پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی رحمة الله عليه

شاہ اجمل فاروق ندوی

بیس سال پرانی بات ہے۔ 21 جنوری 2003 کو علمی دنیا پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی کی مقتدر اور دل آویز شخصیت سے محروم ہوگئی تھی۔ اس وقت ہم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں عالیہ ثالثہ کے طالب علم تھے۔ علم الفرائض کی کتاب السراجي في الميراث کا گھنٹا چل رہا تھا۔ ایک ملازم نے آکر ہمارے استاد مفتی محمد ظفر عالم ندوی کے کان میں کچھ کہا۔ ملازم کے جانے کے بعد استادِ محترم نے اعلان کیا کہ دہلی میں پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس گھنٹے کے بعد سب لوگ مسجد میں جمع ہوجائیں۔ ہم لوگ مسجد پہنچے تو پوری مسجد بھری ہوئی تھی۔ استادِ گرامی قدر مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہری (1939-2021) نظامت فرما رہے تھے۔ ہاتھ میں مائک لیے زار و قطار رو رہے تھے۔ اسی عالم میں انھوں نے کسی طرح مرشد الامت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی (ولادت: 1929) کو دعوت دی۔ مولانا تشریف لائے اور نہایت کرب کے ساتھ کچھ دیر گفتگو فرمائی۔ جون ایلیا (1931-2002) کا یہ مشہور شعر اس دن پہلی مرتبہ انھی کی زبانِ مبارک سے سنا تھا:

اُس گلی نے یہ کہہ کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

مرشد الامت کے خطاب اور دعا کے بعد جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دن کسی استاد نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کے کسی رکن کی وفات پر تعزیتی جلسہ منعقد ہوتا ہے۔ سید ضیاء الحسن ندوی کچھ عرصے پہلے ہی مجلس انتظامی کے رکن بنائے گئے تھے۔ انھوں نے اپنی مادر علمی کو چلانے والے ادارے کی رکنیت پر بہت مسرت کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن وہ مجلس کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کرسکے۔ اگلے دن ناظمِ ندوۃ العلماء نے تعزیت کے لیے دہلی کا سفر بھی فرمایا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے بہت بڑے تعزیتی جلسے میں بھی شرکت فرمائی۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ کافی دن تک مرشد الامت کی عشائی مجلس میں پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی کا ذکرِ خیر ہوتا رہا۔

پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی سلون، رائے بریلی کے رہنے والے تھے۔ 1958 میں دار العلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت اور وہیں سے 1960 میں فضیلت کی۔ اس کے بعد لکھنؤ یونی ورسٹی سے فاضل ادب اور بی اے کی تعلیم مکمل کی۔ پھر وہیں سے ایم اے کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تعلیمی مراحل مکمل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم رکھا۔ چند برسوں کو چھوڑ کر پوری زندگی تدریس سے وابستہ رہے۔ 1968 سے 1971 تک لکھنؤ یونی ورسٹی میں عارضی طور پر تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1972 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہء عربی سے بہ حیثیت استاد وابستہ ہوئے۔ لیکن یہ وابستگی 1980 میں اس وقت موقوف ہوگئی، جب وہ حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ وہاں ان کا تقرر سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انگلش اینڈ فارن لنگویجز، حیدرآباد میں بحیثیت ریڈر ہوگیا تھا۔ شاید انھیں دکن کی سرزمین راس نہ آئی۔ دو سال بعد 1982 میں وہ پھر دہلی پہنچ گئے اور شعبہء عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بحیثیت ریڈر تدریس انجام دینے لگے۔ 1988 میں معمول کے مطابق ترقی کرکے پروفیسر ہوگئے۔ 1990 اور 1996 میں تین سالہ میقات کے لیے شعبے کے صدر مقرر ہوئے۔ 1998 میں عربی زبان و ادب کی خدمت پر صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے۔ 2000 میں فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگویجز کے ڈین بنائے گئے اور تاحیات اس منصب پر فائز رہے۔ تصنیف و تالیف کی طرف توجہ نہیں کی۔ کئی برس ثقافة الهند کے مدیر رہے۔ اس دوران اپنے استاد و مربی مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن ندوی (1913-1999) کی رحلت پر رسالے کا قیمتی نمبر شایع کیا۔ مختلف رسائل اور سمیناروں کے لیے مقالات لکھے۔ مہجری ادب پر ان کی کتاب "عربی ادب دیار غیر میں” بہت مشہور ہوئی۔ اس کے علاوہ اکیڈمی آف فارن لینگویجز کے لیے المقامات الهندية کے مخطوطے کو مرتب کیا۔ یہ تحقیق بھارتیہ ودیا بھون، نئی دہلی سے شایع ہوئی۔ 2008 میں اُن کی اہلیہ محترمہ رضیہ سلطانہ واحدی نے اُن کے کچھ متفرق مضامین کا مجموعہ "اوراقِ پریشاں” شائع کیا تھا۔ اس مجموعے میں شامل دو تین مضامین ایسے ہیں کہ انھیں ایک مستقل کتابچے کے طور پر شائع کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر مثنوی اور صاحبِ مثنوی پر طویل مضمون۔ اس مجموعے کے دیباچے میں انھوں نے بہت مزید عربی و اردو مضامین کے غیرمطبوع ہونے کی اطلاع بھی دی تھی۔ شاید اب تک ان کی اشاعت کا کوئی نظم نہیں ہوسکا۔

پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی بہت دل کش شخصیت کے مالک تھے۔ وہ سچ مچ "حَسَن” کی "ضیا” تھے۔ ان کی شخصیت میں نواسہء رسول حضرت حسن ابن علی (رضی اللہ عنہما) کی نرمی، معاملہ فہمی اور نزاکت کا عکس محسوس ہوتا تھا۔ ایک طرف وہ اعلیٰ علمی شان کے حامل تھے تو دوسری طرف متعدد سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پر بھی فائز بھی۔ عام طور پر لوگ ان انعامات کو کمالات سمجھ لیتے ہیں۔ شکر و سپاس اور انکسار و تواضع کا پُتلا بننے کے بجائے کبر و نخوت کا مجسمہ بن جاتے ہیں۔ بندگانِ خدا کے لیے بافیض بننے کے بجائے بے فیضی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ لیکن سید ضیاء الحسن ندوی ان پستیوں سے بہت حد بلند تھے۔ ہونٹوں پر ہمیشہ ہلکی سی مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ مخاطَب کوئی طالب علم ہو یا ادنیٰ ملازم، لہجہ بہت نرم رہتا۔ ہر ایک کے کام آنا، سب کی مدد کے لیے تیار رہنا، سادگی کے ساتھ زندگی گزارنا اور اپنے کچھ نہ ہونے احساس تازہ رکھنا، ان کا امتیاز تھا۔ ہاں ! سامنے والا رعب گانٹھنے کی کوشش کرتا، تو وہ اسے احساس دلا دیتے تھے کہ سمندر کے سکوت کو اس کی کم زوری نہ سمجھا جائے۔ اُن کے انتہائی محبوب استاد و مربی مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی زبانی اس طرح کے دو واقعات سنے ہیں۔

ایک مرتبہ عالم عرب کے کسی اجلاس میں کسی مصری ادیب نے سید ضیاء الحسن ندوی سے بحث شروع کردی۔ وہ مسکرا مسکرا کر جواب دیتے رہے۔ مصر کی مٹی خاصی جلال آمیز واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا کچھ دیر بعد وہ مصری فاضل گرم ہوگئے۔ بہت بلند آواز میں گفتگو شروع کردی۔ پھر کیا تھا؟ ضیاء الحسن ندوی نے اپنی علمی گفتگو کو اس "بلندی” سے پیش کرنا شروع کردیا کہ اُن موصوف کو علم کے ساتھ بلند بانگی میں بھی زیر کردیا۔

ایک مرتبہ کسی سرکاری میٹنگ میں عربی مدارس و جامعات کے معائنے کی بات ہورہی تھی۔ وہاں موجود کسی شخص نے معائنہ کرنے والے وفد کے متعلق کچھ بے محل سوال کرلیا۔ پھر کیا تھا؟ سرکاری افسر آگ بگولا ہوگئے۔ بولے: ’’ہوسکتا ہے کہ ہم کوئی کتّا بھیج دیں۔ آپ کو اسے بھی معائنہ کرانا پڑے گا۔‘‘ سوال کرنے والے شخص تو رعب میں آکر بیٹھ گئے، لیکن سید ضیاء الحسن ندوی کھڑے ہوگئے۔ فرمایا: ’’دھیان رہے کہ کتّے کو بھیجیں گے تو اس کے ساتھ معاملہ بھی کتے ہی والا ہوگا۔‘‘

پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی کی عالمانہ جرأت و بے باکی کے اور بھی واقعات بیان کیے جاسکتے ہیں۔ بے باکی اور کسی سے مرعوب نہ ہونا، ان کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف تھا۔ ایسا وصف جو اُن کے معاصرین میں شاذ و نادر ہی نظر آتا۔ انسان کی شخصیت میں انکسار اور بے باکی کا یہ آمیزہ اس وقت تیار ہوتا ہے، جب اُس کے اندر کچھ ہوتا ہے۔ وہ کسی عہدے یا کرسی کی بے ساکھی کی وجہ سے بڑا نہیں ہوتا، واقعتاً بڑا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے مفادات کے لیے اپنی خودداری کو قربان کرنا نہیں جانتا۔ چند سکّوں کے لیے بے وقاری کو گوارہ نہیں کرتا۔ سید ضیاء الحسن ندوی ان دونوں اوصاف کے حامل تھے۔ ان اوصاف کی یک جائی نے ہی انھیں نہایت متواضع ہونے کے ساتھ بہت بے باک اور بے خوف بنا دیا تھا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہء عربی کی چہل پہل، فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگویجز کے ڈین آفس کی بارعب خاموشی، اکیڈمک اسٹاف کالج کی گہماگہمی اور قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں میں پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی کو دیکھنے والا شخص جب ندوے کے احاطے یا اپنے اساتذہ کے سامنے دیکھتا، تو حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔ عام طور پر وہ سَفاری سوٹ پہنتے تھے، لیکن ندوے میں کرتے پاجامے اور شروانی ٹوپی کا اہتمام کرتے تھے۔ اپنے اساتذہ کے سامنے جاتے تو بالکل اسی انداز سے، جس انداز سے کوئی زیر تعلیم طالب علم جاتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ انھیں مہمان خانے میں ناظمِ ندوۃ العلماء مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے سامنے دو زانو ہوکر اس طرح سکڑے سمٹے بیٹھے دیکھا کہ اگر میں انھیں پیچھے سے دیکھتا تو کوئی طالب علم ہی سمجھتا۔ یہ اُن کی جوانی کا نہیں، آخری ایک دو برسوں کا واقعہ ہے۔

اسلامیات کے طلبہ اور خاص کر ندوی فضلاء کے لیے پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی کی شخصیت اس لیے بھی ایک مستند حوالہ تھی کہ انھیں شیخ الاسلام علامہ سید سلیمان ندوی (1884-1953) کی زیارت و صحبت کا شرف بھی حاصل رہا۔ یہ بات اُن لوگوں کے لیے خصوصی اہمیت کے کی حامل ہے، جو لوگ "نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں” کے اصول پر ایمان رکھتے ہیں۔ اپنی وفات سے کچھ ماہ پہلے سید ضیاء الحسن ندوی ندوے تشریف لائے تھے۔ اس مناسبت سے انجمن الاصلاح کے زیر اہتمام جمالیہ ہال میں اُن کا ایک محاضرہ بھی ہوا تھا۔ ندوے میں یہ اُن کی آخری آمد اور طلبہ سے آخری گفتگو تھی۔ شاید اسی لیے اُس دن وہ بہت کھل کر دیر تک گفتگو فرماتے رہے۔ بہت تفصیل سے اپنے واقعات و تجربات بیان کرتے رہے۔ یہ دلچسپ واقعہ بھی سنایا کہ میں بہت چھوٹا تھا۔ قاعدہ پڑھتا تھا۔ لیکن شاہ نامہء اسلام کے بہت سے اشعار بھی یاد تھے۔ ہم لوگ سفید کرتے پاجامے میں ملبوس اس ہال کے باہر کھیل رہے تھے۔ شور مچا رہے تھے۔ اندر ہال میں علامہ سید سلیمان ندوی طلبہ کو درس دے رہے تھے۔ ہمارا شور سن کر انھوں نے مجھے اندر بلالیا۔ پوچھا: کیا پڑھتے ہو؟ میں نے جواب دیا: قاعدہ پڑھتا ہوں۔ فرمایا: سبق سناؤ۔ میں نے قاعدہ نکالا، کوئی صفحہ کھول کر اس پر انگلی رکھی۔ پڑھنا آتا نہیں تھا، اس لیے قاعدے کی سطروں پر انگلی پھیرنے لگا اور زبان سے شاہ نامے کے اشعار سنانے لگا۔ اس منظر کو دیکھ کر سید صاحب بہت محظوظ ہوئے۔ گھر خاندان کے بارے میں پوچھا اور دعائیں دے کر رخصت فرمایا۔

پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ ہندستان میں عربی زبان و ادب سے وابستہ حلقوں میں اُن کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا تھا، وہ آج تک پُر نہیں ہوسکا۔ کیوں کہ شخصیت کی کمی کرسی، عہدے، لقب اور گوشت پوست سے پوری نہیں ہوتی۔ وہ پوری ہوتی ہے اُن اوصاف کے وجود سے، جو اوصاف جانے والی شخصیت کا طرہء امتیاز ہوتے ہیں۔ گہرا علم، نرم خوئی، خوش مزاجی، انکسار و تواضع، خودداری، جرأت و بے باکی، ادب آداب، روایات کا پاس و لحاظ اور اقدار کا تحفظ سید ضیاء الحسن ندوی کے امتیازی اوصاف تھے۔ ان اوصاف کی یک جائی نے ہی انھیں بڑوں کا پیارا اور چھوٹوں کا محبوب بنایا تھا۔ کیوں نہ ان اوصاف کو اپنے اندر جمع کرنے کی کوشش کی جائے؟

تبصرے بند ہیں۔