علم وفضل کا مینارۂ نور: ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (1908- 2002) کی وفات کو 14 برس بیت چکے ہیں، اس کے باوجود علمی حلقوں  میں  ان کا تذکرہ کسی زندہ وباحیات شخصیت کی طرح ہو رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ان کی زندگی میں  ان کی ویسی قدر نہیں  ہوئی، جیسی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ان کی وفات کے بعد شاید برصغیر کے علمی حلقوں  کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ وہ ایک گوہر نایاب سے محروم ہو گئے ہیں۔ تاریخ میں  ایسی متعدد مثالیں  موجود ہیں۔ ایسی بہت سی شخصیات ہیں، جن کی عظمت ورفعت کا عرفان امت کو دیر سے حاصل ہوا۔ جب عرفان حاصل ہو گیا تو سب ان کے گن گانے لگے اور انہیں  اپنے اپنے حلقے میں  شامل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ وہ شخصیات ہوتی ہیں، جو پوری زندگی صلہ وستائش سے بے پروا ہو کر اپنا کام کرتی چلی جاتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد جب دنیا ان کے کام کی وسعت او رگہرائی کا ادراک کرتی ہے، تو انہیں  خراج عقیدت پیش کیے بغیر نہیں  رہ پاتی۔ کچھ یہی صورت حال ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی بھی ہے۔ ایسا بھی نہیں  کہ ان کی زندگی میں  ان کا اعتراف نہ کیا گیا ہو۔ ان کو ایسے متعدد امتیازات واعزازات حاصل ہوئے، جن کے حصول کے لیے لوگ پوری پوری زندگی لگا دیتے ہیں۔ ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا، کافی کیا گیا، لیکن جیسا ان کا حق تھا ویسا نہیں  کیا گیا۔ اس میں  ان کے قیام یورپ کو بھی دخل تھا اور ان کی بے نیاز ومستغنی طبیعت کو بھی۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ 1908 میں  انگریز ہندوستان کی ریاست حیدرآباد میں  ایک علمی خاندان میں  پیدا ہوئے۔ جامعہ نظامیہ سے دینی تعلیم اور جامعہ عثمانیہ سے 1928 میں  بی اے کی تعلیم مکمل کی۔ اسی سال ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی۔ 1930 میں  جامعہ عثمانیہ ہی سے ایم اے کیا اور اسی سال ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ پھر جرمنی کا رخ کیا۔ 1933 میں  بون یونی ورسٹی، جرمنی سے ’’اسلام کے بین الاقوامی قانون میں  غیر جانب داری‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی۔ مزید علم کے شوق نے فرانس پہنچا دیا۔ وہاں  سوبورن یونی ورسٹی، پیرس سے ’’عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں  اسلامی سفارت کاری‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد حجاز مقدس میں  قیام کا موقع ملا تو مدینہ منورہ کے مشہور قاری شیخ حسن الشاعر کو پورا قرآن کریم سنایا اور سند لی۔ پھر وطن واپس ہوئے اور 1935 سے 1948 تک جامعہ عثمانیہ میں  تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی ریاست حیدرآباد میں  پھیلی اتھل پتھل سے سخت دلبرداشتہ ہو کر ریاست حیدرآباد کے پاس پورٹ پر پیرس چلے گئے۔ اپنے وطن حیدرآباد کی محبت اور ذاتی حمیت وغیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ کسی ملک کی شہریت لیں۔ نہ فرانس میں  شہریت کی درخواست دی، نہ پاکستان کی جانب سے کئی مرتبہ کی گئی شہریت کی پیشکش کو قبول کیا اور نہ وطن واپس آکر ہندوستان کی شہریت لی۔ ایک پناہ گزیں  کی حیثیت سے مستقل فرانس میں  سکونت اختیار کر لی۔ 1954 سے 1978 تک فرانس کے سب سے بڑے سرکاری تحقیقی ادارے سے وابستہ رہے۔ 1994 میں  طبیعت کی سخت خرابی کی بناء پر اپنے بھائی کی پوتی کے ساتھ فلوریڈا، امریکہ منتقل ہو گئے۔ 17 دسمبر2002 کو وہیں  وفات پائی۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی شخصیت کے متعدد گوشے ایسے ہیں، جن سے موجودہ علمی دنیا روشنی حاصل کر سکتی ہیں۔ ان کا پہلا مضمون ’’مدراس کی سیر‘‘ 1924 میں  لاہور کے ہفت روزہ نونہال میں  شائع ہوا تھا۔ جب کہ پہلی کتاب ’’رومی اور اسلامی ادارۂ غلامی‘‘ جامعہ عثمانیہ کی بزم قانون کے زیراہتمام 1931 میں  شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھتے گئے اور پیچھے مڑ کر نہیں  دیکھا۔ 60 برس کے عرصے میں  دنیا کی سات بڑی زبانوں  میں  164 کتابیں  لکھیں۔ تقریباً 20 ہزار صفحات۔ اس کے ساتھ 1000 مضامین تحریر کیے۔ ان کی کتابوں  کے دسیوں  زبانوں  میں  ترجمے بھی ہوئے۔ وہ دنیا کے واحد شخص تھے، جنہوں  نے قرآن کریم کا 3 زبانوں  میں  ترجمہ کیا۔ فرنچ، جرمنی اور انگلش۔ فرنچ میں  اس سے پہلے قرآن کا ترجمہ نہیں  ہوا تھا۔ اس ترجمے کے 20 ایڈیشن شائع ہوئے، جن میں  سے صرف بیسواں  ایڈیشن 20 لاکھ کی تعداد میں  شائع ہوا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر علمی وتحقیقی کام کرنے والا انسان چاہتا تو دولت کے انبار لگا لیتا۔ لیکن انہوں  نے کسی بھی کتاب یا ترجمے کے حقوق اپنے نام محفوظ نہیں  رکھے۔ کسی نے رائلٹی دینی بھی چاہی، تو یا تو قبول نہ کی اور اگر قبول کی تو فوراً کسی خیر کے کام میں  لگا دی۔ پوری عمر دو چار کپڑے کے جوڑوں  اور ایک چھوٹے سے فلیٹ میں  بسر کر دی، بلکہ بسااوقات فاقوں  کی نوبت بھی آگئی۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے یورپ اور بالخصوص فرانس میں  اسلام کے لیے ماحول سازگار کرنے میں  بڑا بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔ ان کے قریبی لوگوں  کے مطابق ان کے ہاتھ پر کئی ہزار یورپی لوگوں  نے اسلام قبول کیا۔ لیکن قربان جائیے ان کے جذبۂ صادق کے، کہ کبھی بھولے سے بھی اپنی ان بے مثال خدمات کا تذکرہ زبان پر نہیں  لائے۔ کئی اہم مستشرقین سے اپنی خدمات کا لوہا منوایا۔ ان سے دس قدم آگے بڑھ کر علمی وتحقیقی دلائل کے ذریعہ ان کے بہت سے دعووں  کا رد کیا۔ یورپ کی دو اہم یونی ورسٹیوں  سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں  حاصل کیں، لیکن ہمیشہ اپنی اصل سے رشتہ استوار رکھا۔ عبادات اور اسلامی وضع قطع کے معاملے میں  کبھی صلح نہیں  کی۔ انہیں  اپنی ڈگریوں  میں  سب سے محبوب قرأت قرآن کی وہ ڈگری تھی، جو انہوں  نے مدینہ منورہ سے حاصل کی۔ اعلیٰ درجے کے محقق ہونے کے باوجود روحانیت سے اپنا رشتہ مضبوط بھی رکھا اور اس کی اہمیت کا اعتراف بھی کرتے رہے۔ ان کے یہ جملے آج کے عقلیت زدہ ماحول کے لیے نسخۂ جاں  کی حیثیت رکھتے ہیں :

’’ہر روز کثرت سے فرنگی مسلمان ہو رہے ہیں۔ انگلستان، فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، بلجیم، ڈنمارک، شمالی وجنوبی امریکہ کوئی ملک اس سے مستثنیٰ نہیں۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں  نے پتا چلایا کہ ان کا 99 فیصدحصہ تصوف اور صوفیہ کی تعلیم کے باعث اسلام قبول کر رہا ہے۔ عقل پرستوں  کی لایعنی تفسیروں  اور تحریروں  کے باعث نہیں۔ صوفیہ کی چیزیں  اب آہستہ آہستہ فرنگی زبانوں  میں  ترجمہ وتالیف ہو رہی ہیں۔ میں  خود عقلیت کا دلدادہ تھا۔ یہاں  آکر ہار ماننی پڑی۔ اسلام دل کے راستے سے ہی پھیل سکتا ہے۔ دل کی زبان میں  جو تاثیر ہے، جو سحر ہے وہ کسی اور چیز میں  نہیں۔ ہم جس کی (یعنی مغرب کی) نقالی کرنا چاہتے ہیں  وہ خود اپنے سے بیزار ہو گیا ہے۔‘‘

ڈاکٹر محمد حمید اللہ 15 زبانوں  کے ماہر تھے۔ 7 زبانوں  میں  کتابیں  لکھیں۔ 12 نادر مخطوطات کو یورپ کی لائبریریوں  سے دریافت کر کے شائع کیا۔ پاکستان میں  انہیں  صدر مملکت کی جانب سے ایک سے زائد مرتبہ شہریت اور کسی بھی یونی ورسٹی میں  پروفیسر شپ کی پیشکش کی گئی۔ ملیشیا میں  وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ترکی کی جامعات میں  سلسلہ وار لیکچرز دیے۔ سعودی حکومت نے ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں  عالم اسلام کا سب سے بڑا اعزاز ’’فیصل ایوارڈ‘‘ پیش کرنا چاہا۔ پاکستان کا مؤقر علمی اعزاز ’’نقوش ایوارڈ‘‘ پیش کیا گیا۔ دس لاکھ کی رقم پیش کی گئی اور نہ جانے کیسی کیسی پیش کشیں  ہوئیں، لیکن وہ اللہ کا بندہ سب کو نامنظور کر کے اپنے علمی کاموں  میں  لگا رہا۔ کسی بڑے سے بڑے اعتراف اور اعلیٰ سے اعلیٰ پیش کش کو بھی قبول نہ کیا۔ صرف اس لیے کہ وہ خود کو اسلام کا ایک خادم سمجھتے تھے۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں  کرنا چاہتے تھے جس سے اس میدان میں  ان کی یکسوئی متاثر ہو۔ ساتھ ہی وہ آخر دم تک اپنے بزرگوں  اور اساتذہ کا غایت درجہ احترام کرتے رہے۔ اونچے اور بہت اونچے مقام پر پہنچ کر بھی اپنے بڑوں  سے رشتہ نہیں  توڑا۔ خود کو ایک ادنیٰ طالب علم، دین کا خادم اور بڑوں  کی دعاؤں  اور عنایتوں  کا ثمرہ سمجھتے رہے۔

ڈاکٹر صاحب کے کارناموں  اور ان کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں  تو سخت حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس قسم کے انسان تھے؟ ایسا لگتا ہے کہ سلف صالحین اور قرون اولیٰ کے ائمہ وعلماء کی مقدس جماعت کا کوئی فرد ہمارے دور میں  آگیا تھا۔ مال ودولت اور جاہ ومنصب کے حصول کے بے شمار مواقع، لیکن وہ مرددرویش ان سب کو ٹھکرا کر اپنے علمی کاموں  میں  مصروف ومگن۔ دل ودماغ پر بس خدمت دین اور خدمت علم کی دھُن سوار۔ اعلیٰ پیمانے کے انتہائی وسیع علمی وتحقیقی سرمایے کے مالک، لیکن حددرجہ متواضع، منکسر، درویش صفت اور فقیرانہ زندگی گزارنے والے۔ ایسی شخصیت کا وجود موجودہ دور میں  کسی معجزے سے کم نہیں  ہے۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ اس گوہر نایاب کی قیمت سمجھے اور علمی دنیا علم وفضل کے اس مینارۂ نور سے روشنی حاصل کرے۔

تبصرے بند ہیں۔