ملک کی تقسیم کے زخموں کو کریدنے کی خوفناک سازش

جاوید جمال الدین

ہندوستان نے امسال  برطانوی سامراج سے اپنی آزادی کا 75 واں سال منایا ہے اور پڑوسی ملک پاکستان بھی اتنے ہی سال کا ہوچکا ہے، اس خطہ کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ 1947 میں  انگریزوں کے ملک چھوڑ کرجانے کے ساتھ ہی ہندوستان  دو حصوں میں بٹ گیااور ایک نیا ملک  پاکستان وجود میں آیا۔محض 2ٹ سال بعد اس کے بھی دو حصے ہوگئے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ملک کی آزادی کو 75 سال ضرورمکمل ہوچکے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ہی  برصغیر کو تقسیم کی اذیت سے بھی دوچار ہونا پڑاتھااور آج بھی لاکھوں متاثرخاندانوں کے سینے پر یہ زخم پایا جاتا ہے۔جسے ایک بار پھر کریدنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 دراصل لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بلکہ ایک روز قبل ہی وزیر اعظم نریندرمودی نے ٹوئیٹ کرکے یہ اعلان کیا کہ "تقسیم وطن کی تکلیف دہ یادوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا اور 14 اگست کو تقسیم کی ہولناک یادوں کے دن کے طورپر منایا جائے گا، ‘یہ دن ان لوگوں کی یاد میں منایا جائے گا، جنہوں نے تقسیم کے دوران قربانیاں دیں اور مصائب سے دوچار ہوئے۔تقسیم کی ہولناک یادوں کے دن کے طور پر یہ دن منانا ہمیں سماجی تقسیم اور منافرت کے زہر کو ختم کرنے کی ضرورت کی یاد دلاتا رہیگا۔ یہ ہمیں اتحاد کے جذبے، سماجی ہم آہنگی اور انسانوں کو بااختیار بنانے کے لیے حوصلہ افزائی بھی کرے گا۔”

پتہ نہیں ان ہولناکیوں کومنانے کا مقصد کیا ہے ، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم ایک تکلیف دہ امر رہا ہے۔اعدادقشمار کے مطابق اس دوران جانیں گنوانے والوں کی تعداد 10 لاکھ تھی ، لیکن غیر جانبدار مورخین کے مطابق یہ تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔ ہزاروں عورتوں اور لڑکیوں کا اغوا کر لیا گیا تھا اور ان کے عصمت تارتارکردی گئی، جبکہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے۔ یہ سب کچھ دونوں طرف ہوا تھا۔اسے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت بھی قرا ردیا جاتا ہے۔ 75برس گزرجانے کے باوجود دونوں ممالک، ہندوستان اور پاکستان کے عوام میں تقسیم وطن کی تلخ اور تکلیف دہ یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ انگریزوں کے ملک چھوڑ کر جانے کے ساتھ ہی متحدہ ہندوستان  دو حصوں میں بٹ گیا اوراپنے ساتھ تلخ یادیں اور واقعات چھوڑ گیا۔

ہندوستان میں اترہردیش، بہار، پنجاب اور راجستھان اور پاکستان میں پنجاب اور صوبے سندھ میں جوتشدد اور خون خرابہ پیش آیا، اسے بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔ہندوستان میں بڑی تعداد میں مسلمان خاندان ہیں جوکہ تقسیم سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ایسے سینکڑوں خاندان ہیں جو یہاں اور وہاں میں بٹے ہوئے ہیں۔میرے ننھیال کو راجستھان کے بھرت پور ضلع سے نقل مکانی کرناپڑا، میرے نانا اور ماموں تن کے کپڑوں میں گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام پر پہنچ گئے، وقت رہتے اہل خانہ عورتوں بچوں کو پہلے ہی ہٹ دیاگیا تھا۔جب میری نانی اور والدہ 70 کے عشرے میں تقسیم کی باتیں سناتی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔پھر تقسیم کی حقیقت تاریخی کتابوں اور افسانوں میں پڑھ کر دل دہل جاتا تھا، اس حقیقت کو جھٹلایا جاسکتا ہے، آج بھی کئی بزرگ حیات ہیں اور ایسے خاندان بھی جنہوں نے تقسیم کے درد کو جھیلا ہے۔

ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی سبھی نے آخری مغل شہنشاہ بہادر شہ ظفر کی قیادت میں لڑی تھی، جھانسی کی رانی لکشمی بائی اور مراٹھا رہنماء تارہا ٹوپے ایک جھنڈے تلے آگئے تھے، اس جدوجہد کی ناکامی کے بعد قتل وغارت گیری کا بازار گرم ہوا، لیکن بعد کے دور میں انگریزوں نے تعلیم اور سماجی سرگرمیوں کو عام کرنے کا فیصلہ کیا جس سے جدوجہد آزادی کا نیا رنگ و روپ مل گیا۔

دسمبر1885میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس ممبئی میں ہوا۔اور سست روی سے سب کچھ جاری رہا۔تاہم 1905 میں پہلی تقسیمِ بنگال کے بعد کانگریس نے اصلاحات کا مطالبہ تیز کر دیا اور آخرکار برطانیہ سے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی۔اس دوران  1906 میں ملک کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ کئی برسوں تک مسلم لیگ اور اس کے رہنماؤں نے ایک متحد اور آزاد ملک میں ہندو مسلمان اتحاد کے لیے مہم چلائی، لیکن پھر مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ زور پکڑگیا۔فروری 1938 میں مہاتماگاندھی اور قائد اعظم نے ملک میں مذہبی کشیدگی کا حل نکالنے کے لیے بات چیت شروع کی لیکن یہ بات چیت جولائی میں ناکام ہو گئی۔ دسمبر میں مسلم لیگ نے کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی شکایات کی تحقیق کے بارے میں ایک کمیٹی قائم کی۔یہیں سے خلیج بڑھ گئی۔

قیامِ پاکستان کی تحریک میں ایک اہم پڑاؤ 23 مارچ 1940 کو آیا۔ اسی دن برطانوی سامراج کے خلاف  مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی مسلم لیگ نے لاہور میں ایک تجویز پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک پوری طرح آزاد اور خودمختار ملک کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی۔

گاندھی اورجناح نے ستمبر 1944 میں مسلم لیگ کے پاکستان کے مطالبے پر بات چیت کی جو ناکام رہی۔ دونوں کے درمیان وجۂ اختلاف پاکستان کا مطالبہ تھا۔محمد علی جناح کا زور مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک یعنی پاکستان کے مطالبے پر تھا ، جبکہ مہاتما گاندھی صرف آزادی کی بات کرتے تھے، جس میں ملک  میں ہندو اکثریت والی عارضی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو ان کی الگ شناخت تسلیم کیے جانے کی ضمانت دی جائے۔اسی کشمکش کے دوران برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اعلان کیا کہ برطانیہ جون 1948 تک ملک چھوڑ دے گا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے کا عہدہ سنبھالیں گے۔24 مارچ کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے وائسرائے اور گورنرجنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا۔دراصل ہندوستانی رہنماؤں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ میں ہندوستانی فوجیوں کولڑنے کی اجازت آزادی کی شرط پردی تھی۔

بالاخر 1ڑ اور 15اگست کو آزادی کے ساتھ ہی برصغیر کی تقسیم بھی عمل میں آئی۔تقریباً سوا کروڑ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ ملک تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ تقریباً دس لاکھ لوگ تشدد میں مارے گئے جن میں مسلمان، ہندو، سکھ سبھی شامل تھے۔

ملک کی تقسیم کی ہولناکیوں کی یاد منانے کا فیصلہ کس حد تک درست ہے ، یہ مستقبل میں پتہ چلے گا ، کیونکہ مودی کے  اس اعلان پرحمایت اور مخالفت میں بھی ردعمل آرہے ہیں ہندوستان کے مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ سوری کا خاندان بھی تقسیم۔کا درد جھیل چکا ہے اور انہوں  نے ایک ٹوئٹ کرکے دن منانے کی حمایت کیکہ ”تقسیم کے دوران مصائب جھیلنے والے والدین کے ایک بچے کے طور پر میں وزیر اعظم کا انتہائی ممنون ہوں، جنہوں نے 14، اگست کو ‘تقسیم کے ہولناک یادوں کا دن‘ منانے کا اعلان کیا۔ یہ اس وقت کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انسانوں کو پہنچنے والے مشکلات کی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا۔” سوری نے اپنے والدین کے ساتھ تقسیم کے وقت پیش آنے والے مصائب اور بعد میں درپیش مشکلات کا بھی تذکرہ کیا ہے ۔جبکہ ایک اور وزیر ل نتن گڈکری نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ”یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دلائے گا کہ نفرت اور تشدد کسی مسئلے کا کبھی حل نہیں ہوسکتے۔ یہ سماجی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے تئیں حساس رویہ اپنانے کے لیے حوصلہ افزائی کرے گا۔”لیکن عوام۔میں ملا جلا ردعمل۔سامنے آیا ہےکہ اس کے ذریعہ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوشش کی جائے گی۔دقسعقں کا۔کہنا ہے کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے ہولنا ک فسادات کے بارے میں کیا رائے ہے؟ جبکہ  2020 میں شمال مشرقی دہلی میں بھیانک فسادات کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا اس طرح کا دن منانے سے ہندوستان کے عوام کوکوئی فائدہ ہوگا ، حالانکہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ تقسیم کی وجہ سے تقریباً سوا کروڑ لوگ اپنا گھر بار چھوڑکر ملک تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اورلاکھوں  لوگ تشدد میں مارے گئے جن میں مسلمان، ہندو، سکھ سبھی شامل تھے۔ گزشتہ ربع صدی میں ملک کے حالات یکسر بدل گئے ہیں اور حال کے 7 برسوں میں  منافرت اور فرقہ پرستی کے زہر کو بری طرح سے دل ودماغ میں گھول دیاگیا ہے ، اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا منافرت کم ہوگی حالانکہ سبھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس کی وجہ سے ایسے عناصر پیدا ہوجائیں گے ، جو مبالغہ آرائی اور تاریخ کو توڑمروڑ کر پیش کریں گے۔پہلے ہی چند عناصرسرگرم ہیں، جوکہ  ملک کی۔گنگاجمنی تہذیب ، ہم آہنگی اور اتحاد کے خلاف ہیں۔یہ وقت ہی بتائے گاکہ ہولناکیوں کی یاد منانے سے کس حد ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو فروغ ملے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔