاون کریں ۔کہنے کو تو مدر ڈیری اورمیڈیکل اسٹوروں پر بھی بند کئے گئے نوٹوں کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ میڈیکل اسٹور والے اور نہ مدر ڈیری والے بڑے نوٹ لینے کو تیار ہیں۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطا بق آج اتوارہے اور سرکاری فرمان کے مطابق بینک کھلے ہیں ، لیکن صبح سے ہی تمام بینکوں کے سامنے قطاریں لگی ہوئی ہیں جو کہ گذشتہ روز کے مقابلے تین روز میں کہیں زیادہ لمبی ہیں۔بہت سے لوگ پرانے کرنسی نوٹ بدلوانے کے لیے قطار میں ہیں تو بہت سے روز مرہ کی ضرورت کے لیے پیسے نکالنے کے لئے قطار میں کھڑے اپنے نمبر کا انتظارکر رہے ہیں۔
کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی نے تو یہ بات 9نومبر 2016کو ہی کہہ دی تھی کہ اس سے کالے دھن پر کوئی روک لگنے والی نہیں ہے،بلکہ یہ گورکھ دھندہ عوام کو پریشان کرنے کے ارادے سے مرکزی حکومت نے شروع کیا ہے۔اس درمیان کرنسی کے تعلق سے جو انکشافات ہوئے ہیں وہ راہل گا ندھی،ممتا بنرجی، مایا وتی، اروند کجریوال،لالو پرشاد یادو اور کھلیش کے اندیشوں کو تقویت پہنچاتے ہیں۔راہل نے کہا تھا کہ ملک سے بلیک منی ختم کرنے کی نیت اگر درست ہوتی تو یہ خبر مودی کے دم چھلے بنے ہوئے دولتیوں یعنی ،اڈانی ،امبانی اور ہزاروں گجراتی کارپوریٹروں کو بھی پتہ نہیں چلنی چاہئے تھی ۔مگر معاملہ یہ ہے کہ ملک کے عام لوگو ں سے چھپا کر یہ بات انتہا ئی پوشیدہ طریقے گجراتی دھنا سیٹھوں کو بتا دی گئی اور انہوں نے مودی کے 8نومبر2016کے اعلان سے پہلے ہی اپنی کا لی دولت کو ٹھکا نے لگا دیا۔اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس قبیل کی ایک خبر اسی سال ماہ جولائی میں آر ایس ایس اور بی جے پی کا ترجمان کہے جانے وا لے اخبار’’دینک جاگرن‘‘ میں شائع کی گئی تھی۔اس خبر پر عام لوگوں نے زیادہ توجہ اس لئے نہیں دی تھی کہ ان کے پاس محنت مزدوی ر اور مشقت کے نتیجے میں اجرت کے طور پر جورقم ملتی ہے اس میں بچتا ہی کہاں ہے کہ وہ اس خبر کا نوٹس لیتے ۔مگر بی جے پی کے قریبی دھنا سیٹھوں کو اس خبر سے ہوشیار ہونے کا بھرپور موقع مل گیا۔ جنہوں نے اربوں کی کالی دولت اپنی تجوریوں میں قید کررکھی تھی۔یہ بات قرین قیاس ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ’’جاگرن ‘‘ میں کرنسی کے تعلق سے شائع ہونے والی اس خبر کا کارپوریٹ خاند ا نو ں نے نوٹس نہیں لیا ہوگا ۔ کل اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعہ دہلی کے وزیرا علیٰ نریندر نے بھی چونکانے والا نکشاف کر تے ہوئے لکھا ہے کہ’’ جب وزیر اعظم 8نومبر2016کونوٹ کو ناجائز قرار دیے جانے کا اعلان کر رہے تھے، اس سے پہلے ہی ایک سرکاری کوارٹر میں کالی دولت کو ٹھکانے لگانے کا گورکھ دھندہ زوروں شور سے چل رہا تھا، انہو ں نے دیگر عوام پرست لیڈروں کی طرح مرکزی سرکار پر حملہ کرتے ہوئے کہا ’’ مودی جی کے نوٹوں پر پابندی عائد کئے جانے سے پہلے ہی اپنے سارے کار پوریٹ اور سرمایہ داردوستوں کو محتاط کر دیاتھا، لہذا جن بڑے لوگو ں کے پاس کالا دھن تھا، انہوں نے پہلے اپنا مال جہاں سیٹ کرنا تھا وہاں فٹ کردیا۔جبکہ عوام کے ساتھ وزیراعظم سمیت مرکزی کابینہ کے امراء کا نہ پہلے کبھی سچا تعلق رہا ہے اور نہ مستقبل میں اس کی امید کی جا نی چاہئے،اس کی دلیل ملک بھر میں لگنے والی لمبی لائنوں سے مل سکتی ہے۔جہاں کوئی سرمایہ دار ،کارپوریٹ خاندان کا فرد یا کوئی بھاجپائی نیتا نظر نہیں آتا ،بلکہ وہاں صرف غریب ،مزدور اور عام لوگوں کی لائنیں ہیں۔جنہوں نے صرف گھر کی دال روٹی چلانے کیلئے اپنی دہاڑی اور مزدوری چھوڑ کر بنکوں میں روپے کھلانے کے ارادے سے لائن لگا رکھی ہے۔اس سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آ تی ہے کہ مودی کس کے ہمدرد ہیں اور ملک کے کس طبقہ کو وہ اپنی جوتیوں کی ٹھوکروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔
کل ہی کجریوال نے دعویٰ کیا کہ مرکزی حکومت بدعنوانی کم کرنے کے نام پر اصل میں بہت بڑی سطح پر گھوٹالے کو انجام دینے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔کجریوال نے اس موقع پر میڈیا کو ایک ویڈیو کلپ بھی دکھائی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک سے بد عنوانی کو ختم کر نے کا مودی اور ارون جیٹلی کا کوئی اردادہ نہیں ہے،بلکہ وہ ملک میںاپنے مظالم کو چھپا نے کیلئے نوٹوں پر پابندی کے نام کا ایک نیا جال لائے ہیں ،تاکہ ان کی غریب دشمنی اور فاشزم کو فروغ دینے والی پالیسیا ں عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں۔ ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ ایک سرکاری کوارٹر میں نوٹوں پر پابندی لگا نے والی رات کو ہی وسیع پیمانے پر سرکاری اپارٹمنٹ میں کروڑوں روپے ادھر سے ادھر کھسکائے جا رہے ہیں۔ کجریوال اور راہل گاندھی کے اس الزام کی کچھ بنیاد بھی ہے۔جمعہ کے روز کولکاتہ میں سی پی ایم نے دعویٰ کیا ہے کہ 8نو مبر بروز منگل بی جے پی کی مغربی بنگال یونٹ نے پارک ایو نیومیں واقع انڈین بنک کی ایک برانچ میںایک کروڑ روپے جمع کرائے تھے ،جس میں سارے نوٹ500اور1000روپے کے تھے۔اس سے بآ سانی سمجھا جا سکتا ہے کہ اعلان سے پہلے ہی بی جے پی کے اندر یہ خبر وائرل ہو چکی تھی۔دوسری خبر جو آج بھی میڈیا کی سرخیوں میں ہے وہ یہ کہ دو ہزار کے نئے نوٹ جاری ہونے کے دن ہی اتر پردیش بی جے پی یونٹ کے بڑ ے لیڈر کیشو پرساد موریہ کی بیٹی نلنی موریہ2000کے نوٹوں کے 20کروڑ روپے پر مشتمل بڑے بڑے بنڈل ہاتھوں میں لیکر اپنی تصویر سوشیل سائٹ پر اپلوڈ کردی تھی۔جبکہ وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق بنک سے ایک آدمی کو ایک دن میں فقط 4000روپے لینے کی جازت دی گئی ہے۔یہ سارے تضادات اس بات کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ کالی دولت کیخلاف حکومت اور بی جے پی کس درجہ سنجیدہ اور پاک صاف نیت کی حامل ہے۔انہی سرگرمیوں سے اس بات کا اندازہ بھی لگ رہا ہے کہ نوٹوں پر پابندی کا اعلان محض دکھا وا تھا،جبکہ عوام کی آ نکھوں میں دھول جھونک کر یہ خبر پارٹی کے اندر پہلے ہی عام کردی گئی تھی ،اسے عوام دوستی کہا جائے یا پر فریب سیاست کی کاریگر ی ،جس کے نتیجے میں چوروں کو چوکیداری کی ذمہ داری تفویض کی جا رہی ہے ،اس کافیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔