ہندستانی اقلیت کا قاید کون؟ نوجوان کس کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں!

صفدرامام قادری

        انتخابات کے موسم میں ہرموضوع پرکچھ اضافی جذباتیت کے ساتھ غور و فکر کرنے کا اپنے ملک میں خاص رواج رہا ہے۔ پانچ سال نہ لیڈر کو کچھ باتیں یاد رہتی ہیں اور نہ انھیں ووٹ دینے والے عوام کو ہی کچھ کام یاد آتے ہیں۔ جیسے ہی انتخابات قریب آتے ہیں، حکمراں جماعت کی ناکامیوں پر شدّت کے ساتھ گفتگو شروع ہو جا تی ہے۔ گلی محلوں سے لے کر دلّی تک خوابِ غفلت سے سب بے دار ہو جاتے ہیں۔ سب کو  اپنے حقوق یاد آنے لگتے ہیں اوران کی پہچان ہونے لگتی ہے کہ کون کون ہمارے حقوق پر شب خون مارتا رہا ہے۔ اس میں کسی صوبے یا کسی سیاسی جماعت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ کشمیر سے کنیا کماری تک یکساں صورتِ حال ہے۔ ملّی تنظیموں، غیر سیاسی اداروں میں بھی کم و بیش نئے سرے سے بیدار ہونے کا یہی وقت رہتا ہے۔ مینڈکوں کی ایک قسم برسات میں پیدا ہوتی ہے جس کی آواز سنّاٹے کو چیرتی ہوئی ہمارے ہوش ٹھکانے کر دیتی ہے مگربرسات گئی اور پھرایسی آوازکبھی سنائی نہیں دیتی۔

        مسلمان یا اقلیت آبادی کے مسائل کیا ہیں اور ان کے حقوق یا ذمہ د اریوں کی پہچان کس طرح سے ہو، اس پرساڑھے چار برس تک ہماری سنجیدہ گفتگو کم سے کم ہوتی ہیں۔ کس سیاسی جماعت میں اقلیت آبادی کا مستقبل تابناک ہے، کسے ووٹ دینا چاہیے اور کسے ہرانا چاہیے ؛یہ سارے سوال الیکشن کی تاریخوں کے ا علان ہوتے ہی پیدا ہوتے ہیں اورنئی سرکار کی تشکیل ہو تے ہوتے پھر سے پردۂ خفا میں چلے جاتے ہیں۔ کیا یہ مسائل سارے دورانیے میں واقعتا ہو تے ہی نہیں یا انھیں بھلا دینے کی ہمیں عادت ہو چلی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پورے ساڑھے چار بر س کی غفلت کے بعد ہم ایک مشتعل ماحول بنا کرسوداگری یا کاسہ گری کے عادی ہو چکے ہیں۔ معمول کے مطابق کا م کرنے یا ہماری اپنی ترقی اور حقوق کے لیے سرگرم رہنے کی ہماری عادتیں براے نام ہیں اور غیر معمولی یا ہنگامی صورتِ حال میں کسی کام کوغیر معتدل انداز میں انجام تک پہنچا دینے کی عادتیں ہمیں زیادہ عزیز ہیں جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

        کشمیرکو چھوڑ دیجیے تو مہاراشٹرمیں عبدالرحمان انتولے اور بہار میں عبدالغفورآخری مسلمان وزراے اعلا ہیں۔ عبدالغفور ایمرجینسی لگنے سے ٹھیک پہلے تک بہار کے وزیرِ اعلا رہے۔ اس واقعے کے چوالیس برس بیت گئے۔ انتولے ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۲ء کے دوران مہاراشٹر کے وزیرِ اعلا تھے۔ اس واقعے کے بھی اب چالیس برس ہونے کو آئے۔ سیکورلزم کی قسمیں کھایئے اور ملک میں موجود اقلیت آبادی کے جیالے رہنماؤ ں کی صورتوں پر ایک نگاہ ڈالیے۔ پہلا سوال یہ کہ ان میں سے کون ایساہو سکتا ہے جو کسی ریاست میں وزیرِ اعلا کاا میدوار ہو سکتا تھا؟ ہر سیا سی پارٹی کے دروازے پر دستک دیجیے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں مختار عباس نقوی اور سیّد شاہ نواز حسین مشکل سے ایک دو بار پارلیامنٹ کا انتخاب شاہ نواز نے جیت لیا اور وزارت بھی مل گئی۔ مختار عباس نقوی کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ عمومی انتخاب کون سی چیز ہوتی ہے؟دونوں کی سیاسی اوقات یہی ہے کہ کبھی ٹکٹ مل گیا اورکبھی ٹکٹ کٹ گیا۔ کبھی وزارت حاصل ہو گئی یا کبھی اسی انتظار میں مدّت تما م ہوئی۔ نہ اپنی آواز او رنہ اپنی کارکردگی۔ ایسے لیڈرکو صوبائی سطح پر بھی کوئی قیادت دے تو کیسے دے اور اسے ملے بھی تو کیوں کر ملے؟

        سماج وادی پارٹی میں ایک طویل مدت سے بادشاہی اہتمام کے ساتھ اعظم خاں تنہا اقلیت قیادت کے مالک و مختار ہیں۔ وہ اپنا الیکشن جیت جاتے ہیں مگر کبھی اتنی طاقت معلوم نہ ہوئی کہ وہ اتر پردیش میں پچاس اسمبلی ممبرس کو جتا سکتے ہیں یا ان کی ایسی حیثیت ہو کہ انھیں کبھی صوبے کی قیادت     حا صل ہو سکتی ہے۔ ان کی تقریر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے زمانے سے لے کر آج تک لن ترانی زیادہ کہی جائے گی، سوجھ بوجھ یا سیاسی غور و فکر کے تحت بات چیت کا مزاج ان کاکم کم ہی رہا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ  ان کی تقریر میں پھسلن بہت ہے۔ برسات میں کچّی سڑک پر احتیاط سے نہ بڑھیے تو آگے چلنے کے بجاے پھسل کر یا لڑھک کر پیچھے ہی چلے آنے کے امکانات ہیں۔ اعظم خاں قیادت کے اسی پھسلن میں اب وہاں تک پہنچ گئے ہیں جہاں سے پھر سے قیادت کی بڑی ذمہ داری شاید ہی مل سکے۔ اتر پردیش میں اعظم خاں کے علاوہ کانگریس کی طرف سے ایک مستقل چہرا سلمان خورشید کانظر آتا رہتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ انھی کی قیادت میں اتر پردیش سے کانگریس کا بوریا بستر سمیٹا گیا۔ پتا نہیں کانگریس کو یہ بات کبھی کیوں سمجھ میں نہیں آئی کہ سلمان خورشید کسی پارٹی کو اپنی صلاحیتوں سے آگے لے کر چلنے والے لیڈر ہر گز نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ وہ بُرے وقت کے قائد نہیں ہیں۔ یہ سب اچھے دنوں کے پھل پانے والے مہمان ہیں۔

        بہار میں موجودہ دور میں مسلمان سیاسی رہنماجو اس پارلیامنٹ الیکشن میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں، ان میں عبدالباری صدیقی، طارق انور، علی اشرف فاطمی، ڈاکٹر شکیل احمد اور تنویر حسن کی واضح پہچان ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمد کانگریس سے اور سید علی اشرف فاطمی راشٹریہ جنتا دل سے بغاوت کر کے ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آچکے ہیں۔ یہ دونوں مل کر یو۔ پی۔ اے۔ کے امید وار کو ہرائیں گے اور بالآخر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امید وار کوفتح سے ہم کنار کرائیں گے۔ دونوں مرکزمیں کئی بار وزیر ہوئے اور اپنے مقام و مرتبے سے زیادہ پانے میں ہمیشہ کامیاب رہے مگر انھیں اپنی پارٹیوں سے شکایت رہی کہ انھیں پھر کیوں نہیں موقع دیا گیا اور ایک الیکشن میں بھی پارلیمانی سیاست کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے  صبر کرنے کا یارا نہیں رہا۔ ایسے فہم وفراست کے لیڈر کیا ہماری جماعت کے قائد ہو سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں۔ عبدالباری صدیقی ۱۹۷۷ء میں ہی کرپوری ٹھاکر کے پارلیمانی سیکریٹری بنے تھے۔ لالو اور رابڑی دیو ی کی وزارت کے دوران تقریباً پوری مدت وہ کابینہ وزیر رہے۔ اسمبلی الیکشن ہارے تو کانسل چلے گئے۔ تھوڑے دنوں کے لیے نیتیش کمار کے ساتھ حکومت بنی تو پھر وزیر ہو گئے مگر کوئی یہ بتائے کہ چار دہائیوں کی سیاست میں انھوں نے اپنی آزادانہ قیادت کا کون سا ثبوت پیش کیا ؟وہ اقلیتی فلاح کے بھی وزیر ہوئے مگر یہ شعبہ ان کی کارکردگی سے اچھوتا ہی رہ گیا۔ وہ نام سے اقلیت آبادی کے بھلے ترجمان ہو ں مگر کام سے ایسا کبھی نہیں محسوس ہوا۔ اسی لیے ان کی بزرگی کے باوجود کبھی نائب وزیرِ اعلا تک کے لیے بجا طور پر انھیں منتخب نہیں کیا گیا۔

        طارق انور ابتدا سے قومی سیاست کے انتظام کا ر رہے۔ یوتھ کانگریس کے قومی صدر ہوئے۔ بہارکانگریس کمیٹی کے جب صدر بنائے گئے تو لوگوں کو محسوس ہو ا کہ اب انھیں اپنے صوبے کے لیے کام کرنے کی توفیق حاصل ہوگی مگر اپنی مدّتِ کا ر میں تو وہ ضلعی کمیٹیاں تک نہیں بنا سکے۔ این سی پی میں گئے اور قومی جنرل سکریٹری بن گئے۔ مرکزی وزیر ہوئے اور پھرراج سبھا کے بعد لوک سبھا کے ممبر بنے مگر انفرادی قیادت ایسی نہ ابھر کر آئی کہ کسی نازک مرحلے میں انھیں بہار کی قیادت حاصل ہو سکے۔ بہار کا یہ بڑا مسئلہ ہے کہ اقلیت آبادی سے ایسی انفرادی قیادتیں پھل پھول رہی ہیں جن کے پیچھے ٹھونٹھ اگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بل بوتے پر نہ دس بیس ٹکٹ لے دے سکتے ہیں اور نہ ہی دس بیس ایم ایل اے یا دو چار پارلیمنٹ کے ممبر بنا بگاڑ سکتے ہیں۔ ایسی سبزی خور، ویجی ٹیرین سیاسی قیادت کا بازار بھاو کیا ہو سکتا ہے؟سب اپنی پارٹیوں کے قائدین کے ہاتھوں پستے ہیں اور پیچھے پیچھے چلنے کے لیے مجبور ہیں۔

        ملک کے سیاسی نقشے میں اقلیت آبادی کے حوالے سے دو قیادتیں ہیں :آسام میں بدرالدین اجمل اور تلنگانہ میں اسدالدین اویسی۔ صوبائی اور کبھی کبھی قومی سطح پر ان کی قیادتیں پھل پھول رہی ہیں مگر ابھی یہ بات ناممکنات میں لگتی ہے کہ یہ سیا ست کبھی قومی سطح پربار آور ہوگی۔ یوں بھی جمہوری تقاضوں کے تحت مخصوص مذہبی اکائیوں کے راستے روشن نہ ہوں تو یہ کچھ بر ا نہیں۔ یہ بات بھی نظر نہیں آتی کہ یہ ودنوں لیڈران کم از اسملی میں اتنے مضبوط ہو جائیں گے کہ ریاستی حکومتیں قائم کر سکتے ہوں۔ ان کی تشکیل میں ایسے فطری تضادات موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی محدود پیمانے پر ہی ترقی ممکن ہے۔

        مسلمانوں کے بیچ سے علاقائی سطح پر چھوٹی چھوٹی قیادتیں پیدا ہورہی ہیں۔ پنچایتوں کی سطح پرمکھیا اور سرپنچ بننے والوں میں مسلمان بہت ہیں۔ جہاں جہاں ریزرویشن بڑھا ہے، وہاں یہ چھوٹی قیادتیں بھی بڑھی ہیں اور مسلمان بالخصوص پچھڑے طبقے کے مسلمان بڑی تعداد میں نکل کرآ رہے   ہیں۔ بہار اور اتر پردیش میں صوبائی سطح پر مسلمانوں کا جو طبقہ مختلف پارٹیوں میں سرگرم ہے، اس کے دل میں یہ چور بیٹھا ہوا ہے کہ نئی قیادتوں کا داخلہ ہو تے ہی تیس چالیس برس سے ہمارے پھل کاٹنے کے زمانے لد جائیں گے۔ وہ خود کو بے روزگار کیو ں بنائیں ؟پھر یہ بھی ایک باریک مسئلہ ہے کہ ہر ریاست میں مسلمانوں کے اشراف طبقے کی ہر پارٹی میں قیادت حاوی ہے۔ انھیں کسی پچھڑے کی نمائندگی کا خیال بھی نہیں۔ بہار میں یو پی اے نے سات اور این ڈی اے نے دو مسلم لوگوں کو امیدوار بنایا۔ ان نو میں سے صر ف ایک سرفراز عالم ارریہ سے ایسے امیدوار ہیں جن کا تعلق پسماندہ آبادی سے ہے۔ اتر پردیش میں کانگریس نے نو، بہوجن سماج پارٹی نے چھ اور سماج وادی پارٹی نے چار لوگو ں کو امیدوار بنایا ہے۔ انیس میں صرف چار لوگ پچھڑے طبقے سے آتے ہیں۔ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے یہ کھلی بے انصافی اور ننگا ناچ ہے۔ اس سے نئی قیادت کے امکانات مزید مسدود ہو رہے ہیں۔ شیوہر (بہار)سے صحافی کے بہ طور سیّد فیصل علی کو راشٹریہ جنتا دل کا امید وار بنایا گیا اور کانگریس نے مراد آباد سے عمران پرتاپ گڑھی کو بہ طورِ شاعر قسمت آزمائی کا موقع دیاہے۔ یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ انھیں کن بنیادوں پر اتنی بڑی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ دونوں کی تصنیفی اور پروفیشنل استعداد پر لوگ سوال کرتے ہیں۔ ایک خود سے شعر نہیں کہتا اور ایک خبر نہیں لکھ سکتا مگر اردو کے عظیم شاعراور صحافی ہیں۔ ہمیں انھیں قائد کے طور پر پہچاننے والوں سے خاص شکایت ہے کہ وہ شاید ارادہ کر کے ہماری حقیقی قیادت کو مسمار کرنا چاہتا ہیں۔ آج اقلیت قیادت کی مفلوک الحالی یہ ہے کہ پورے شمالی ہندستان سے ایک ایسا ممبرِ پارلیمنٹ نظر نہیں آتا جس نے ہندستانی مسلمانوں کے مسائل کو توجہ کے ساتھ پارلیمنٹ میں اٹھائے ہوں۔ طارق انور سے لے کرعلی اشرف فاطمی تک اور شکیل احمد سے لے کر مناظر حسن اور دوسروں کے نامۂ اعمال سادہ ہی ہیں۔ ایسے میں بیگو سرائے میں لوگ تنویر حسن جو چوبیس برس تک کانسل کے رکن رہ چکے ہیں، ان کے مقابلے نوجوان کنہیا کمار کو صرف اس بات کے لیے ووٹ دینے  کے درپے ہیں کیوں کہ گونگی قیادتوں کے مقابلے غیر کی طرف سے ہی اگر پارلیمنٹ میں ہماری آواز سنائی دے تو اس میں کیا برائی ہے۔ یہ سوال ہمیں دور تک لے جا تا ہے اور اپنی نئی اور موثر قیادت پیدا کرنے کے لیے پھر سے تیار ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔