مولانا محمد برکت اللہ خان صاحبؒ: شخصیت اور خدمات

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری 
انسان دنیا میں ایک دن مرنے کے لئے آیا ہے ،یہاں پر کسی کی زندگی کو دوام نہیں ہے ،ہر روز دنیا میں بہت سے پیدا ہوتے ہیں اور بہت سے ہمیشہ کے لئے دنیا سے چلے جاتے ہیں ،انسانوں کی اس بھیڑ میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کی رحلت سے عالم سوگوار اور غمگین ہوجاتا ہے ،ایسے انسان بہت کم ہوتے ہیں جو تنہا جاتے ہیں لیکن اپنے ساتھ ایک دنیا کو روتا چھوڑ جاتے ہیں ،اپنی یادیں ،اپنی باتیں ،اپنے تذکرے،اپنی قربانیوں کے انمٹ نقوش دل ودماغ میں پیوست کرجاتے ہیں۔باکمال انسانوں کی علامت ہی یہی ہے کہ ان کے جانے کے بعد نگاہیں ان جیسوں کو ڈھونڈنے لگیں ،محفلیں جنہیں تلاش کرنے لگیں ،قافلے اور کارواں جن کی سالاری و قیادت کو تڑپنے لگیں ،منزلیں جن کی رسائی کے لئے بے قرار ہوجائیں ،اپنے اورپرائے ہر کوئی فراق وجدائی میں مغموم و اشک بار ہوجائیں،لیکن وہ جانے والے اپنی آخرت سدھا رکے ہمیشہ کے لئے داغِ مفارقت دے جاتے ہیں اور دلوں کے نہاں خانے میں ہمیشہ کے لئے زندہ وآباد رہ جاتے ہیں۔
امیرِ شریعت ،مخزنِ علم وحکمت حضرت مولانامحمد برکت اللہ خان صاحب قاسمیؒ کی شخصیت بھی ایسے چند انسانوں اور عبقری شخصیتوں میں سے ایک تھی ،جو بلاشبہ مسند درس و تدریس کے کامیاب استاذ تھے ،علوم و فنون میں بے مثا ل تھے ،علومِ قرآن وحدیث کے نکتہ داں تھے ،میدان خطابت کے شہوار تھے ،سیادت وقیادت میں میر کارواں تھے ،علم وحکمت ،فراست وبصیرت میں نادرۂ روزگارتھے ،فقہ وقضا ء کے رمز شناس تھے،اسلاف واکابر کی یادگار تھے ،احقاقِ حق و ابطالِ باطل کیلئے ہمیشہ سینہ سپر تھے،ملتِ اسلامیہ کی رہبری کے لئے دلِ دردمند رکھنے والے تھے،غرض یہ کہ اللہ تعالی نے ایک فردِ واحد میں ایک جماعت ،ایک تحریک ،اور ایک تنظیم والی خوبیوں اور کمالات کو جمع فرمادیا تھا،اور وہ اپنے دورِ آغاز سے لے کر آخری سانس تک خدا کے دین کی خدمت کرتے ہوئے ،نبی کریم ﷺ کی احادیث کی تعلیم وتشریح کرتے ہوئے مالکِ حقیقی سے جاملے ۔آپ کاانتقال فرماجانا پوری ملت کا خسارہ سے دوچارہوجانا ہے ،اورملتِ اسلامیہ کی گراں قدر پونجی کا لٹ جانا ہے۔ایسے لوگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں ،زمین اپنی بے نوری پر روتی ہے تب جاکر اس خاک سے ایسے لعل وگوہر نمودار ہوتے ہیں،اور پھر ایک انقلاب برپاکرتے ہیں ،ایک تاریخ رقم کرتے ہیں ،ایک عہدِ تازہ تیا رکرتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک یادگار بن جاتے ہیں۔
آئیے مختصراً اس عظیم شخصیت کے کچھ احوال اور دینی خدمات کو ملاحظہ کرتے ہیں ،آپ کی زندگی ،حیات وخدمات پر ان شاء اللہ عنقریب ایک دستاویزی حیثیت کی کتاب شائع ہونے والی ہے جس میں تفصیلات کو ملاحظہ کیاجاسکتا ہے ۔اس وقت بطور خراج عقیدت اور اظہارِ محبت کے لئے یہ مختصر تحریر قارئین کے استفادہ کے لئے پیش کی جارہی ہے ۔
ولادت اور تعلیم:
حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب کی پیدا ئش 29 /نومبر 1937 ؁ ء کومیہاں ہرنگ پورضلع ’’دیوریا‘‘ یوپی میں ہوئی ۔آپ کے والدِ ماجد کا اسم گرامی محمد تواضع حسین خان ہے ۔آزادی سے پہلے کے دو رمیں آپ نے آنکھیں کھولیں اور آزادئ ہند کے لئے چلائی جانے والی تحریکوں کا اور اس کے لئے اپنا جان وتن لٹانے والے مجاہدوں کا آگے چل کر مشاہدہ کیا۔اللہ تعالی نے حافظہ غضب کا عطا کیا تھا ،چناں چہ صرف چھ ماہ کی قلیل مدت میں حفظِ قرآن کے تکمیل کی سعادت حاصل کی ،حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ؒ نے آپ کی دستاربندی فرمائی ۔ابتدائی تعلیم حفظ اور عالمیت کی مدرسہ حنفیہ فرقانیہ گونڈہ میں حاصل کی ،اس کے بعد آپ نے مرکزِ علم وفن دارالعلوم دیوبند کارخ کیا اور وہاں اساطینِ علم وفضل سے بھر پور کسبِ فیض کیا ،اکابرین کی صحبتوں سے خوب فائدہ اٹھایا ،اور جی بھر کر ان کی علمی مجلسوں سے مستفید ہوتے رہے ۔یقیناًوہ زمانہ دارلعلوم دیوبند کا بہترین زمانہ تھا ،جہاں ہر طرف علم وفن کے آفتاب ومہتاب روشن تھے اور طالبانِ علومِ نبوت ان سے خوشہ چینی کرتے تھے ۔ذہانت ،حافظہ زبردست ودیعت ہوا تھا اسی لئے فلسفہ و منطق میں آپ نے دورِ طالب علمی میں ہی مقام پیداکیا ،اور ساتھ شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی ؒ سے زانوئے تلمذطے کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جس کی وجہ سے علمِ حدیث سے شروع سے شغف رہا اور آخری سانس تک اسی کی برکت کتبِ حدیث کی تدریس کا موقع نصیب رہا۔ جس طرح شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کے ہر شاگرد کو شرفِ شاگردیت پرفخر رہا اسی طرح حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب بھی اپنی اس خوش نصیبی کا تذکرہ بھی بڑے والہانہ انداز میں فرمایا کرتے تھے۔1959 ؁ ء میں آپ نے فراغت حاصل کی ۔
کریم نگر آمد:
کریم نگر کی خیز سرزمین کو اللہ تعالی نے جہاں بہت سی خوصیتوں سے نوازا ہے وہیں اس کو یہ اعزاز بھی ملا کہ اس علاقے میں جس دور میں علماء کی تعداد کافی کم تھے ،اور دین کے بے لوث خادموں کی سخت ضرورت تھی ایسے دور میں حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب ؒ یہاں قدم رنجہ ہوئے اور فراغت کے ٹھیک دس سال بعدمئی 1969 ؁ ء میں کریم نگر تشریف لائے ، اس کو اپنا وطن ثانی بنایا اور ہمیشہ کے لئے یہیں کے ہوکر رہے گئے اور خدمت کرتے کرتے ،علم کے دئیے جلاتے جلاتے ،اصلاح کی محنتیں انجام دیتے دیتے ،اہلیان کریم نگر کی دینی تشنگی مٹاتے مٹاتے اسی خاک میں مدفون ہوگئے۔ضلع کریم نگر بالخصوص اور پوری ریاست بالعموم آپ کی عظیم اور بے لوث خدمات کی گواہ ہے ۔آپ نے اس سرزمین سے اور یہاں کے رہنے والوں سے نہ صرف محبت کی بلکہ ان کے لئے اپنے آپ کو نچھاور کردیا ،ایک ایسا محسن جس نے یہاں پر دین کے خاطر اپنا سب کچھ قربان کرکے عمر پوری یہیں گزاردی۔
کریم نگر میں آپ کی خدمات:
کریم نگر میں آپ کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے ،آپ نے مختلف جہتوں سے یہاں خدمات انجام دی ہے ،اور کوئی موقع خدمت کا ہاتھ سے جانے نہ دیا ،دارلہدٰی میں تقریبا چھ ماہ خدمات انجام دیں،مدرسہ کی ضرورت محسوس ہوئی تو دارالعلوم کریم نگر کے نام سے1972 ؁ ء ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی ،اللہ کو جب تک مقصود تھا اس لئے کام لیا ،اما مت وخطابت کا مرحلہ آیا توحاجی محمد علی گتہ دار مکرم پورہ کریم نگر کے اصرار پر ’’مدینہ مسجد‘‘ سے منسلک ہوئے اور اپنے دلنشین بیانات اور خطابات کا سلسلہ شروع فرمایا اور لوگوں کی علمی پیاس بجھانے لگے اور دینی رہبری کا فریضہ انجام دینے لگے ،تقریبا 13 سال تک امام و خطابت کی فرائض انجا م دیتے رہے ،پھر جب سبیل السلام سے وابستہ ہوئے تو امامت کے بجائے تاحیات خطابت کی ذمہ داری نبھاتے رہے ، 1979 ؁ ء میں محلہ مکرم پورہ سے دُرگماّ گڈا( موجودہ خان پورہ ) منتقل ہوئے ،اور مکان کے قریب ایک مسجد کی سنگِ بنیاد رکھی ،آپ کی بھی سعی وکوشش سے آج ’’مکہ مسجد ‘‘کے نام سے بڑی عالیشان مسجد بنی ہوئی ہے ،یہاں آپ نے86۔1985 ؁ء تک امام و خطابت کی ذمہ داری ادا کی ۔ اگرچہ انتقال تک مدینہ مسجد میں جمعہ کا خطاب فرمایا کرتے تھے ،لیکن کبھی کبھی مکہ مسجد میں جمعہ کا بیان ہوتا اور عصر بعد عام دنوں میں اور رمضان المبارک میں بپابندی آپ کی خصوصی نشستیں ہوتیں،جس میںآپ مختلف عنوانات پر بیانات فرماتے ۔دیہاتوں کے دورہ کرکے ،اطراف و اکناف کے چکر لگاکر علم دین کو پھیلاتے رہے ،اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ،اپنی بھر پور جوانی کو ،اور اپنی اپنی قوت وطاقت کو کھپاکر اس سرزمین کوسیراب کیا۔آج بھی آپ سے کسبِ فیض کرنے والے شاگردانِ باوفا کی ایک تعداد موجود ہے ۔
دارالعلوم سبیل السلام سے وابستگی:
شہر حیدرآباد کا قدیم اور بافیض ادارہ جامعہ دارلعلوم سبیل السلام بھی ہے ،جو عرصہ دراز سے دینی خدمات انجام دے رہا ہے ،آپ وہاں کے شدید تقاضے کی بنیاد پر دارالعلوم کریم نگر سے دارالعلوم سبیل السلام پہنچ گئے،اور اپنی خداداد صلاحیت کی بنیاد پر مقبول استاذ بن گئے ،مختلف کتابوں کی تدریس کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو حدیث کی مبارک خدمت سے وابستہ کیا ،حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب ؒ نے سبیل السلام میں آپ کی موجودگی کے بعد ہی دورۂ حدیث شریف کا آغاز فرمایا۔آپ کو یہ شرف حاصل رہا کہ آپ نے بخاری اور مسلم دونوں کتابوں کو پڑھا یااور ایک طویل عرصہ سے حدیث کی کتابیں پڑھاتے رہے یہاں تک انتقال سے چند دن قبل تک شعبان کی چھٹیاں ہونے پہلے تک بھی آپ بخاری ومسلم برابر پڑھاتے رہے ۔شہر کی مصروفیا ت کی وجہ سے آپ کا معمول تین دن تدریس کا تھا ، منگل ، چہارشنبہ ،جمعرات آپ مدرسہ میں ہوتے ،اور جمعہ ،ہفتہ ،اتوار،پیر کریم نگر میں مختلف ذمہ داریوں کو ادا فرماتے ۔سبیل السلام سے بھی آپ کی گہری وابستگی تھی اور آپ اس عظیم ادارہ کے’’ صدرالمدرسین‘‘ بھی تھے ،اس کی ترقی کی فکروں میں اپنے آپ کو برابر شریک رکھتے ،طلباء کی تعلیم اور اسباق کی پابندی کی پوری رعایت کرتے اور بلاسبب ناغہ ہونے نہیں دیتے۔بہر صورت اپنے مفوضہ دنوں میں حیدر آباد پہنچتے اور اپنی ذمہ داری نبھاتے۔شوال 1408 ؁ھ مطابق 1988 ؁ ء میں آپ سبیل السلام سے وابستہ ہوئے ،اور زندگی کی آخری سانس تک اس ادارہ کی ہمہ جہت ترقی ،تعلیمی بلندی اور ہر اعتبار سے فکر میں لگے رہے ۔تقریبا پچیس سال سے زائد مدت تک آپ نے تدریسی خدمات کو جاری رکھا ،اور پڑھتے ،پڑھاتے ،قرآن وحدیث کی تعلیم دیتے ہوئے ہی اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
تدریسی خدمات:
آپ نے پوری زندگی پڑھنے پڑھانے میں گزاردی ، فراغت سے بعد سے تادمِ آخر تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔آپ کے لئے یہ بھی سرمایۂ فخر ہے کہ ملک کے ممتاز دینی ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں دو سال تک تدریس سے وابستہ رہے ،رانچی ،جھاڑکھنڈ کے معروف جامعہ حسینہ میں دس سال تک مختلف کتابوں کی تدریسی ذمہ داریاں ادا کی، اور وہاں اپنے دورِ قیام میں دینی تعلیمی کونسل کے صدر بھی رہے۔دارالعلوم دیوبند کے اجلاسِ صدسالہ کے بعد 1984 ؁ ء میں آپ کے نام تقرری کے اعلان ہوا ،یقیناًیہ بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی تھی کہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند جیسے ادارہ نے خواہش ظاہر کی آپ وہاں تدریسی فرائض انجام دیں ،لیکن اپنے شاگر دِ رشید حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی ؒ ( بانی سبیل السلام ) کی خواہش اور اس علاقہ کی دینی ضرورت کے پیشِ نظر یہیں رہنے کو ترجیح دی اور اسی سرزمین پر علم وحکمت کے دریا بہاتے رہے اور تشنگانِ علوم کو سیراب کرتے رہے۔آپ نے تقریبا درسی کتابوں کو پڑھا یا جن میں بطور خاص بخاری شریف ،مسلم شریف ،ترمذی شریف،حجۃ اللہ البالغۃ ،ہدایت الحکمت وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
بحیثتِ امیر شریعت:
آپ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ریاست آندھراپردیش کے امیر شریعت منتخب کئے گئے ،2004 ؁ ء میں حشمت پیٹ ،سکندرآباد کے اجلاس میں امیر الہند حضر ت مولانا سید اسعد مدنی ؒ نے مشاورت کے بعدآپ کو ’’امیر شریعت ‘‘آندھراپردیش کے طور پر نامزد کیا ۔اور آپ کی باوقار شخصیت ہی کا اثرتھاکہ تادم آخر آپ اس عظیم منصب پر فائز رہے ،دارالقضا کے نظام کے لئے سعی و کوشش کرتے رہے ،اور شہر کریم نگر میں ’’شرعی فیصلہ کمیٹی‘‘ کے قاضی اور صدر کی حیثیت سے فیصلے فرماتے رہے ، آپ کی موجودگی سے بہت سے نزاعات اور اختلافا ت حل ہوتے اور بڑی باریک بینی سے معاملات کو حل فرماتے ،بطور خاص ،طلاق، خلع ، میراث وغیرہ کے مسائل ۔شہر کریم نگر میں اس ادارہ کوآپ ہی کی وجہ نام ومقام ملا اور اعتبار حاصل ہوا۔شرعی فیصلہ کمیٹی میں آپ کی خدمات طویل مدت پر پھیلی ہوئی ہے۔
مجلس علمیہ سے تعلق:
مجلس علمیہ ریاست آندھراپردیش کے علمائے حق کی نمائندہ اورترجمان تنظیم ہے،جس کا قیام 7 ذی الحجہ1392 ؁ھ م 13 جنوری 1973 ؁ ء کو عمل میں آیا ۔حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب اس کے رکنِ تاسیسی تھے ،اور بڑی گہری وابستگی رکھتے تھے ،مجلس کی میٹنگوں میں اور اس کے پروگراموں میں پابندی سے شریک تھے۔ 7/نومبر 2013 ؁ء بروز جمعرات کو ایک روزہ تربیتی نشست اور جلسہ عام بھی حضرت مولانا برکت اللہ خان قاسمی مدظلہ کی سرپرستی میں کریم نگر میں منعقد ہوا جس میں ریاست بھر کے علماء اور مجلس علمیہ کے اراکین عاملہ شریک ہوئے ،آپ کی بہت فکریں تھیں جس کی وجہ سے یہ اجلاس پوری ریاست کے دیگر اجلاسوں کے مقابلہ میں بہت کامیاب رہا۔
اخلاق وعادات:
اللہ تعالی جن سے بڑے کام لینا ہوتا ہے ان کو اچھے اخلا ق وعادات کا مالک بھی بناتے ہیں ،اور سیرت و کردار کی بلندیوں سے بھی نوازتے ہیں ،چناں چہ حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحبؒ بلند اخلاق او ر اعلی کردار کے انسان تھے ،برد بار اور حلیم طبیعت عطا کی تھی،باوقار اور وجیہ شخصیت سے سرفراز کئے گئے ،خوش مزاجی سے ملتے اور چھوٹوں کو بھی اپنا مدعا پیش کرنے کا پورا موقع دیتے ،ہر اچھے کام کی حمایت کرتے اور کرنے والوں کو منع نہیں کرتے۔اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’ اگر کوئی اچھا کام ہورہا ہو تو ہونے دینا چاہیے‘‘’’ اور اگر میری شرکت سے فائدہ ہوگا تو ضرور شریک ہوں گا‘‘ آپ کے حوصلہ افزائیوں کے سلسلہ میں بعض واقعات ذہن میں موجود ہیں لیکن ان کو کسی اور موقع سے ذکر کیا جائے گااس لئے کہ یہ تحریر طویل نہ ہوجائے۔ اللہ تعالی نے غیر معمولی علم اور حیر ت انگیز حافظہ عطا فرمایا تھا ،اسی لئے جب کسی موضع پر بولتے تو اس کا حق اداکرتے ،تحقیقی بات کرنا اور دلائل کی روشنی میں سمجھنا آپ کا خاص ملکہ تھا ،شہر ہونے والے اجتماعات اور عوامی جلسے اکثر آپ ہی کی سرپرستی اور صدارت میں منعقد ہوتے ۔
عہدے اور مناصب:
آپ سبیل السلام حیدرآباد کے صدر المدرسین ،اور شیخ الحدیث تھے ۔امیر شریعت آندھراپر دیش تھے ،علمائے آندھر پردیش کی موقر تنظیم ’’ مجلسِ علمیہ‘‘کے رکن تاسیسی تھے ،جمعیۃ علماء آندھراپردیش کے سرپرست اور رکن عاملہ تھے ،مجلس العلماء والحفاظ کریم نگر کے سرپرست اور ماہ نامہ الاصلاح کے سرپرستِ اعلی تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے مدارس اور تنظیموں کے سرپرست بھی تھے۔
انتقال پرملال:
آپ اگر چہ عمر کی اس منزل کو پہنچ چکے تھے جہاں بظاہر اعضا ء وجوارح میں کمزوری ،اور وقت وطاقت میں کمی آجاتی ہے لیکن شانِ خدا کہ اللہ تعالی نے آپ کو اسیّ کے دہے میں بھی بھر پور صحت سے نوازاتھا ،اچانک آپ کا انتقال کرجانا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا لیکن اللہ کا نظام ہے جو اس کی حکمت و مشیت کے مطابق برابر چلتا رہے گا جس میں کسی کو کچھ کہنے کی مجال نہیں ہے ،اور ہمارے پاس صبر ودعا ،تسلیم ورضاکے علاوہ کوئی سہارا بھی نہیں ہے ۔انتقال سے چند قبل تھوڑی کمزوری محسوس ہونے لگی تھی ،مجلس العلماء والحفاظ کریم نگر کی سالانہ مشاورتی نشست ( 27 مئی )میں سبھی نے اس کو محسوس بھی کیا ،انتقال سے دو دن قبل سانس کا مسئلہ بھی پیدا ہوا لیکن اتنا سنگین نہیں کہ جس سے کوئی یہ تصور کرے کہ یہ جان لیوا ثابت ہوگا۔مگر 28 شعبان 1437 ؁ ھ مطابق 5 جون 2016 ؁ ء صبح کی اولین ساعتوں میں نمازِ فجر کی ادائیگی کے دوران انتقال فرماگئے ۔آپ کے انتقا ل کی خبر ایک بجلی بن کر گری اور سبھی کے ہوش اڑادی لیکن تقدیر کے سامنے لب کشائی کی کسی کو بھی اجازت نہیں ۔’’سرکس گراؤنڈ‘‘ مکرم پورہ میں دن کے تین بجے ایک جم غفیر نے حضرت مفتی عبد الودود صاحب مظاہری ( صدر مفتی دارالعلوم سبیل السلام ) کی امامت میں نمازِ جنازہ ادا کی،اور مکہ مسجد( خان پورہ ) کے عقب میں واقع قبرستان میں اس عظیم محدث اور گنج گراں مایہ کو سپردِ لحد کیا گیا ۔آپ کے انتقال کی خبر سن شورش کاشمیر ی کے وہ اشعار ذہن میں تازہ ہوگئے جو انہوں نے امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کے انتقال پر کہے تھے ،ان میں سے ایک دو دبند یہاں میں بھی نقل کرتا ہوں۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہیں ، آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے ،افق پہ مہرِ مبیں نہیں ہے
تیر ی جدائی میں مرنے والے ، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انساں ، میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئے ہے ،زباں سے زورِ بیاں گیا ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے امیر کیا ، کارواں گیا ہے
مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔