گاؤں کو ترستا ہندوستان: سچی کہانی پر مبنی منفرد فلم ‘گاؤں’

سبطین کوثر

وہ گاؤں جو ہمارے آباواجداد کی نشانی ہے، وہ گاؤں جہاں ہم میں سے بیشتر کا بچپن گزرا، وہ گاؤں جہاں کی گلیوں اور کھیتوں میں محبت رچی بسی ہے۔ اس گاؤں کی کہانی گوتم سنگھ سگدر نے اچھوتے اور انوکھے انداز میں پیش کیا ہے۔

 مہاتما گاندھی نے کہا تھا ‘بھارت کی آتما گاؤں میں بستی ہے’۔ باپو ہوتے تو شاید وہ اپنے اس بیان پر آج شرمندہ ہوتے کیوں کہ اب وہ گاؤں بھارت میں نہیں رہا۔

 ممتاز ہدایت کار و معروف نیوز چینل ”الجزیرہ”  کے صحافی گوتم سنگھ سگدر نے اسی مرکزی خیال کے تحت فلم ‘گاؤں، دا ولیج نو مور’ بنائی ہے۔

اس فلم کو انہوں نے گاؤں میں شوٹ کیا ہے۔ ان گاؤں میں ان کا اپنا گاؤں بھی ہے۔ یہ گاؤں بھارتی ریاست جھارکھنڈ کا ہے جسے ‘بھارت گاؤں’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گاؤں کی بدلتی تصویر کو انہوں نے انتہائی دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔

یہ فلم آج کی فلموں سے نہ صرف یہ کہ بالکل الگ ہے بلکہ اسے تجارتی اور فائدے کے نقطہ نظر سے بھی نہیں بنایا گیا ہے۔ فلم ‘گاؤں، دا ولیج نو مور’ کے ہدایت کار و پروڈیوسر اپنے گاؤں کی کہانی دنیا کے سامنے لانا چاہتے تھے۔ یہ ہے تو ان کی آپ بیتی لیکن اسے انہوں نے جگ بیتی بنا دیا ہے۔ اس فلم کے ذریعہ انہوں نے گاؤں اور شہر کا موازنہ بھی کیا ہے اور کئی طرح کے پیغامات دینے کی کوشش کی ہے۔ اپنے بقا کے لیے جوجھ رہے گاؤں کا درد انہوں نے بیان کیا ہے۔ یہ درد یوں تو انہوں نے اپنی زبان اور اپنے طریقے سے بیان کیا ہے لیکن یہ ہر ہندوستانی کا درد ہے کیوں کہ ہم میں سے ہر فرد کا گہرا تعلق گاؤں سے ہے۔

عرف عام میں گاؤں کا مطلب ایک جنت نظیرماحول کا تصورتھا لیکن آج کی صورتحال سے ہم سب آشنا ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل کر ملک و بیرون ملک میں اعلی تعلیم اور ملازمت کے بعد بھی ممتاز و معروف نیوز چینل ‘الجزیرہ’ کے صحافی گوتم سنگھ سگدر کے ذہن سے گاؤں کا یہ تصور نہیں نکلا۔ انہیں ہر ہندوستانی کی طرح اپنے گاؤں سے بھی والہانہ محبت ہے، انہیں ترقی سے بھی پیار ہے لیکن وہ ترقی کو دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں ترقی کی الگ سے کوئی قیمت ادا نہیں کی جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں بنیادی سہولیات مہیا کرائی جائیں، یہاں بسنے والوں کو بھی ہرممکن مراعات دی جانی چاہیے لیکن ترقی کے ساتھ گاؤں کی اصل روح متاثر نہ ہونے پائے۔ آپسی بھائی چارہ، ہم آہنگی، سادہ پن، اخوت و محبت، محنت و مشقت، ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک رہنے کا جذبہ اور گھلا ملا سماج ہر حال میں باقی رہے۔

 فلم ‘گاؤں’ میں  شہری زندگی کی بھی بہترین تصویر کشی کی  گئی ہے۔ شہروں کا بھی پورا نقشہ کھینچا گیا ہے جہاں گھٹن ہے، تنگی ہے، مادہ پرستی، جنسی بے راہ روی، فضائی آلودگی اور فریب و دغابازی ہے۔ فلم میں شہر اور گاؤں میں رہنے والوں کے عادات و اطوار بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ گاؤں آج بھی ہمارے لیے کتنا ضروری ہے۔

فلم میں بھارت کی 200 سالہ تاریخ پیش کی گئی ہے اس لیے اس فلم کو تاریخی فلم کہنا مبالغہ نہ ہوگا۔ فلم میں ڈرامہ، کامیڈی، محبت کا تڑکا، ٹوٹتے بکھرتے رشتے، ایڈونچر یعنی ہر وہ چیز ہے جسے ناظرین دیکھنا چاہتے ہیں۔

گذشتہ 15 برسوں سے گوتم سنگھ ڈاکیومنٹری فلمیں بنا رہے ہیں۔ ان کی کئی ڈاکیومنٹریز کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے جن میں قابل ذکر ڈاوٹرز آف دا برادیل، انڈین ہاسپیٹل، مائی سسٹر لکشمی، انڈین ہاسپیٹل ری ویزیٹیڈ، دا برننگ سٹی، اے سٹنگ ان دا ٹیل ہیں۔

فلم میں فنکاورں کا انتخاب بھی جاندار ہے۔ پیپلی لائیو کے اونکار داس مانکپوری عرف ‘نتھا’ کے ساتھ بی اے پاس کے لیڈ ایکٹر شاداب کمال  فلم ‘گاؤں’ میں اپنا جلوہ بکھیر رہے ہیں  تو لیڈ ایکٹریس نیہا مہاجن ہیں اور ان کے ساتھ گوپال کے سنگھ، دیبیوندو بھٹا چاریہ اور روہت پاٹھک اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ فلم 26 اکتوبر کو ریلیز ہو رہی ہے۔

 یہ فلم جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی سے ریلیز کی جائے گی۔ اپنے گاؤں کے قریب میں واقع تھیٹر میں بھی یہ فلم دکھائی جائے گی جہاں کے لوگ اس فلم کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ آج بھی اس گاوں کے لوگوں کو فلم دیکھنے کے لیے 50 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

اگر آپ کو اپنے گاؤں یا بھارت کے گاؤں سے محبت ہے تو اس فلم کو ضرور دیکھیں کیوں کہ یہ  فلم اور اس کی کہانی ہر ہندوستانی شہری کے دل کی آواز ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔