برسلزحملہ اور ہندوستانی میڈیا کا رویہ

شمس تبریز قاسمی

یورپین ملک بیلیجیم میں آج جب صبح کا سورج طلوع ہورہاتھا اس وقت وہاں کی راجدھانی برسلز دھماکوں سے دہل رہی تھی ، دنیا ئے انسانیت کے کانوں میں خوفناک آوازیں گونج رہی تھیں ،کیوزیم انٹرنیشل ایئر پورٹ پر سلسلہ وارد وبم دھماکے ہوئے ،امریکی ایئر بیس کے قریب بھی حملہ ہوا ، ہر طرف افراتفری مچ گئی ،ایئر پورٹ کی خوبصورت عمارتیں آگ کے شعلوں سے دہکنے لگیں ،پورے ملک میں خوف وہراس کا ماحول قائم ہوگیا ،اب تک کی اطلاع کے مطابق اس حملے میں 32 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور پچاس سے زائدزخمی ہیں ،اس حملے کے بعد پڑوسی ملک فرانس ہائی الرٹ ہوگیا ہے ،ہندوستان بھی چوکنا ہوگیا ہے ،کئی پروزایں معطل کردی گئیں ہیں اور مزید حملوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے ۔
یہ حملہ کس نے کیا؟ ،کس پس منظر میں ہوا؟ اور کون ذمہ دار ہے؟ اب تک اس سلسلے میں کوئی تحقیقی رپوٹ منظر عام پر نہیں آسکی ہے ،بیلیجیم میڈیانے بھی اب تک کسی خاص تنظیم کے تعلق سے قیاس آرائی نہیں کی ہے ،روسی میڈیا کے حوالے سے یہ خبر آرہی ہے کہ یہ حملہ داعش نے کرایا ہے ،تاہم داعش نے براہ راست اب تک اس حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے ،ہندوستانی میڈیا میں یہ حملہ موضوع بحث ہے ،تمام چینلوں میں اس پر بحث ہورہی ہے اور داعش کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے ،داعش کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی وجہ چار روز قبل صالح عبد السلام کی گرفتاری ہے ،نومبر 2015 میں پیرس میں ہوئے حملہ کا مجرم صالح عبد السلام ہے جس کے بارے میںیہ کہاگیا کہ حملہ آور وں میں تنہا یہ شخص گرفتار ہواتھا،آج ہوئے اس حملہ کواس سے جوڑتے ہوئے ہندوستانی میڈیا نے صالح کی گرفتاری کا ردعمل قرارد دیا ہے ،اس پس منظر میں بالواسطہ اسلام پر نشانہ سادھا جارہاہے اور مسلمانوں کو آتنگ واد کہاجارہاہے ۔
برسلز میں ہونے والا حملہ قابل مذمت افسوسناک اور شرمناک ہے ،اس حملہ کے پس پردہ داعش کا ہاتھ بتایا جارہاہے جس نے پوری دنیا میں قہر برپا کررکھاہے اور اس کی دہشت گردی کا سلسلہ دن بہ دن پوری دنیا میں بڑھتا جارہاہے ،داعش کے نام سے پوری دنیا میں خوف وتشدد کا ماحول قائم ہے ،برسلز حملہ کے بعد پھر اس پر بحث ہورہی ہے ،یہ سوال کیا جارہاہے کہ داعش کا علاج کیا ہے؟ ،کیوں داعش کا سلسلہ بڑھتاجارہاہے ؟لیکن یہ سوال کسی کے ذہن ودماغ میں نہیں آرہاہے ؟کوئی داعش کے پس منظر پر سوال نہیں کررہاہے؟ کہ داعش کو وجود کس نے دیا ؟ داعش کے پس پردہ کون سی طاقتیں کافرماہیں ؟ دنیا بھر میں داعش کی رسائی کیسی ہوگئی ؟ جدید ترین ہتھیار اس کے پاس کہاں سے آرہے ہیں؟چالیس ممالک کی فوجیں داعش کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اس کے باوجود داعش کو ناکامی ملنے کے بجائے کیوں کامیابی مل رہی ہے ؟، عراق کی سرحد سے نکل کر اس کا دائرہ کار شام ،اردن،لیبیا ،سعودی عرب ،امریکہ ،فرانس ،بلیجیم ،ہندوستان اور تک کیسے پہونچ گیا ؟۔
داعش اصل بہانہ ہے،وہ ایک چہرہ ہے پس پردہ کچھ اور طاقتیں ہیں جو دنیا میں دہشت گردی پھیلارہی ہیں بے گناہوں کا قتل عام کررہی ہے ،دنیا بھر میں مسلمانوں کا خون بہارہی ہے لیکن اس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے ،ہندوستانی میڈیا ان سوالوں کے بجائے بے فائدہ اور لغو امور پرڈبیٹ کررہاہے ،داعش نے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہونچایاہے ،داعش کے وجود میں آنے کے بعد مشرق وسطی آتش کدہ میں تبدیل ہوچکاہے ، پورا خطہ بدامنی اور انتشار کا شکاہے ،ہندوستان کے مسلمان اس کے نام پر جیل کی سلاخوں میں بند ہورہے ہیں اور نہ کچھ کرنے کے باجود بھی دہشت گردکے خطاب سے نوازے جارہے ہیں ۔
دہشت گردی کی مذمت کے نام پر تصویر کا یہ دوسرا رخ بھی ذرا ملاحظہ کرلیجئے کہ برسلز میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی آج چوطرفہ مذمت کی جارہی ہے ،امریکہ اور فرانس نے خصوصی طور پر اپنی میٹنگ طلب کی ہے ،عالمی رہنماؤں کی جانب سے پرزور مذمت کا سلسلہ جاری ہے ،ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی مذمتی تجویز بھیجی ہے ہندوستانی میڈیا میں یہ حملہ سب سے زیا دہ موضوع بحث ہے لیکن اس سے زیادہ خوفناک حملہ گذشتہ 14مارچ کوترکی کی انقرہ میں ہواتھا ، گذشتہ چھ ماہ کے دوران وہاں چار بڑے دہشت گردانہ حملے ہوچکے ہیں جس میں سینکڑوں جانیں تباہ ہوچکی ہیں ،ان گنت افراد زخمی ہیں ،ترک صدرطیب اردگان نے گذشتہ کل ایک خطاب کے دوران واضح طور پر کہاتھاکہ ترکی ان دنوں تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی کا سامناکررہاہے ،داعش اور کردباغیوں کو اب کسی بھی صورت میں بخشانہیں جائے گا۔لیکن اس دہشت گردانہ واقعہ کی خبر ہندوستانی ٹی وی چیلنوں پر کچھ اس طرح چلائی گئی جیسے لگ رہاتھا کہ کچھ ہواہی نہیں ہے ،بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس کی گونج سنائی نہیں دی ،ملک کے سیاسی اور سماجی رہنماسمیت عالمی لیڈران کی جانب سے بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا،ترکی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی مکمل تفصیل اور دہشت گردی کے حوالے سے عالمی برادری کا جو دوہرا معیار ہے اس کا مکمل تجزیہ میں اپنے گذشتہ ایک کالم میں لکھ چکاہوں ۔
ٹی وی چیلنوں اور مین اسٹریم میڈیا کا رویہ مکمل طور پر جانبدارانہ اور مسلم مخالف ہوچکاہے ،برسلز حملہ کی آڑ میں ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنایاجارہاہے ،اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ،انتہاء پسند اور آتنگ واد کا مذہب کہاجارہاہے یورپ کے اکثر ملکوں میں پیر س حملہ کے بعد تارکین وطن کے داخلہ پر پابندی عائد ہوگئی تھی ،برسلز حملہ کے بعد جن ملکوں نے اپنی سرحدیں کھول رکھی تھیں اب وہ بھی بند ہوجائیں گی ۔

[email protected]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔