ہماری وفاداری پر شک کرنا ملک سے غداری ہے

ہندوستان کا شمار دنیا کے عظیم ترین ملکوں میں ہوتاہے ،اس کی خوبصورتی اور عظمت میں مسلمانوں کا بے شمار حصہ ہے ،انگریزوں کے ناپاک سایہ سے بھی مسلمانوں نے ہی اس ملک کو آزادکرایاتھا، آزادی کے بعد بھی اس ملک کو مسلمانوں نے دل سے قبول کیا ،حکومت کے خاتمہ اور اقتدار چھن کے باجود اکثریت نے تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان کو اپنا حقیقی وطن سمجھا،اس کی تعمیر وترقی کیلئے فکر کی ،ملک کو آسمان کے بلندیوں پر لیجانے کیلئے چوطرفہ قربانیاں دی جہاں جیسی ضرورت پیش آئی مسلمان صف اول میں نظر آئے اور انہوں نے ملک کیلئے ہر کچھ قربان کردیا ،مسلمانوں کے طرزعمل سے کبھی بھی یہ ثابت نہیں ہواکہ انہیں اس ملک سے نفرت ہے ،ہندوستان کی دھرتی سے محبت نہیں ہے ،وہ اس ملک کے ساتھ وفاداری نہیں کرتے ہیں ،تاریخ بتاتی ہے کہ اس ملک کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے دی ہے ،اس ملک کو سنوارنے اور بنانے میں مسلمانوں نے اپنا پوراسرمایہ صرف کیا ہے ،آج جن چیزوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کو جاناجاتاہے وہ مسلمانوں کا بنایا ہواہے ،آج بھی ہر نازک موڑپر مسلمانان ہند ملک کیلئے سب کچھ قربان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں پر یہ الزام کہ ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں یا جب تک یہ مخصوص الفاظ نہیں کہیں گے ،ایک خاص نعرہ نہیں لگائیں گے انکو محب وطن نہیں کہاجائے گا ۔مسلمانوں کے تعلق سے یہ سوچ رکھنا،ان پر کسی طرح کاالزام لگانا بطور خاص ان کی حب الوطنی پر شک کرنا دراصل ملک کے ساتھ غداری ہے ،اس کی عظمت کی اہانت کے مترادف ہے ،ملک حقیقی باشندوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچانے کے مترادف ہے ،یہ ملک مسلمانوں کا ہے ،اسی کی مٹی میں ان کا جنم ہواہے ،ہمارے ہی آباواجداد نے اس کو بنایا ہے ہم مسلمان اس ملک سے محبت نہیں کریں گے ،ہم اس کی عظمت کا گن نہیں گائیں گے تو کس ملک سے پیا کریں گے ،کس ملک سے حب الوطنی کا ثبوت پیش کریں گے ہاں ہر ایک کے محبت کا انداز جداہے ،ہر ایک کی حب الوطنی کا طرز علاحدہ ہے ،مسلمان اپنے ملک کیلئے سب کچھ قربان کرسکتاہے لیکن عقیدہ کے خلاف نہیں کرسکتاہے ،اسے خدا کادرجہ نہیں دے جاسکتاہے ،اسے بھگوان نہیں بناسکتاہے کیوں کہ مسلمان صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں ،اسے ہی خدا مانتے ہیں یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے اس لئے مسلمان اپنے عقیدہ سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے ہیں ،ہر کسی کو خدا کا درجہ نہیں دے سکتے ہیں ۔
ہندوستان میں اس وقت حب الوطنی کایہ مسئلہ زیر بحث ہے ،بی جے پی سرکار سب سے زیادہ اسی پر توجہ مبذول کررہی ہے ،راشٹر واد کا پاٹھ ہر کسی کو وہ پڑھاناچاہتی ہے ،حب الوطنی کا معیار کیا ہوگا ،کن چیزوں کے کہنے کے بعد کو محب وطن کی سرٹیفیکٹ دی جائے گی بی جے پی ان دنوں اسی کام میں مصروف ہے اور اپنی مرضی کے مطابق وہ حب الوطنی کا سرٹیفیٹ تقسیم کررہی ہے ۔
در اصل گذشتہ دنوں جے این یو کے معاملہ پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بیان دیا تھاکہ اب کچھ لوگوں کو بھارت ماتا کی جے بولناسکھانا ہوگا ،موہن بھاگوت کے کہنے کا مطلب شایدیہ تھاکہ یہ نعرہ جملہ حب الوطنی کا معیار بنے گا ،جس طرح مسلمان کہلانے اور اسلام میں داخل ہونے کیلئے کلمہ پڑھنا شرط ہے اسی انداز کو اختیار کرتے ہوئے انہوں نے یہ شوشہ چھوڑدیا کہ اب محب وطن اسی کو کہاجائے گا جو یہ نعرہ لگائے گا جو یہ نعرہ نہیں لگائے اس کی حب الوطنی مشکوک سمجھی جائے گی ،موہن بھاگوت کے اس جملہ نے ایک مسلم سیاست داں کو سرخیوں میں آنے کا پھر موقع فراہم کردیا ویسے تو وہ صاحب اپنے بیانات کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں اور میڈیا کی زینت بنتے ہیں ،چناں اس مرتبہ بھی ایک اجلاس عام ایم آئی ایم کے صدر جناب اسددالدین اویسی نے یہ کہ دیاکہ ہم بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے ،اویسی کی زبان سے یہ جملہ نکلنے کے بعد پورے ملک میں ہلچل سی مچ گئی ہے،ہر طرف یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیابھارت ماتا کی جے بولنا صحیح ہے یا غلط شریعت اس کی جازت دیتی ہے یانہیں کچھ علماء اس کے جواز کا فتوی لگارہے ہیں تو کچھ ایسی بھر تحریریں میری نگاہوں سے گزری ہیں جس میں علماء بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے والوں پر کفر کا فتوی لگاتے ہوئے دکھ رہے ہیں ،میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہ سکتی کیوں کہ اس حوالے سے مجھے زیادہ معلومات نہیں ہے علماء دین کا جو فیصلہ ہوگا وہ سر آنکھوں پر ہوگا اور میں امید کرتی ہوں کہ ہمارے علماء حضرات جلد اس مسئلہ پر کوئی لائحہ عمل طے کریں گے ۔
بھارت ماتا کی جے ایک نعرہ ہے ،اس نعر کے آس پاس ان دنوں پوری ہندوستانی سیاست سمٹ کر آچکی ہے ،اوراس نعرہ کو جب الوطنی کا معیار بنادیا گیا ہے ،بی جے پی اور حکومت کی باتوں سے ایسا لگ رہاہے کہ عام انتخابات کے موقع پر اس پارٹی کا انتخابی منشور دو حصے میں تھا ایک حصہ وہ تھا جو منظر عام پر تھا جس میں سے ہر جگہ وزیر اعظم صاحب یہ کہ رہے تھے کہ کانگریس کوساٹھ سال دیا گیا ہے مجھے صرف ساتھ مہینہ دیں ہم ملک کی تقدیر بدل دیں گے ،ہر ایک ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے آجائیں گے ،ہندوستان ترقی کے ساتویں آسمان پر ہو،گا ،ہر کسی کے اچھے دن ہوگے ،ملک میں ہر طرح کی سہولت ہوگی ،کسانوں کو تمام سہولیات مہیا کرائی جائے گی ،لیکن حکومت بننے کے بعد یہ پارٹی حب الوطنی کے ایجنڈے پر عمل کرنے لگی ہے ،ہرکسی کو راشٹر واد کا سبق سکھانے لگی ہے آج بھی کوئی جلسہ ہوتاہے ،پارٹی کا کوئی اجلاس ہوتاہے تو وزیر اعظم صاحب وہاں وکاس او رترقی کا نعرہ لگاتے ہیں ،یہ باورکراتے ہیں کہ ملک میں ترقی ہوگی ہر ایک طبقہ کی ترقی ہوگی وہاں سے تجویز بھی یہی پاس ہوتی ہے کہ ملک ترقی کرے گا لیکن وہاں تمام بی جے پی کارکنان حب الوطنی پر بات کرتے ہیں ،ہر ایک ہندوستانی کو یہ کہتے ہیں کہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگاناہے ،جو ایسا نہیں کہتے ہیں وہ غلط ہیں ،ملک مخالف ہیں ،ہندوستان کے غدار ہیں ۔میر اسوال ان لوگوں سے یہ ہے کہ کیا حب الوطنی اب صرف الفاظ تک سمٹ کر آگئی ہے ،محب وطن ہونے کا معیار صرف یہ رہ گیا ہے کہ زبان سے بھارت ماتا کی جے کہ دیا جائے اور اس کے بعد ملک مخالف سرگرمیا ں انجام دی جائے ،ملک کے خلاف جاسوسی کی جائے لیکن اس پر کوئی شک نہیں ہوگا کیوں کہ اس نے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگایا ہے ۔جیساکہ آر ایس ایس والے یہی کررہے ہیں ایک طرف وہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگاتے ہیں دوسری طرف ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں ،ملک کے قانون سے کھلواڑ کرتے ہیں ،اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچتے ہیں ،ملک کے سیکولر آئین کو ختم کرکے ہندوراشٹربنانے کے فراق میں ہیں ،کہیں دہشت گردانہ حملہ کرواتے ہیں ،کہیں فرقہ وارانہ فسادکراتے ہیں ،کہیں بیف کے نام پر مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں کہیں مویشی تاجروں کو تختہ دار پر لٹکا کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔
حب الوطنی مسلمانوں کے ایمان کا جز ہے ایک مشہور حدیث ہے جس میں یہ کہاگیا ہے کہ وطن کی محبت ایمان کا جز ہے اسلئے ملک سے محبت کا سبق خود ہمارا اسلام سکھاتاہے ،اگر کوئی ہندوستان سے محب نہیں کرتاہے تو اسلامی تعلیمات کا مخالف ہے لیکن محب کے نام پر ہم مسلمان اس ملک کی پوجا نہیں کرسکتے ہیں ،خدا کا مقام نہیں دے سکتے ہیں ،ملک سے محبت بحیثیت ملک کرتے ہیں ۔

nuzhatjahanm@gmail.com

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔