دو بدو : ایک مطالعہ

کامران غنی صبا

ادب سے وابستہ شخصیات اور ان کے فن کو سمجھنے کے لیے انٹرویو سے زیادہ مؤثر شایدکوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ ہرچند کہ سوانح، خود نوشت سوانح اور خاکے بھی شخصیات اور فن کی تفہیم و تعبیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن سوانح اور خاکوں میں شخصیت اور فن کے وہی پہلو ہمارے سامنے آ پاتے ہیں جو سوانح یا خاکہ نگار کے علم میں ہوں۔ خود نوشت میں مصنف بعض حقائق کو چھپا سکتا ہے،  ان واقعات کو زیادہ اہمیت دے سکتا ہے جن سے اس کی شخصیت اور فن کے مثبت پہلو سامنے آئیں۔ سوانح نگاری، خود نوشت سوانح نگاری اور خاکہ نگاری میں پہلے سے یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ فن اور شخصیت کے کن پہلوئوں کو نمایاں کرنا ہے، کن پہلوئوں کا ذکر جزوی طور پر کرنا ہے اور کن پہلوئوں کو یکسر چھوڑ دینا ہے۔ انٹرویو میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ سوال پوچھنے والااگر انٹرویو کے فن میں مہارت رکھتا ہے تو وہ انٹرویو دینے والے کی زبان سے کئی ایسی باتیں کہلوا دیتا ہے جن کا اظہار وہ عام حالات میں نہیں کر سکتا۔

"دو بدو” انور آفاقی کے لیے ہوئے انٹرویو کا ایک ایسا ہی مجموعہ ہے جس میں مشاہیر علم و ادب کی مختلف جہات کو غیر رسمی گفتگو کے ذریعہ کھولنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ انور آفاقی کا نام علم و ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج ہرگز نہیں ہے۔ آپ ایک اچھے افسانہ نگار، عمدہ شاعر، صاحب طرز انشا پرداز کے طور پر دنیائے علم و ادب میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ "دو بدو” سے قبل آپ کا ایک شعری مجموعہ” لمسوں کی خوشبو”،ایک افسانوی مجموعہ” نئی راہ نئی روشنی”، ایک سفرنامہ "دیرینہ خواب کی تعبیر” اور پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے انٹرویو پر مشتمل ایک سہ لسانی کتابچہ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر دانشورانِ علم و ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔

"دو بدو” میں نو ادبی شخصیات کے انٹرویو شامل ہیں۔ ان کے اسمائے گرامی ہیں: پروفیسر آفتاب احمد آفاقی، خلیق الزماں نصرت، ڈاکٹر سلیم خان، شمیم قاسمی، پروفیسر عبدالمنان طرزی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ڈاکٹر منصور خوشتر، نور شاہ اور وحشی سعید۔ یہ سبھی شخصیتیں ادب کی دنیا میں اپنا تعارف آپ ہیں۔ ان میں سے بعض شاعر ہیں، بعض صحافی، بعض تنقید نگار اور محقق۔ یہ سبھی نام ادب و صحافت کی دنیا میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں اس مقام تک پہنچنے کے لیے کن کن منزلوں سے گزرنا پڑا، کتنے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، یہ سمجھنے کے لیے "دوبدو” کا مطالعہ انتہائی مفید ثابت ہوگا۔

"دو بدو” میں شامل پہلا انٹرویو پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کا ہے۔ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو ہیں۔ آفتاب احمد آفاقی اپنی بے لاگ تنقیدکے لیے مشہور ہیں۔ تحریر ہو یا تقریر وہ اپنی بات پوری معروضیت کے ساتھ حقائق و شواہد کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں مصلحت اندیشی برائے نام بھی نہیں ہے۔ انور آفاقی نے آفتاب احمد آفاقی سے ذاتی نوعیت کے کچھ ایسے سوالات بھی پوچھے ہیں جن کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ادبی دنیا کی عیاریوں اور منافقت کو عیاں کیا ہے۔ آفتاب احمد آفاقی نے ادبی دنیا کی کئی اہم شخصیات کے نام لے کر اپنی آپ بیتی بیان کی ہے۔ آفتاب احمد آفاقی ایک سنجیدہ ناقد ہیں۔ ان کی گفتگو کا انداز بھی سنجیدہ ہوتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی کتاب "افسانے کی حمایت میں” کو مشہور ناقد وارث علوی نے فکشن کی تنقید کا المیہ کہا تھا۔ وارث علوی کی اس رائے سے آفتاب احمد آفاقی نے کتنا اتفاق رکھتے ہیں،  اس کا جواب خود آفاقی صاحب کی زبان سے سنیے:

"وارث علوی ہمارے عہد کے ایک وسیع المطالعہ اور بین العلومی نقاد ہیں تاہم تنقید میں انھوں نے جو زبان استعمال کی ہے وہ اکثر تنقیدی نہیں کہی جاسکتی۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ تنقید کی زبان ریاضی کی طرح دو دو چار کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہاں لفظوں کی بازی گری اور تاریخی و فلسفیانہ موشگافیوں کے طور مار باندھنے سے آپ کسی مفروضہ کو رد نہیں کر سکتے۔یہاں دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وارث علوی کی تنقیدی زبان کے چٹخارے سے قاری لطف اندوز ہو سکتا ہے یا ازراہ تفنن پڑھ سکتا ہے، ممکن ہے قہقہے بھی لگائے لیکن ہمیں اس نوع کی تنقید سے حاصل کیا ہوتا ہے؟”

آفتاب احمد آفاقی کے اس انٹریو سے معلوم ہوا کہ ان کی ادبی زندگی کا باضابطہ آغاز روزنامہ پندار، پٹنہ کے ادب ایڈیشن سے ہوا۔ جب وہ بی اے سال اول میں تھے تو ان کا مضمون "ادب برائے زندگی” اگست 1986 کے کسی شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ چونکہ پندار سے میری بھی وابستگی رہی ہے، اس لحاظ سے یہ اطلاع میرے لیے بہت ہی اہم ہے۔

"دو بدو” کا دوسرا انٹرویو خلیق الزماں نصرت سے لیا گیا ہے۔ خلیق الزماں نصرت یوں تو اپنی شاعری کی وجہ سے معروف ہیں لیکن ان کی تحقیقی کتاب "برمحل اشعار اور ان کے ماخذ”کی اشاعت کے بعد انھیں بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ شمس الرحمن فاروقی، ندا فاضلی، حنیف نقوی جیسے دانشوران ادب نے  خلیق الزماں نصرت کی اس تحقیقی کاوش کی ستائش کی۔ اس موضوع پر کام کرنے کی تحریک کب اور کیسے ملی، اور اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کن کن مراحل سے گزرنا پڑا، ان تمام سوالات کے جواب اس انٹرویو میں موجود ہیں۔

ڈاکٹر سلیم خان کا شمار ایک اچھے فکشن نویس کے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ سیاسی تجزیہ نگار اور مبصر کے طور پر ہوتا ہے۔ ان کا مذہبی شعور بھی انتہائی بالیدہ ہے۔سلیم خان جس طرح اپنے مضامین اور تجزیوں میں غیر ضروری مباحث سے گریز کرتے ہیں، اسی طرح انور آفاقی کے سوالات کے جواب میں بھی انھوں نے انتہائی اختصار سے کام لیا ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان کی گفتگو کا غیر رسمی انداز متاثر کن ہے۔

"دو بدو” کو چوتھا انٹریو شمیم قاسمی سے لیا گیا ہے۔ شمیم قاسمی جدید اردو شاعری کا ایک معتبر نام ہے۔بطور افسانہ نگار اور ناقد بھی وہ اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ شمیم قاسمی کا تعارف پیش کرتے ہوئے انور آفاقی کہتے ہیں:

۔۔۔۔” لوگ کہتے ہیں کہ وہ موڈیل فن کار ہیں، اپنی شرطوں پر جیتے ہیں اور ملنے جلنے کے سلسلے میں ان کے اپنےتحفظات ہیں”

انور آفاقی نے سوالات پوچھنے کے دوران کہیںبھی تعلق اور تکلف کو آڑے نہیں آنے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انٹریو پڑھتے ہوئے صرف معلومات میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ کہیں تجسس، کہیں ادبی لطف اور کہیں مزاح جیسی کیفیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ شمیم قاسمی سے پوچھا گیا ایک براہ راست سوال اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں:

"انور آفاقی: کیا آپ کو عشق کا روگ بھی لگا ہے۔۔۔؟ یہ سوال میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ کامیاب شاعری وہی کر سکتا ہے جس نے عشق کیا ہو۔”

"شمیم قاسمی: ہمارے بزرگوں کا ایسا ماننا ہے کہ عشق کہتے ہیں جسے وہ خلل ہے دماغ کا۔ البتہ ہماری نسل کے لوگ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ایک گہری اور ٹھندی آہ بھرتے ہوئے واقعی پرزور طریقے سے یعنی بھونپو بجا کر اس کا اعتراف کیے بیٹھے ہیں کہ عشق واقعی ایک لاعلاج روگ ہے   ؎

یہ اچھا ہوتا کہ ہم شعر ویر ی کہتے

یہ عشق وشق یقیناً ہے کام جھنجٹ کا

مجھے تسلیم ہے کہ کوئی روگ بے سبب نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ فرائڈ اور اس کے مقلدین کی رائے میں جب جبلت براہ راست تسکین نہیں پاتی ہے تووہ تسکین Spritual Satisfaction)) کے دوسرے ذرائع ڈھونڈھ لیتی ہے۔ شاعری یا فنی تخلیق بھی شاید اسی طرح کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ "

اسی سوال کا جواب بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی بالکل دوسرے ہی انداز میں دیتے ہیں کہتے ہیں:

"میں اس مفروضے سے جزوی طور پر اتفاق کرتا ہوں۔ بہتیرے بڑے شاعر ہیں جن کا کوئی معشوق نہیں۔ آپ غالبؔ کے معشوق کا نام بتائیے۔ کیا ان کی شاعری بڑی نہیں ہے؟ اقبال کے معشوق کو نامزد کیجئے۔ کیا ان کی شاعری بڑی نہیں(خواہ مخواہ عطیہ فیضی کو اس زمرہ میں مت لائیے)۔۔۔۔۔۔ شاعری کے لیے چوٹ کھایا ہوا دل ضروری ہے۔ اب یہ چوٹ مختلف صورتوں میں ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔یاس، محرومی، غم روزگار، گردشِ حیات، بے وفائی، اپنوں کی بدسلوکی وغیرہ ان کی تکمیل اور عدم تکمیل، دونوں سے غم اور خوشی کی دولت حاصل ہوتی ہے۔ بڑی فارغ البالی میں بھی اچھی شاعری ہو سکتی ہے اور انتہائی مایوسی اور محرومی میں بھی۔”

بقول ڈاکٹر عبدالحئی انور آفاقی نے اپنے کچھ سوالات میں انٹرویو دینے والے کو اکسایا ہے۔ پروفیسر طرزی اردو شعر و ادب کا ایک معتبر اور معزز نام ہے۔ 2012  ء میں انھیں صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں صدارتی ایوارڈسے نوازا جا چکا ہے۔ اس ایوارڈ کی تفصیل بتاتے ہوئے طرزیؔ صاحب نے بعض ایسی باتیں بھی کہہ ڈالی ہیں جن کا ذکر ان کی زبان سے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ یقیناً اسے ان کی سادہ لوحی اور صاف گوئی ہی سمجھا جائے گا۔ پروفیسر طرزی سے لیا ہوا انٹرویو بہت ہی تفصیلی، دلچسپ اور معلوماتی ہے۔

ڈاکٹر مجیر احمد آزاد کا شمار بہار کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانے ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد کا ادبی نظریہ بہت ہی واضح ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا کمرشیل ادیب یا فنکار ہونا جرم ہے؟ وہ کہتے ہیں:

"نہیں بھائی! ایسا کیا ہے۔ ادیب و فنکار کی بھی زندگی ہوتی ہے۔ اس کے مسائل ہوتے ہیں۔ خاندان و کنبہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اس لیے معاش کی اہمیت ہے۔ اپنے قلم سے معاشی ضرورتوں کو پورا کرنا میرے خیال میں گناہ نہیں ہےبلکہ اس طرف توجہ دینے سے ادباء کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔”

ڈاکٹر منصور خوشتر نئی نسل سے تعلق رکھنے والے بہت ہی فعال صحافی و ادیب ہیں۔ ان کی شخصیت کئی اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ ان کی ادارت میں شائع ہونے والاسہ ماہی ادبی رسالہ دربھنگہ ٹائمز پوری دنیا میں پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ المنصور ٹرسٹ کے زیر اہتمام انہوں نے کئی چھوٹے بڑے پروگرام کروائے ہیں۔ ان کی اب تک کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ انور آفاقی نے منصور خوشتر سے کئی ایسے سوالات پوچھے ہیں جس سے ان کی ادبی و صحافتی سرگرمیوں کا پتہ چلتا ہے۔

نور شاہ اور وحشی سعید کشمیر سے تعلق رکھنے والے بہت ہی معروف فکشن رائٹر ہیں۔ ان دونوں کے انٹرویو کتاب میں شامل دوسرے انٹرویو کی بنسبت مختصر ہیں۔ تاہم ان دونوں انٹرویو سے بھی کئی اہم باتیں سامنے آتی ہیں۔

"دو بدو” کے انٹرویو پڑھنے کے بعد عصری ادبی منظرنامے کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ البتہ انٹرویو میں شامل شخصیات کی ترتیب کس اعتبار سے کی گئی ہے، یہ میری ناقص سمجھ سے باہر ہے۔ ممکن ہے حروف تہجی کا لحاظ کیا گیا ہو تاہم محض نو شخصیات کی فہرست سازی کے لیے حروف تہجی کی جگہ  میرے خیال سے حفظ مراتب کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا۔ 176 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دربھنگہ ٹائمز پبلی کیشنز اور ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس نے مل کر شائع کی ہے۔ کتاب کی قیمت 200 روپے مناسب ہے۔

مصنف کا رابطہ نمبر:9931016273

تبصرے بند ہیں۔