استخارہ : فضیلت، مسائل اور احکام

مولانا آصف اقبال

 ہر سلیم الطبع انسان یہ آرزو رکھتا ہے کہ جو بھی کام کرے،یا ارادہ کرے اس میں وہ بامراد ہو اور انجام کار بہتر سے بہتر ہو۔ چنانچہ اس کے حصول کے لیے، مختلف ادوار میں، مختلف لوگ، مختلف قسم کے طریقے ایجاد کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی زمانے میں اچھائی اور برائی کا فیصلہ پرندوں سے لیا گیا، کہ اگر پرندہ دائیں جانب اڑ جائے، تو یہ اچھائی کی علامت ہے،اور اگر بائیں جانب کو ترجیح دے، تو یہ خطرہ کی نشانی ہے۔ بعضوں نے ستاروں کا سہارا لیا۔ بعضوں نے خیر و شر کی بنیاد ماہ و سال پر رکھی،بعضوں نے کالی بلی کے گزرنے کو شر کی علامت سمجھا کہ”جس راستے سے کالی بلی گزر جائے اس راستے میں خیر نہیں” خود اہل عرب جوئے کے تیروں کے ذریعے خیر و شر کی پہچان کیا کرتے تھے۔

    الغرض لوگوں کے سامنے ایک ضرورت تھی،جس تک رسائی کے لیے خود ساختہ طریقے سامنے آئے،مگر جب اللہ کریم نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور ہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایا،تو آپ نے خیر و شر معلوم کرنے کے لیے، ایک بابرکت طریقہ سکھلادیا جس کو "استخارہ”کہتے ہیں۔

    استخارہ کا لغوی معنی "خیر و بھلائی طلب کرنا” اور اصطلاح میں "جب کسی کو کوئی کام درپیش  ہو،اور وہ کام جائز ہو اور اس کے کرنے نہ کرنے میں تردد ہو یا اس میں تردد ہو کہ وہ کام کس وقت کیا جائے،مثلا کسی کو مکان یا دکان لینی ہو یا شادی کا مسئلہ ہے،تو ایسی حالت میں مستحب ہے کہ دو رکعت نماز پڑھے،اور دعا مانگے”۔

استخارہ کی اہمیت وفضیلت:

"مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ وَلاَ عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ” (روہ الطبرانی،مجمع الزوائد )

ترجمہ؛حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جو استخارہ کرتا ہے،وہ نامراد نہیں ہوتا،جو مشورہ کرتا ہے،اسے شرمندگی نہیں ہوتی،اور جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا”.

استخارہ کا مسنون طریقہ؛

صحیح بخاری، ابوداؤد، ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ

سے روایت ہے!”جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے تمام کاموں کے لیے دعا استخارہ اس طرح سکھاتے جیسے قرآن مجید کی سورتیں سکھاتے۔چنانچہ آپ فرماتے کہ جب تم سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ دو رکعت نفل نماز ( استخارہ کی نیت سے) پڑھے،اور یوں دعا مانگے۔

 اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ،فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلامُ الْغُیُوْبِ،ِ اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الَامْرَ(اس جگہ اپنے مطلب کا تصور کرے)

خَیْرُ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فاَقْدِرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الَامْرَ(اس جگہ اپنے مطلب کا تصور کرے) شَرُّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِی فَاصْرِفْہُ عَنِّی وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ۔

    استخارہ سے متعلق اہم مسائل

1۔اگر کسی وجہ سے استخارہ کی نماز پڑھنا مشکل ہو مثلا عجلت کی وجہ سے یا عورت حیض ونفاس کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ سکتی، تو صرف دعا پڑھ کر استخارہ کر لے۔ (نماز ے کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا)

2۔ استخارہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ تردد دور ہو جائے،اور ایک جانب کو ترجیح ہوجائے،خواب وغیرہ دیکھنا کوئی ضروری نہیں۔ ( ایضاً )

3۔اگر استخارہ کی طویل دعا یاد نہ ہوسکے،یا نہ پڑھ سکے تو مختصر سی دعا گیارہ مرتبہ پڑھ لے۔

اَللّٰہُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ (کتاب الاذکار للنووی)

4۔ جو کام شرعاً و اخلاقا واجب ہے،یا ناجائز اور حرام ہے،ان کاموں کے لیے استخارہ نہیں ہوتا۔مثلا حج کے لیے جانا ہو تو یہ استخارہ نہ کرے کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ ( بہشتی زیور )

5۔ اگر ایک دن میں کچھ معلوم نہ ہو اور خلجان دور نہ ہو تو دوسرے دن پھر ایساہی کرے اسی طرح سات دن تک کرے۔ ( بہشتی زیور )

6۔ استخارہ کے بعد اگر مرضی کے مطابق کام نہ ہو تو ( استخارہ کی برکت ضرور ہوتی ہے )اسی کو خیر سمجھے۔(امداد الفتاویٰ )

7۔ کوشش کرے کے استخارہ خود کرے،دوسروں سے کروانا خلاف سنت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔