محبتوں کا فروغ

احتشام الحسن

(چکوال)

انسان خطا کا پُتلا ہے۔ عقل مند ہو یا بے وقوف، عالم ہو یا جاہل، لغزش سب سے ہوتی اور غلطی اور گناہ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس سے غلطی نہ ہوئی ہو اور نہ کوئی ایسا ہے جس نے صرف نیکیاں ہی کی ہوں۔ نیکی، بدی، خیر و شر، حق و باطل، وفا و دغا اور سچ و جھوٹ غرض سب متضاد چیزیں انسان کے مادے و خمیر میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا، مفہوم: ‘‘ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے اور وہ بھی ڈال دی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔ ’’( الشمس) اللہ تعالیٰ نے عفو و درگزر اور معافی و بردباری کو پیدا فرمایا اور اس کو اپنی صفات حسنہ میں سے ایک صفت بنا دیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے، مفہوم: ‘‘ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ’’ (الاحزاب)

اگر گناہ و خطا نہ ہوتی تو عفو و بردباری بھی نہ ہوتی۔ کسی بھی شخص کی بردباری کا علم غصے کے وقت اور اس کی سخاوت کا علم حاجت کے وقت ہوتا ہے۔ اگر رنگ ساز کے پاس سفید کپڑا نہ ہو تو کسی کو کیسے معلوم ہوگا کہ وہ رنگ ساز ہے۔ رسول کریمؐ کی شفاعت بھی دراصل گناہ گاروں اور خطا کاروں کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرمایا، مفہوم :‘‘ لوگوں کے ساتھ معافی اور عفو و درگزر والا معاملہ کرو، کیا تم یہ پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔ ’’(النور) اگر تم لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرو گے تو تمہارے ساتھ بھی اچھا معاملہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے تقویٰ کے اعلیٰ مراتب میں سے شمار کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم : ‘‘ اور معاف کرنا تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے۔ ’’ (البقرہ)اسی پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ اس پر اجر و انعام کا اعلان کیا اور وعدہ لیا، تاکہ باہمی محبت و مودت کو باقی رکھنے میں رغبت ہو۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم :‘‘جس نے معاف کیا اور صلح کی تو اس کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے، بے شک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ ’’ (الشوری)

معاف کرنے سے بندے کو دو انعامات ملتے ہیں، ایک تو یہ کہ لوگ اس کے مشکور و ممنون ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ اجر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ عموما لڑائی جھگڑوں اور باہم ناراضی کا سبب غصہ بنتا ہے۔ جو لوگ ایسے موقع پر غصے کو پی جاتے ہیں اور بردباری اور درگزر کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دیتے ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ نے محسنین کا لقب دیا ہے اور فرمایا کہ میں انہیں محبوب رکھتا ہوں، ارشاد خداوندی:‘‘ غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا اور محبت کرتا ہے۔ ’’ (آل عمران)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :‘‘ اپنے بھائی کے ساتھ مت جھگڑو۔ نہ ہی اپنے بھائی کے ساتھ مذاق کرو۔ ایسا وعدہ بھی نہ کرو جسے پھر پورا نہ کرسکو۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی:‘‘ عفو و درگزر کو لازم پکڑو، نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو۔ ’’ (الاعراف) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امین سے معلوم کیا، یہ کیا ہے ؟ حضرت جبرئیل نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا ہے کہ جو آپؐ سے ناطہ توڑے آپؐ اس سے ناطہ جوڑو، جو آپؐ کو نہ دے اسے عطا کرو اور جو آپؐ پر ظلم کرے اس سے درگزر فرماؤ۔ ’’ (بخاری)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا : ‘‘مشرکین مکہ کے لیے بددعا فرمائیں۔ ’’ آپؐ نے فرمایا: ‘‘ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ زحمت۔ ’’

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قوم کے لیے دعا فرمائی تو عرض کیا :‘‘ اے اللہ! میری قوم کو معاف فرما دے کہ یہ جانتی نہیں ہے۔ ’’ (مسلم)ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘ جسے غصہ آجائے اور وہ اسے ضبط کر جائے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ایسے شخص کے لیے لازم ہو جاتی ہے۔ ’’

حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں :‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سفر میں تھے۔ آپؐ نے چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ اس کے دونوں اطراف موٹے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چادر سے پکڑ کر جھٹکا دیا، یہاں تک کہ اس کے نشانات آپؐ کی گردن مبارک پر واضح دکھائی دینے لگے، وہ کہنے لگا:’’اے محمدؐ! جو کچھ اللہ نے آپؐ کو مال عطا کیا ہے اس میں سے مجھے کچھ دینے کا حکم صادر فرمائیں۔ ویسے بھی آپؐ مجھے اپنی ذاتی اور آباء و اجداد کے مال سے نہیں دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:‘‘ اسے مطلوبہ چیز دے دی جائے اور اسے کچھ بھی نہیں کہا جائے۔ ‘‘

 ایک روایت میں ہے :‘‘ قیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ جس شخص کا اللہ پر اجر واجب ہو وہ کھڑا ہو جائے۔ اس کے جواب میں کوئی شخص بھی کھڑا ہونے کی جسارت نہیں کر سکے گا۔ سوائے اس شخص کے جس نے دنیا میں عفو و درگزر والا معاملہ کیا ہوگا۔ ’’پس اگر کوئی معاف کردے تو وہ بھی اس مرتبے تک پہنچنے کی سعادت حاصل کرسکتا ہے۔ آج معاشرے میں لڑائی، جھگڑے، نفرت، ناراضگی اور بداعتمادی عام ہو رہی ہیں۔ اس کے سبب مختلف امراض اور بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مسائل کی زیادہ تر وجہ پریشانی اور افسردگی ہے۔ جسے ہم ہمہ وقت دل و دماغ پر سوار رکھتے ہیں۔ مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہوتا، جتنا ہم اسے سوچ کر اپنی طبیعت خراب کرلیتے ہیں۔ انسان خطاکار اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ اکثر غلطی بندہ جان بوجھ کر نہیں کرتا، بل کہ ہوجاتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم بلاجھجک معافی مانگ لیں، کہ یہی بڑا پن ہے۔ اس سے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوجاتا ہے اور پریشانی بھی کم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح معاف کرنے والے کو بھی چاہیے کہ وہ فراح دلی کا مظاہرہ کرے، غصہ پی جائے اور کھلے دل سے معاف کر دے۔ آج اگر ہم نے اپنے ماحول و معاشرے کو خوش گوار بنانا ہے تو ہمیں معافی کو عام کرنا ہوگا۔ اس سے محبتیں فروغ پائیں گی، رشتے مضبوط ہوں گے، دوست قریب ہوں گے، اعتماد پختہ ہوگا اور سکون اور چین سے بھرپور معاشرہ تشکیل پائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔