مودی سرکار سے سنگھ پریوار پر منڈلاتے خطرات

ڈاکٹر سلیم خان

آر ایس ایس کو بی جے پی کی مادر تنظیم  ہونے کا شرف حاصل ہے لیکن جب کوئی بچہ مودی جیسے خود سر مربی  کی  نگرانی  میں پروان چڑھے تو وہ  اپنے سرپرست کی کم ہی سنتا ہے۔ اس لیے مذکورہ  قانون پر سنگھ کے اعتراض کو کس قدر  قابلِ توجہ  سمجھا جائے گا  یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ویسے بھی موجودہ سرسنگھ چالک  موہن بھاگوت کی قیادت میں سنگھ کی حالت عجیب سی  ہوگئی ہے۔ وہ ایک دن جو کچھ کہتے ہیں  اگلے دن  بلکہ کبھی  کبھار اسی د ن  اپنا موقف بدل دیتے ہیں  ۔ مثلاً پچھلے دنوں انہوں نے  خلاف توقع دھرم سنسد پر تنقید کردی  حالانکہ انتخابی موسم میں  بی جے پی کی مرضی  کے بغیر اس طرح کی تقریب کا انعقاد ناممکن تھا۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جہاں وی ایچ پی اور آر ایس ایس نے دیر سویر اس سے پلہ جھاڑا، یوگی مودی یا شاہ نے اس پر لب کشائی سے گریز کیا یہاں تک کہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی زبان کھولنے  کی جرأت نہیں کرسکے۔ وہ  تو اگر سپریم کورٹ  میں جواب طلبی نہ ہوتی تو  گرفتاریاں بھی ہوتیں۔ اس طرح گویادھرم سنسد پر بی جے پی اورآر ایس ایس  کا اختلاف  کھل کر سامنے آگیا۔

سنگھ کے سربراہ  موہن بھاگوت نے ‘دھرم سنسد’ کے کچھ بیانات کی بابت  یہ وضاحت کی کہ وہ  "ہندوؤں کے الفاظ” نہیں تھے اور ہندوتوا کے پیروکاران سے  اتفاق نہیں کرتے۔ اسی بیان میں بھاگوت نے یہ بھی کہہ دیا کہ۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، یہ ایک ’ہندو راشٹر‘  ہے۔ اس سے قبل مسلمان سمیت سارے لوگوں کو ہندو کہہ چکے ہیں۔ سرسنگھ چالک کے ان متضاد بیانات کی روشنی یہ  فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے  کہ  آیا اس کا خیر مقدم کیا جائے یا اس پر تنقید کی جائے۔ آر ایس ایس سے  مرعوب لوگوں کا یہ خیال ہے کہ  ایسا جان بوجھ کر کیا جاتاہے   لیکن ایک ایسے وقت میں جبکہ سرکار بھی اپنی ہو یعنی کسی کارروائی کا خطرہ نہ ہو اور میڈیا بھی  ہر معاملے کو توڑ مروڈ کر اپنے حق میں کردیتا ہوتو اس کے متضاد  بیانی کی ضرورت ناقابلِ فہم  ہے۔ ایسے میں تو یہی ماننا ہوگا کہ وہ خود کنفیوز ہیں اس لیے  انہیں اپنے متضاد موقف کا ادراک ہی نہیں ہے۔  ان کی اس کیفیت  کا سب سے بڑا ثبوت اتر پردیش اسمبلی انتخاباتمیں  دو مرحلوں کے بعد  بی جے پی کی مایوس کن  کارکردگی کا  حوصلہ شکن اعتراف   ہے۔

اس بابت قابلِ توجہ یہ ہے کہ  سنگھ کی  اپنی ۵۵ ہزار شاخوں کے باوجود بی جے پی خراب حالت کا اندازہ آئی بی کی سرکاری رپورٹ سے ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے اس کے کارکنان نہایت نااہل ہیں  وہ ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر کہنے والے  جانے مانے سیاسی مبصرین کی آ راء سے بھی واقف نہیں ہیں۔  اس سے معلوم ہوتا ہے اول تو  ان لوگوں کو زمینی حقیقت کا علم نہیں ہے۔ دوسرے یہ کسی  جانکارکی بات پر توجہ  دینے کے بجائے خوابِ خرگوش میں مست رہتے ہیں اور اس وقت جاگتے ہیں جب  چڑیا کھیت چگ چکی ہوتی ہے ۔ وہ اس قدر ناقابلِ اعتماد ہیں کہ اپنے سربراہ کی ہدایت پر  خاموشی سے عمل  کرنے کے بجائے ذرائع ابلاغ میں اس  راز کو  فاش کرکے عام رائے دہندگان کے اندر بھی  مایوسی پھیلا دیتے ہیں۔ دورانِ انتخاب جو سنگھ اتنی بڑی حماقت کرکے  کمل کی شبیہ بگاڑ دے اس سے  مودی  اور شاہ کس قدر نالاں ہوں گے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔

ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود آر ایس ایس ایک  منظم تحریک ہے اور ہر سال مارچ  کے مہینے میں  اپنی کارکردگی اور حالات کا جائزہ لینے کی  خاطر اپنی  مجلس نمائندگان کا انعقاد کرتی ہے۔ پانچ صوبوں کے انتخابی نتائج 10؍ مارچ کو آنے والے ہیں اس لیے سنگھ کا مذکورہ اجلاس 11 تا13  مارچ کے دوران احمد آباد میں رکھا۔ اس کو   اگر اتر پردیش میں  کامیابی کا یقین ہوتا تو لکھنو میں رکھا جاتا۔ ویسے احمد آباد میں رکھنے کا جواز یہ ہے کہ آئندہ  جن صوبوں  میں انتخابات  کا انعقاد ہوگا  ان میں سب سے اہم گجرات ہے۔ وہاں اگر بی جے پی کی   شکست ہوجائے  تو ملک بھر میں اس کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ اس لیے مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے گجرات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ سالانہ نشست کی اہمیت  اس لیے بھی  ہے کیونکہ اس میں سنگھ پریوار کی 30 سے زیادہ تنظیمیں شریک ہوتی ہیں اور انہیں اپنے رہنماوں سے استفادہ کا موقع ملتا ہے۔

 سنگھ کی مجلس نمائندگان میں  اس بار سیاسی معاملات کے علاوہ کم عمر میں لڑکیوں  کی شادی کے خلا ف قانون کا  معاشرتی پہلو بھی زیر بحث آئے گا۔ آر ایس ایس کے خیال میں شادی کی عمر کے بارے میں  قانون سازی کرنے کے بجائے اس معاملے کو سماج پر چھوڑ دیا جانا کیونکہ  دیہاتوں  اور قبائل میں شادیاں جلدہوتی ہیں۔ سنگھ اس طرح کے معاملات میں سرکاری مداخلت کی حدبندی  کا قائل ہے اور ان  چیزوں کو معاشرے پر چھوڑ دینے کی وکالت کرتا ہے۔ قانون سازی کی بابت سنگھ کی رائے ہے کہ مجبور معاشرہ ہر شئے کے لیے قانون مانگتا ہے اس کے برعکس  مضبوط سماج ازخود اپنے مسائل کو حل کرتا ہے۔ جس طرح کم حکومت  کے سبب حکمرانی بہتر ہوتی ہے اسی طرح سماج بھی (بہتر ہوتا ہے)۔ یہ معقول بات ہے لیکن ملک میں  یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرتے وقت ان  کی  یہ معقولیت غائب ہوجاتی ہے۔ اس وقت نہ جانے کہاں سے  ملک کی سالمیت  اور اتحاد زیر بحث آجاتا ہے حالانکہ پرسنل لاء کا تعلق  دین کے معاملے میں زور زبردستی کرنے کے بجائے مذہبی  امور میں  آزادی سے ہے۔

آر ایس ایس معقول باتیں کرتے کرتے کس طرح بہک جاتا اس کا اندازہ  حجاب کی بابت  سنگھ کا خیالات سے بھی  لگایا جاسکتا ہے۔ سنگھ کے مطابق   اس معاملے کو بلاوجہ طول دیا گیا۔ اس سے مسلمان سیاسی اعتبار سے متحد ہوگئے۔ اسے مقامی سطح پر حل کرلیا جانا چاہیے تھا۔ اس لیے حجاب پر بھی مجلس نمائندگان میں    تفصیلی گفتگو ہوگی۔ حجاب کی بابت سنگھ کا خیال ہے کلاس کے اندر حجاب پہننے کے  معاملہ کو ضرورت سے زیادہ بڑھا دیا گیا۔ سنگھ نے جان بوجھ کر  اس کو نہیں اٹھایا۔ اس کے  ساتھ سنگھ  یہ بھی کہتا ہے کہ  مذہبی تشخص پر اصرار مناسب نہیں ہے۔ یہ بات اگر کوئی اشتراکی کہے تب تو ٹھیک ہے لیکن ہندو راشٹر کی علمبردار  تنظیم  جو درسگاہوں میں سوریہ نمسکار کی حامی  ہو اگر اس موقف  کااظہار کرے توہنسی آتی  ہے۔ اس کے معنیٰ یہ نکلتے  ہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کے مذہبی تشخص کو برداشت  کرنے کا روادار  نہیں ہے۔

 حجاب کے معاملے میں سنگھ پوری طرح  پاپولر فرنٹ کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اس کے خیال میں پی ایف آئی  اپنا حلقہ ٔ اثر بڑھانے کے لیے اسے اچھال رہا ہے حالانکہ اگر درسگاہوں کا انتظامیہ اپنے موقف میں   لچک پیدا کرتا، صوبائی سرکار احمقانہ سرکولر نہیں نکالتی، وزراء غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دیتے اور ہندوتواکے حامی اوباش غنڈے اگر مسکان جیسی طالبات کو ہراساں نہیں کرتے تو یہ معاملہ عالمی سطح تک نہ جاتا۔ یہ سبھی لوگ چونکہ سنگھ کے ہمنوا ہیں اس لیے انہیں چھوڑ کر پاپولر فرنٹ  پر نزلہ اتارنا سراسرزیادتی  ہے۔  حکومت کو  لڑکیوں کے نکاح کی عمر میں اضافہ سے منع کرنے والا سنگھ پریوار شہری ترمیمی قانون (سی اے اے)  کا حامی ہے۔ اس کے اندر عدم مساوات کا پہلو اس کو نظر نہیں آتا کیونکہ تفریق و امتیاز کا شکار مسلمان عوام اور مسلم ممالک  ہوتے  ہیں۔ مسلمانوں کی دشمنی   میں  سنگھ کو چین ، سری لنکا اور میانمار میں ہندو مظلومین بھی  نہیں نظر آتے۔ اسی طرح سنگھ این آر سی کی بھی حامی ہے اور اس سلسلے میں ملک کے غریب لوگ کن صعوبتوں میں مبتلا ہوجائیں گے اس کا احساس   اسے نہیں ہے۔

سنگھ پریوار کی فکری اساس اور مضبوط کردار کو مودی سرکار نے  نادانستہ طور پر بہت بڑا نقصان پہنچایا اور معاشرے میں اس کی ساکھ بری طرح  مجروح ہوئی ہے۔اس سے قبل  بہت سارے بھولے بھالے عوام  خوش فہمی کا شکار تھے کہ اگر ان  زعفرانیوں کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور آجائے گی تو ملک نہ صرف خوشحال ہوجائے گا بلکہ عالمی سطح پر اس کو  وشو گرو تسلیم کرلیا  جائے گا۔ اس کی دھاک سارے عالم میں محسوس کی جائے گی لیکن مودی سرکار نے اپنے دس سالوں میں وہ ساری خوش فہمیاں دور کردی ہیں۔ یہ پچھلے ستر سالوں کی سب سے ناکام حکومت ثابت ہوئی ہے۔ اس نے چند سرمایہ داروں کا آلۂ کار بن کر ملک کی معیشت تباہ کردی ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اس لیے اب  لوگ اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے  ہیں۔ اس طرح سنگھ کے سو سالوں کی محنت پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ اپنے وجود کی جنگ لڑرہا ہے لیکن یہ ظاہری تبدیلیاں اس کا وقتی فائدہ تو کریں گی مگر دور تک ساتھ نہیں دے سکیں گی۔ اس کو اپنی فسطائی  نظریات فکر پر غور وخوض کرکےر اہ راست کی جانب پیش رفت کرنی ہوگی  ورنہ  تاریخ انسانی کے ظالموں اور فاسدوں کی عبرتناک انجام میں وہ بھی ایک اضافہ بن کر رہ جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔