ممتا سی بی آئی ٹکراؤ: اپوزیشن اتحادکا چہرہ مسخ کرنے کا داؤ 

سید منصورآغا

سی بی آئی کے نئے ڈائرکٹررشی کمار شکلا کے 4فروری بروز پیر اپنے منصب کا چارج سنبھالنے سے چند گھنٹہ قبل3فروری اتوار کی رات کارگزارڈائرکٹر کے تحت ایجنسی کی ایک ٹیم نے کلکتہ میں پولیس کمشنر راجیوکمار کی رہائش گاہ پردھاوابولا۔ پانچ افسران ایسے اندرداخل ہوگئے جیسے کسی فرارمجرم کا گھر ہو۔ اس ٹیم نے نہ تو مسٹرکمار کو اپنے آنے کی پیشگی اطلاع دی تھی اورنہ ان کے پاس کوئی باضابطہ وارنٹ تھا۔ اس کے بعد جس طرح سی بی آئی کے لوگوں کو مقامی پولیس نے حراست میں لیا اورممتا بنرجی فوراً حرکت میں آگئیں، دھرنے پر بیٹھیں اورآخر کار سپریم کورٹ نے سی بی آئی کی کاروائی کو مسترد کرتے ہوئے مسٹرکمار کو گرفتارکرنے سے سی بی آئی کو روک دیا، اوران کو ہدایت دی کہ وہ شاردا چٹ فنڈ اسکنڈل کی جانچ میں تعاون کریں، اس سے ایک اعلیٰ پولیس افسر کے خلاف سی بی آئی کی زیادتی ثابت ہوتی ہے۔ یہ خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں اس لیے یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں۔ ہم اسے ممتا کی فتح اورمرکزکی شکست کے بجائے سپریم کورٹ کے توسط سے آئین کی ایک اہم خصوصیت ’ملک کا وفاقی ڈھانچہ ‘ کے تحفظ کی صورت میں دیکھتے ہیں۔

سی بی آئی کا اعتبار مجروح:

سی بی آئی گزشتہ دنوں جس طرح اندرونی کھینچ تان چلی، اس کے معاملات میں دخل اندازی ہوئی ، حتیٰ کہ سرکار نے اپنے ناپسندہ سی بی آئی چیف کو ناپسندیدہ طریقہ اختیارکرکے منصب سے ہٹا دیا، اس سے بیشک سی بی آئی کاوقار اوراعتبارخاک میں مل گیاہے اوراس الزام کو تقویت ملی ہے کہ مرکز اس ایجنسی کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے اورکسی کے کرپشن کو دبانے کے لیے کررہا ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ مودی سرکار کے تحت سی بی آئی کو اس ہربڑی کی ضرورت کیا تھی جواس نے شاردھا معاملہ میں دکھائی؟

مودی سرکار کے تحت:

ہم نے اس کاروائی کو ’’مودی سرکارکے تحت‘‘ اس لیے کہا کہ اس کے فوراً بعد مودی کابینہ کے متعددوزیروں نے اپنے سیاسی بیانات سے اس کے سیاسی مقصد کو اجاگر کردیا اور بالواسطہ طورپر قبول کر لیا کہ یہکاروائی سیاسی تھی۔سی بی آئی وزار ت داخلہ کے تحت آتی ہے۔ چنانچہ حقائق سے متعلق وزیر داخلہ کا بیان کافی تھا۔ انہوں نے ایک محتاط بیان دیا۔لیکن مسٹرروی شنکرپرساد، محترمہ سیتھا رمن ، پرکاش جاوڈیکراورجناب مختارعباس نقوی نے سیاسی بیانات دئے اور ممتابنرجی کو ہدف تنقید بنایا۔ان پر بلاادنیٰ ثبوت کرپشن کا الزام لگایا۔ ا ن وزیروں کے علاوہ یوپی کے نائب وزیر اعلا کیشوپرساد موریہ، پارٹی کے جنرل سیکریٹری وجے ورگیہ سمیت کئی لیڈروں کے بیانات آئے اوران سب کا نشانہ ریاست کی خاتون وزیراعلیٰ ممتا بنرجی بنیں۔ اس کاصاف مطلب یہ نظر آتا ہے کہ سی بی آئی کی یہ کاروائی قانون کی عملداری نہیں سیاست کی مکاری تھی۔

اب یہ تیز ی کیوں؟

شاردھا چٹ فنڈگھوٹالہ کوئی کل کی باتنہیں۔مودی سرکارمئی 2014 میں اقتدار میں آئی۔ اسی ماہ سپریم کورٹ نے اس کی جانچ سی بی آئی کے سپرد کی۔ بھاجپا کے وزیروں اورپارٹی لیڈروں نے اس کے حوالہ سے ٹی ایم سی سربراہ ممتا بنرجی،ان کے قریبی لیڈرمکل رائے اوردوسروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن اسمبلی چناؤ میں اس مہم کا کچھ فائدہ نہیں پہنچا۔ممتا دو تہائی اکثریت سے واپس آگئیں۔اس کی وجہ یہ کہ بنگال کے عوام خوب سمجھتے ہیں یہ چھینٹا کشی ان لوگوں کی ہمدری نہیں جن کا پیسہ ڈوبا بلکہ محض سیاسی چپقلش ہے۔ اس کا ایک ثبوب یہ کہ ایک عرصہ تک بھاجپا کے نشانے پر رہے مسٹرمکل رائے اور سابق کانگریسی لیڈرہمنتا بسوا سرماوغیرہ جب بھاجپا میں شامل ہوگئے توان کے خلاف مہم تھم گئی۔ سی بی آئی نے بھی ان کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا اورکل تک جو اچھوت تھے وہ بھاجپا میں آتے ہی پاک صاف ہوگئے۔ روی شنکر پرسادسنگھ جو تنقید کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، مسٹررائے کی بھاجپا میں شمولیت تقریب میں موجود رہے اورپارٹی میں ان کا پرزور خیرمقدم کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ بھاجپا کی سیاست اصولوں کی نہیں بلکہ موقع پرستی کی ہے۔

اچانک یہ کیوں ہوا؟

 سوال یہ ہوتا ہے اب اچانک ممتا بنرجی کے خلاف یہ بکھیڑاکیوں کھڑا کیاگیا؟ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ ممتا کے این ڈی اے میں آجانے کی امیدوں پر پانی پھرجانے اوران کے اپوزیشن اتحاد کی آواز بن جانے سے پیدا ہوئی بوکھلا ہٹ ہے۔ پریڈ گراؤنڈ میں ان کی ریلی کی زبردست کامیابی سے بھاجپا کی انتخابی حکمت عملی بنانے والے فطری طور سے فکرمند ہیں۔ اس لیے ان کو ہرطرح نشانہ بنایا جارہا ہے کہ اگر ان کوزچ کردیا تو اپوزیشن اتحاد کی مضبوط کڑی کو نقصانپہنچے گا جس کا فائدہ لوک سبھا چناؤ میں ہوجائے گا۔اسی اندیشہ کو بھانپتے ہوئے دھرنے کے دوران ممتا کی تائید میں اپوزیشن کی کئی لیڈرکلکتہ پہنچے اور راہل گاندھی نے ممتا جی کو فون کیا، ان کی حمایت کا اعلان کیا حالانکہ وہ ان کی کلکتہ والی ریلی میں شریک نہیں تھے۔

کانگریس کی پٹنہ ریلی:

چندگھنٹے کے اندرنئے چیف مسٹرشکلا کے چارج لینے کا انتظارکئے بغیر اتوا کی رات میں سی بی آئی کی اس کاروائی کی کچھ اورمصلحتیں بھی نظرآتی ہے۔ اتوار کو ہی پٹنہ میں کانگریس کی ایک پرہجوم ریلی ہوئی جس میں راہل گاندھی کے علاوہ عظیم اتحاد کے لیڈر تیجسوی یادو، شرد یادو، جتن مانجھی وغیرہ کے علاوہ تین ریاستوں میں اسمبلی چناؤ میں منتخب کانگریس کے نئے وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے۔یقیناًاس سے کانگریس کیڈرکے حوصلے بڑھے۔ اسی دن کلکتہ میں بائیں بازوپارٹیوں کی مشترکہ ریلی میں تصورسے کہیں زیادہ عوا م کی شرکت نے مبصرین کو حیران کردیا۔ قیاس کیا جاسکتا ہے سی بی آئی کو استعمال کرکے اس اچانک کاروائی کا ایک مقصد ان دونوں ریلیوں کی خبروں کو دبادینا بھی تھا جو بڑی حد تک پورا ہوگیا۔

چٹ فنڈ کے مارے عوام اوربھاجپا:

آخری سوال یہ ہے کہ کیا بھاجپا واقعی چٹ فنڈ کمپنیوں میں سرمایہ لگاکرلٹ جانے والے غریبوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے؟ تو اس کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے۔ وجہ اس کی ایک دوسری چٹ فنڈ کمپنی ’’پیرل اگروٹیک کارپوریشن لمٹیڈ (PACL) ‘‘ کا کیس ہے جو شاردھا سے زیادہ سنگین ہے۔یہ کمپنی 1982میں قائم ہوئی۔ ملک بھر کے پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ افراد نے کچھ نفع کی امید میں اپنی گاڑھی کمائی اس میں لگادی۔ یہ کل سرمایہ 49ہزار100کروڑ روپیہ ہوتا ہے۔اس کمپنی نے ملک بھر میں سترلاکھ ایجنٹ بنائے۔ ان کی معرفت جن لوگوں نے پیسہ لگایا وہ انتہائی غریب ہیں۔کئی پیسہ لگانے والے اورایجنٹ خودکشی کرچکے ہیں۔ مسٹر ارن جیٹلی اس کمپنی کے قانونی مشیر تھے۔ یہ کمپنی 2014 میں، جب مودی جی برسراقتدارآئے بند کر دی گئی۔تین سال قبل 2فروری 2016کوسپریم کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ سنایا کہ سرمایہ کاروں کی رقم واپس کی جائے۔ اس حکم پر عمل درامد نہیں ہو رہا۔ چنانچہ اسحکم تین سال پورے ہوجانے پر اسی 2فروری کوکوئی پانچ ہزارافراد نے دہلی کی پارلیمنٹ اسٹریٹ پر ایک احتجاجی ریلی کی۔ جس میں شردیادو اورجگنیش موانی (گجرات ایم ایل اے) تو موجود تھے مگربھاجپا کا کوئی لیڈربلاوے کے باوجود نہیں آیا۔ اس سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ بھارتیہ سنسکرتی اوراخلاقی قدروں کی حفاظت کا دعواکرنے والی بھاجپا کواصل میں چٹ فنڈ کمپنیوں کے ڈسے ہوئے سرمایہ کاروں سے ہمدردی نہیں، بس سارا کھیل سیاسی ہے۔

مرکزی بجٹ:

 ہندستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ بجٹ سے پہلی اقتصادی سروے پیش نہیں کیا گیا ، جس سے ملک کی اقتصادی صحت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بھی پہلی بارہوا کہ کسی سرکار نے اپنی پانچ سال کی مدت میں پانچ کے بجائے چھ بجٹ پیش کئے ہوں۔ اس سرکار نے 2فروری کو جو بجٹ پیش کیا ، اس کو ’سرجیکل اسٹرائک‘ کہا گیا۔ سرجیکل اسٹرائک کس کے خلاف ہوئی؟بجٹ عوام کے لیے ہوتا ہے۔ مخالف کو تباہ کرنا مقصد نہیں ہوتا۔ یہ وضاحت ہونی چاہئے کہ مقصداپوزیشن کو نقصان پہنچانا ہے یاملک کی اقتصادی صحت کی بحالی ؟۔

بجٹ میں انکم ٹیکس کی شرحوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ گویا ٹیکس تو ڈھائی لاکھ کی آمدنی پرہی لگ جائے گا مگر جن لوگوں کی آمدنی پانچ لاکھ تک ہوگی اورجن کو ضابطہ میں ساڑھے 12ہزارروپیہ ٹیکس دینا ہوتا ہے ان کو سب سیڈی کے طوریہ رقم دی جائے گی، جس کو کسی بھی وقت واپس لیا جاسکت ہے۔ تضاد دیکھئے گیس سلنڈر جو ہرگھرکی ضرورت ہے،پہلے ساڑھے چارسو کا ہوتا تھا، اب نو سو تک پہنچ گیا اس کی سب سیڈی تو دی نہیں جارہی کہ عام عوام کو فائدہ پہنچے لیکن تھوڑے سے انکم ٹیکس دہندگان کو سب سیڈی دی جائے گی حالانکہ اگران کی آمدنی پانچ لاکھ سے ایک روپیہ بھی اوپرہوئی توپورا ٹیکس بھرنا ہوگا۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ڈائرکٹ ٹیکس کم لوگوں پر لگتا ہے۔ انڈائریکٹ کی زد ہر صارف پر پڑتی ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ اگرآپ ایک روپیہ کا بسکٹ کا پیکٹ بھی خریدتے ہیں توٹیکس اس پر بھی دینا پڑتا ہے۔ لیکن بجٹ میں عام باشندوں اورغریبوں کے لیے کوئی راحت نہیں۔ کسانوں کے لیے جس اسکیم کا اعلان کیا گیا اس سے ان کسانوں کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا جن کے نام پرزمین نہیں۔ یہ انوکھا بجٹ جس میں روپیہ کے خرچ کا توچرچا ہے، آمدنی اورخرچ میں توازن نہیں۔خسارے کا بجٹ جس میں تعلیم جیسے اہم شعبہ کے لئے مطلوبہ راحت کا دوردور پتہ نہیں۔ آج کی ہی خبر ہے کہ فوجی عملے کے ٹی اے ڈی اے میں بھی کٹوتی ہوگی۔ یہ بجٹ بھی بس دھوکے کی ٹٹی نظرآتاہے۔ جس طرح نوٹ بندی کے بعد ہوا بندھی تھی کہ کالے دھن پر لگام لگے گی اورجعلی کرنسی بند ہوگی اوردہشت گردوں کو کمرٹوٹے گی،مگرہوا کچھ نہیں ایسا ہی کچھ حال اس بجٹ کا ہوتا نظرآتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔