شیخ سید احمد کبیر رفاعی: سوانح اور تعلیمات

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

چھٹی صدی ہجری میں جن نفوس قدسیہ نے اپنے وجود مسعود سے ایک جہان کو فیضیاب کیا، اُن میں ایک اہم نام شیخ کبیر سیداحمد کبیررفاعی قدس سرہٗ کا ہے۔ شیخ کبیر کی پوری زندگی خدمت خلق اورمخلوق کو بہرصورت فائدہ پہنچانے سے عبارت ہے۔ اُن کا اصل نام احمد، کنیت ابوالعباس، اورلقب محی الدین ہے۔ جدامجدسید حسن اصغر ہاشمی مکی معروف بہ رفاعہ قدس سرہٗ کی مناسبت سے رفاعی کہلاتے ہیں ، اورچوں کہ امام موسیٰ کاظم اور شہیداعظم سیدناامام حسین رضی اللہ عنہماکی اولاد سے ہیں ، اس لیے موسوی اور حسینی بھی کہلاتے ہیں۔ بلنددرجات اور اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے معتقدین کے نزدیک سلطان الاولیاء اورشیخ کبیرسے مشہورومعروف ہیں ، جب کہ مسلکاً شافعی المذہب ہیں۔

بشارت و ہدایت نبوی:

شان رفاعی میں ہے کہ شیخ کبیرکی پیدائش سے چالیس دن پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شیخ سیدمنصوربطائحی کے خواب میں تشریف لائے اور اُن کی پیدائش کی خبردیتے ہوئے فرمایا:اے منصور!آج سے چالیس دن بعد تیری بہن کے یہاں ایک لڑکا پید ا ہوگا، اس کا نام احمد رکھنا۔ وہ تمام اولیاکا سردار ہوگا جس طرح میں تمام انبیا کا سردار ہوں۔ اس کی وجہ سے میری اُمت میں شریعت وطریقت اورمعرفت کا نورپھوٹے گا۔ اس کی پیدائش کی خبر لوگوں تک پہنچادو۔ جب وہ ہوشیار ہوجائے تو تعلیم کے لیے اُسے شیخ علی قاری واسطی کے پاس بھیج دینا، اُس کی تربیت میں غفلت نہ کرنااوربطور خاص اس کا خیال رکھنا۔ (ص:29)

ولادت باسعادت اورپرورش:

بشارت نبوی کے ٹھیک چالیس دن بعدشیخ کبیر سیداحمد رفاعی یکم؍ رجب 512ھ؍مطابق یکم نومبر1118 ء کوبمقام اُم عبیدہ قصبہ حسن میں پیدا ہوئے۔ اس وقت مسترشد باللہ عباسی کاعہدخلافت تھا۔ شیخ کبیر ابھی سات ہی کے تھے کہ والد ماجدسید علی ہاشمی مکی قدس سرہٗ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس کے بعد اُن کی نشو ونما اور پرورش وپرداخت شیخ سیدمنصور بطائحی قدس سرہٗ کی زیرنگرانی ہوئی، جو اُن کے حقیقی ماموں تھے۔

 تعلیم وتربیت:

شیخ کبیراپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرلینے کے بعدشیخ عبدالسمیع حربونی کی نگرانی میں پہنچے اوراُن کی شاگردی میں قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا، اور مزید تعلیم وتربیت کے لیے شیخ ابوالفضل علی واسطی قدس سرہٗ کے سپرد ہوئے، جہاں شیخ کبیر نے عقلی ونقلی علوم مثلاً:حدیث، تفسیر، منطق وفلسفہ نیز مروجہ علوم وغیرہ میں بطورخاص کمال ومہارت حاصل کی اور مختلف علمی فضل وکمال کے گوہرمراد سے اپنے دامن آرزو کو پُرکیا۔

اساتذۂ کرام:

شیخ کبیر کے مشہورومعروف اورناموروجلیل القدراساتذہ میں شیخ منصور بطائحی، شیخ عبدالسمیع حربونی، شیخ ابوالفضل واسطی، شیخ ابوالفتح محمد بن عبد الباقی، شیخ محمد بن عبد السمیع عباسی ہاشمی، شیخ ابوبکر واسطی اور عارف باللہ سیدعبد الملک بن حسین حربونی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

درس وتدریس:

شیخ کبیر نے جس شہر علم ومعرفت میں تعلیم حاصل کیا اُسی شہر واسط میں درس وتدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اللہ دادقابلیت اورانتہائی ذکاوت کی وجہ سے جب اُن کی علمی شہرت چاروں طرف پھیل گئی، تو طالبانِ علوم اپنی تشنگی بجھانے کے لیے شہر واسط کارُخ کرنے لگے اوراِس کے علاوہ عظیم علماوفضلا بھی اُن کیدرس بافیض سے فیضیاب ہونے کی خاطر اُن کی خدمت میں پہنچتے اوراُن کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے۔ جناب طیب قاسم رشید عمرانی کے مطابق :شیخ کبیر کے درس وتدریس کا معمول یہ تھاکہ روزانہ صبح وشام حدیث، فقہ، تفسیر اورعقائد کادرس دیتے، جس میں کثرت سے طلبا شریک ہوتے تھے۔ ان میں علماوفضلا اور اپنے عہد کے مشائخ کبار بھی شامل تھے۔ (معدن الاسرار)

تصنیفات و تالیفات:

توحیدوتصوف، پندونصائح اور فقہ وتفسیرکے موضوع پر مشتمل جن مفیدو گراں قدر کتابوں کو شیخ کبیر سے منسوب کیاجاتا ہے، اُن میں چند یہ ہیں ، مثلاً:برہان موید، حکم رفاعیہ، احزاب رفاعیہ، تفسیر معانی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، عقائد رفاعیہ، مجالس احمدیہ، تفسیر سورۃ القدر، شرح تنبیہ، ست، رحیق الکوثر، الوصایاوغیرہ۔

سیرت وشخصیت:

طبقات امام شعرانی میں ہے کہ صوفیائے کرام کے احوال کی شرح اور اُن کے منازل کی مشکلات حل کرنے کی سرداری شیخ کبیر پر ختم ہے، اورعلاقہ بطائح میں تربیت مریدین کا عمل ان کی وجہ سے پروان چڑھا، نیزبے شمار مخلوق نے ان سے تزکیہ وتصفیہ کا نور پایا۔ مؤلف شان رفاعی کے مطابق:قناعت وشکر کا یہ حال تھا کہ کبھی اپنے پاس دوقمیصیں نہ رکھتے تھے۔ جب قمیص دھونے کی ضرورت پیش آتی تو دریا میں خودہی اُترجاتے، قمیص کا میل کچیل بھی خودہی صاف کرتے، یہاں تک کہ دھوپ میں کھڑے ہوکر اُسے خودہی سوکھاتے بھی تھے اور اُس وقت تک دھوپ میں کھڑے رہتے تھے جب تک کہ قمیص خشک نہیں ہوجاتی۔ کھانے کا معاملہ ایسا تھاکہ دو تین بعدایک آدھ لقمہ کھاتے، البتہ!اگر کوئی مہمان آجاتا تو اُس کے کھانے پینے کا ضرور انتظام فرماتے۔ اُن کے اندرخدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ وہ خودجنگل جاتے، لکڑیاں جمع کرتے، اُسے خود اُٹھا کرلاتے اوربیوگان ومساکین اورغربا کے گھروں میں پہنچاتے، بلکہ اُن گھروں میں پانی بھی خود بھر دیتے تھے۔

 شیخ کبیر اِس قدر نرم دل اور محبتی تھے کہ انسان تو انسان، چرندوپرندسے بھی بے پناہ محبت فرماتے اوراُس کے آرام کا ہر ممکن خیال فرمایا کرتے تھے۔ طبقات امام شعرانی میں ہے کہ جو شخص بھی ملتااُسے پہلے سلام کرتے، یہاں تک کہ جانوروں کو بھی دیکھتے تو فرماتے کہ تمہاری صبح اچھی ہو۔ اس تعلق سے دریافت کیاجاتا تو فرماتے کہ میں اپنے نفس کو اچھے کاموں کا عادی بناتاہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب اُن کے جسم پر مچھر بیٹھ جاتا تو اُسے اڑاتے نہ کسی کو اُڑانے دیتے اور فرماتے کہ اُسے خون پینے دو، جتناکہ اللہ رب العزت نے اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ جب دھوپ میں چل رہے ہوتے اورٹڈی اُن کے کپڑے پر بیٹھ جاتی تو اُس وقت تک سایہ دار جگہ پر ٹھہرے رہتے جب تک کہ ٹڈی سایہ میں بیٹھ نہ جاتی۔ جب کبھی بلی اُن کی آستین پر سوجاتی اور نماز کا وقت ہوجاتا تو نیچے سے آستین کاٹ دیتے لیکن بلی کو نہ جگاتے، اور جب نماز سے واپس آتے تو آستین کو اُس کے دوسرے حصے کے ساتھ سی لیتے۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ شیخ کبیر نے ایک خارش زدہ کتا کو دیکھاجسے لوگوں نے گاؤں سے باہر نکال دیا تھا۔ شیخ کبیر اُس کتے کے ساتھ جنگل چلے گئے۔ اُسے تیل لگاتے رہے اور اُسے کھلاتے پلاتے اور کپڑوں کی مدد سے اُس کی خارش کوبھی کھرچتے رہے۔ پھر جب اُس کی خارش ٹھیک ہوگئی تو گرم پانی سیاُس کو نہلایااور اُس کی پوری نگہداشت کی۔ بستی میں کسی کی بیماری کا حال سنتے اگرچہ وہ دور کا ہوتا، اُس کی عیادت اور خبرگیری کے لیے جاتے۔ جب کسی بوڑھے کو دیکھتے تو اُس کے محلے والوں کے پاس جاتے اور اُس بوڑھے شخص کے بارے میں نصیحت فرماتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے سفید بال والے مسلمان کی تعظیم وعزت کی اللہ رب العزت بڑھاپے میں اُس کی عزت وتعظیم کرنے والا مقرر فرمائے گا۔ شیخ کبیر دوسروں کی خیر خواہی کا کوئی موقع بھی نہیں گنواتے تھے، بلکہ بڑے انوکھے اندازمیں ہر ایک خیرخواہی فرماتے تھے۔ مثال کے طورپر جب اُنھیں پتا چلتاکہ فقرا میں کوئی اپنی لغزش کی بنیاد پر پٹائی کھانے والا ہے تو اُس سے اُس کے کپڑے بطور عاریت لیتے اور اُسے پہن اُس کی جگہ پر سور ہتے، اور اِس طرح فقرا اُن کی پٹائی کردیتے۔ جب پٹائی ہوجاتی اور فقرا کا غصہ سرد پڑجاتا تو اپنا چہرہ کھول دیتے، حالاں کہ اُن پر غشی طاری ہوجاتی لیکن اُن سے فرماتے کہ تمہارا بھلا ہوکہ تم لوگوں نے مجھے اجروثواب کمانے کا موقع دیا۔ فقرا ایک دوسرے سے کہتے کہ یہ اخلاق سیکھو۔ (ص:294-300)

خلافت وسجادگی:

تقریباً بیس سال کی عمرکے ہوگئے تو اُستاذ ومربی شیخ ابوالفضل علی واسطی قدس سرہ نیان کو تمام علوم شریعت وطریقت کی اجازت عنایت فرمادی، اور اس کے ساتھ خرقہ وخلعت خلافت سے بھی نوازدیا۔ تاہم اس کے بعد بھی علم حاصل کرناجاری رکھااور اپنے مرشد ومربی کی نگرانی میں نورِتصوف سے منورہونے کے بعد اپنے ماموں شیخ سیدمنصور بطائحی سے علم فقہ میں کامل مہارت حاصل کی، اور اس طرح فقہ وتصوف کے عطرمجموعہ قرارپائے۔ شیخ سیدمنصوربطائحی قدس سرہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں پہنچے تواُنھوں نے شیخ کبیرکواپنے مرشدومربی شیخ الشیوخ کی اَمانت اور اپنے خاص وظائف کااُن سے عہد لیا، اور پھراُن کو مسندسجادگی اورمنصب ارشاد پر فائز فرمادیا۔ (شان رفاعی)

تعلیمات وارشادات:

شیخ کبیر کے چند مفید تعلیمات وارشادات یہ ہیں:

رسول کریم سے محبت:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شان کو بہت بڑی شان والاجانو۔ خالق ومخلوق کے درمیان آپ واسطہ بھی ہیں اور وسیلہ بھی۔ آپ ہی نے خالق ومخلوق کا فرق واضح فرمایاہے۔ آپ اللہ کے خاص بندے، اللہ کے محبوب اور اللہ کے رسول ہیں۔ آپ تمام مخلوق میں سب سے کامل اور تمام پیغمبروں میں سب سے افضل ہیں۔ آپ اللہ کی راہ دکھانے اور اللہ کی طرف بلانے والے ہیں ، اور آپ ہی سب کے لیے بارگاہِ رحمانی کا دروازہ اور بارگاہِ صمدیت کا وسیلہ ہیں۔ خوب جان لو کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، وفات کے بعد بھی اسی طرح باقی ہے جس طرح حیات میں باقی تھی۔ تمام مخلوق قیامت تک آپ کی ہی شریعت کے مکلف ہیں اور آپ کا معجزہ قرآن کریم ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیثوں کو رَد کیاگویا اُس نے کلام اللہ کو رَد کیا۔ (شان رفاعی)

صحابہ کرام سے محبت:

صحابۂ کرام میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق، پھر سیدنا عمر فاروق، پھر سیدنا عثمان ذوالنورین، پھر سیدنا علی مرتضیٰ ہیں۔ تمام صحابہ کرام ہدایت پر ہیں (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانندہیں۔ تم اُن میں سے جس کسی کی بھی تابع داری کرلوگے ہدایت پالوگے۔ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)سے محبت رکھو۔ اُن کے ذکر وتذکرے سے برکت حاصل کرو، اوراُن جیسے اخلاق اپنے اندرپیداکرنے کی کوشش کرو۔ (ایضاً)

اہل بیت سے محبت:

دوستو!اپنے دلوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل -اولاد کی محبت سے بھی روشن کرو، کیوں کہ یہ نفوس قدسیہ جود کے چمکتے ہوئے انوار اور سعادت کے منور آفتاب ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے اہل بیت کے تعلق سے اللہ ڈرو، اور اُن کے حقوق ادا کرو۔ اہل بیت کو اپنے سے مقدم رکھو۔ خوداُن سے مقدم نہ رہو۔ اُن کی مدد کرو، اُن کی تعظیم کرو، اُن کا ادب کرو، اُس کی برکتیں تمہارے اُوپر برسیں گی۔ (ایضاً)

اولیاء اللہ سے محبت:

اولیاء اللہ کے دامن سے چمٹ جاو۔ اولیاء اللہ پر نہ کوئی خطرہ ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ولی وہ ہے جو اللہ سے محبت رکھتا ہے، لہٰذاجس کو اللہ سے محبت ہو اُس سے دشمنی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی شخص میرے کسی ولی/دوست کو تکلیف دے گا میں اس سے اعلان جنگ کرتاہوں ، گویا جواولیاء اللہ کو تکلیف دیتا ہے اللہ اُس سے انتقام لیتاہے اور جواولیاء اللہ سے محبت کرتا ہے اللہ اُس کی حفاظت فرماتا ہے، اس لیے تم بھی اولیاء اللہ کی محبت کواپنے اوپر لازم کرلو۔ اُن کا قرب حاصل کرو۔ اُن کے ساتھ اپنے اعتقاد مضبوط رکھو۔ اُن کی وجہ سے تمھیں برکت اور سعادت ملے گی۔ (ایضاً)

مسلمانوں کو نصیحت:

عزیز من!شریعت کی پابندی لازم پکڑلو۔ ظاہری احکام میں بھی اور باطنی احکام میں بھی، اور اپنے دل کو اللہ کی یاد سے غافل کردینے والی چیزوں سے بچاؤ۔ درویشوں اور غریبوں کی خدمت کو لازم جانواور نیک کاموں میں ہمیشہ جلدی کرو۔ سستی اور کاہلی سے بہر حال بچو۔ اللہ رب العزت کی مرضی پر ہمیشہ جمے رہو۔ اپنے آپ کو رات میں عبادت کا عادی بناو۔ ریاکاری سے دور بھاگو۔ خلوت اور جلوت ہرجگہ اپنے گناہوں پر آنسو بہاؤ۔ (البرہان الموید)

علماکی صحبت:

علما سے میل جول ختم نہ کرو۔ اُن کی مجلسوں میں بیٹھاکرو۔ اُن سے علم حاصل کرو، اور یہ مت کہو کہ فلاں عالم بے عمل ہے۔ تم اس سے علم کی باتیں لے لو، اور خود اُن پر عمل کرو، اوراُس کو اوراُس کے عمل کو اللہ رب العزت کے حوالے کردو۔ (ایضاً)

وصال مبارک:

اس طرح ارشادات فرمودات کے گوہر آبدار لٹاتے رہے کہ ایک دن شیخ کبیرسیداحمد رفاعی پیٹ کیایک مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے۔ اس کی وجہ سے مہینہ بھر صاحب فراش رہے اور پھریہی بیماری مرضِ الموت کی شکل اختیار کرگئی۔ بالآخر66؍ سال کی عمرمیں 12؍جمادی الاولیٰ 578ھ کوشریعت وطریقت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، اوراپنے جد کریم شیخ یحییٰ بخاری کے گنبد تلے بمقام اُم عبیدہ، عراق میں مدفون ہوئے۔ اُن کاروضہ انورآج بھی ہرخاص وعام کے لیے مرکز عقیدت کی حیثیت رکھتا ہے۔ (ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، الہ آباد)

تبصرے بند ہیں۔