شیخ الحدیث مفتی محمودؒ: ایک عہد ساز شخصیت

مولانا محمد جہان یعقوب

  پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جن علماکانام اورتذکرہ، ایک طویل عرصہ بیت جانے کے باوجودزندہ جاوید ہے،ان میں ایک اہم نام مفی محمودؒ کابھی ہے۔ مفتی محمودؒکی شخصیت ایک جامعہ کمالات شخصیت تھی۔ وہ ایک طرف تو جامعہ قاسم العلوم ملتان کی مسند حدیث پر بطور شیخ الحدیث علوم بنوت کے شائقین میں علمی موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف قرآن مجید کی تفسیر کے موتی عوام میں لٹاتے ہوئے، ایک طرف گہرے دینی وفقہی مسائل میں اپنی بصیرت افروز آرادیتے دکھائی دیتے ہیں، تو دوسری طرف بطور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواامور حکومت کی انجکام دہی میں مصروف،ایک طرف تحریک نظام مصطفی کی قیادت کررہے ہیں، تودوری طرف تحریک تحفظ ختم نبوت کی راہ نمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان کی بصیرت افزوز قیادت اور مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھا،کہ باوجود سرکاری عہدوں اور بیوروکریسی کی جڑوں میں اپنے پنجے گاڑے ہونے کے،نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا انکار اور ایک جعلی نبی کی نبوت کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے قادیانیوں کے احمدی اور لاہوری،دونوں گروپوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قانونی طور پر دائرہ اسلام سے خارج قراردے دیا۔ یہ ان کی ہی کوششوں کا ثمر تھا،کہ باوجود سیکولر ذہنیت رکھنے کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے اس مسئلے کو ہر قسم کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے کی اجازت دی،بلکہ ان کے کفرکی قرارداد پر دستخط کرتے ہوئے یہ ایمان افروز کلمات بھی اداکیے:میں ان کے کفرکی قرارداد پر نہیں، اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کررہاہوں۔

   مفتی محمودؒ 1919 میں ضلع ڈیرہ سماعیل خان کے گاؤں عبد الخیل میں پیدا ہوئے۔ وہ لسانی طور پر مروت پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد محترم کا نام مولانا خلیفہ محمد صدیق تھا۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے اپنے گھر پر حاصل کی۔ آپ نے ان سے فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مزید دینی تعلیم کے لیے آپ حضرت مولانا سید عبد الحلیم شاہ کے بھائی حضرت مولانا عبد العزیزشاہ کے پاس اباخیل،لکی مروت چلے گئے اور ان سے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مفتی محمود صاحب نہایت ہی ذہین واقع ہوئے تھے اور ذوق و شوق علم بھی رکھتے تھے، لہذا اپنے استاد محترم مولانا عبد العزیز ؒاور دیگر بزرگوں کے مشورے سے مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخل ہوئے۔ ایک مرتبہ مولانا عبد الرحمن امروہویؒتعطیلات کے ایام میں تشریف لائے اور مفتی صاحبؒ سے پوچھا :کیا تم نے تحصیل علم مکمل کر لیا ہے، جب انہوں نے مثبت میں جواب دیا تو مولانا صاحب ؒنے ان کا امتحان لیا اور اپنی طرف سے حدیث کی سند عطا فرمائی۔

مفتی صاحب جب تحصیل علم سے فارغ ہو کر واپس آئے تو شاہ عبد العزیزؒ اور دیگر احباب نے اجلاس بلایا اور مشورہ کیا کہ علاقے میں ایک دینی درس گاہ قائم کرنی چاہیے،چناں چہ جامعہ عزیزیہ کے نام سے ایک درسگاہ قائم کی گئی اور مفتی صاحبؒ تین سال تک اس میں پڑھاتے رہے۔ بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کے وجہ سے مدرسہ بند کرنا پڑا اور آپ نے پڑھانے کی خدمات عیسی خیل کے ایک دینی مدرسے کے سپرد کر دیں۔ کچھ عرصہ بعد یہاں سے مستعفی ہو کر واپس  گاؤں عبد الخیل آئے اور اپنے بڑوں کی تجویز پر یہاں مسجد کی امامت اور درس کا انتظام سنبھال لیا۔ علاقہ بھر سے طلبہ ان کے پاس آتے اور علم کے نور سے منور ہوتے۔ مقیم طلبہ کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔

ان کے شاگردوں میں سے ایک ان دنوں مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے اپنے اساتذہ کے سامنے مفتی صاحبؒ کی تدریسی صلاحیتوں اور علمی عظمت کا ذکر کیا تو مدرسہ کے ارباب انتظام و اہتمام نے حضرت مفتی صاحبؒ کو اپنے مدرسے میں پڑھانے کی دعوت دی اور مفتی محمودصاحب ملتان تشریف لے گئے۔

 ملتان آنے کے بعد مفتی صاحب کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ مفتی صاحب کی علمی وسیاسی ترقی کا سفر شروع ہوا ا۔ اس میں خود ان کی اپنی محنت، سعی وتوجہ اور دوڑدھوپ کا بہت عمل دخل تھا۔ وہ نہ صرف اس جامعہ کے شیخ الحدیث والتفسیر، بلکہ صدرمدرس بھی تھے،بعد میں اہتمام کی ذمے داریاں بھی سنبھال لی تھیں۔

مفتی محمودؒ پاکستان کے صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کے وزیراعلی رہے۔ 1970  کے انتخابات کے بعد وہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ کے قائم کردہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے صدر بنے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ اتحاد کا حصہ بھی رہے۔ 1 مارچ 1970کو وہ صوبہ سرحد کے وزیراعلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی مشترکہ حکومت کے جبرا ًاختتام کے خلاف 14 فروری 1973 کو اپنی کابینہ سمیت وزارت علیا کی ذمے داریوں سے احتجاجا ًاستعفا دیا۔

ان کا شمار ملک کے ان چند سیاست دانوں میں ہوتا ہے،جنھوں نے ہمیشہ نظریے کو ترجیح دی اور کبھی ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ انھیں خریدنے کی بارہا کوششیں ہوئیں، مگر وہ کبھی بکے نہ جھکے۔ ان کے دامن پر ایک پیسے کی کرپشن کا داغ بھی نہ تھا۔ وہ انتہائی صادق اور سچے انسان تھے۔

ان کے دور وزارت علیا میں سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں نماز باجماعت کا اہتمام لازمی تھا۔ اس کے متعدد واقعات ہیں۔ ہم صرف ایک واقعے کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں : ایک مرتبہ ایک بہت بڑا مجمع آپ کے ساتھ جا رہا تھا کہ اذان ہو گئی۔ اسی وقت آپ نے تمام لوگوں کو روکا اور نماز پڑھنے کی دعوت دی،صدف بندی ہوئی اور مفتی محمودؒ کی اقتدا میں نماز ادا کی گئی۔ ایک پولیس اہل کار سے کسی نے پوچھا :آپ نے وضونہیں کیا اور بلاوضو ہی نماز اداکرلی؟ تواس اہل کار کا جواب تھا: جب سے مفتی صاحب کے ساتھ ڈیوٹی لگی ہے، ہم پہلے سے ہی وضو کرتے ہیں، کیوں کہ ہمیں پتاہے کہ ہر حال میں مفتی صاحبؒکے ساتھ نماز پڑھنی ہے۔

 مفتی صاحبؒ نے پاکستان میں ختم نبوت کے موضوع پر قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس ٹیم کی، علمی ونظریاتی اور قانونی وپارلیمانی محاذوں پرقیادت کی، جو قادیانیوں (احمدی اور لاھوری گروپ)کو غیر مسلم اقلیت ڈکلیئر کروانے پر کام کر رہی تھی۔ انہیں اس فیصلے کے بعد بہت شہرت اور پذیرائی ملی،بل کہ اسی فیصلے نے تاریخ میں انھیں امر کردیا۔

انہوں نے 14 اکتوبر 1980 کو،کراچی میں ایک علمی مباحثے کے دوران وفات پائی،آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی نماز جنازہ آپ کے بڑے بیٹے اور جانشین مولانا فضل لرحمن نے پڑھائی،آپ اپنے آبائی گاؤں عبد الخیل پنیالہ میں مدفون ہوئے۔ دعاہے اللہ تعالیٰ ان کی قبر کورحمتوں کا مخزن ومسکن بنائے!آمین!

تبصرے بند ہیں۔