مودی سرکار کے مقرر کردہ گورنروں کا کردار

عبدالعزیز

جس طرح مرکز میں حکومت کام کر رہی ہے جو نہ دستور کا پاس رکھتی ہے اورنہ آئین و انسانیت کا لحاظ رکھتی ہے اسی طرح اس کے مقرر کردہ گورنرز ریاستوں میں من مانی کر رہے ہیں اور آر ایس ایس کے پرچارک اور بی جے پی کے لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پروفیسر تتھا گت رائے تریپورہ کے گورنر ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر اپنے بیانات سے اپنی زعفرانی شکل و صورت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔ ایک سال پہلے انھیں یعقوب میمن کے جنازے میں سارے شرکاء دہشت گرد نظر آئے۔ کلکتہ میں بھی وہ دنیا کے سارے مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے اور بتانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ قرآن و اسلام پر بھی بے شرمی کے ساتھ حملے کرتے تھے۔

راقم نے ایک مذاکرہ میں گورنر موصوف سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ قرآن کا مطالعہ کئے ہیں؟ جواب میں انھوں نے کہاکہ’’ نہیں‘‘۔ پھر میںنے ان سے کہاکہ آپ پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ پڑھے لکھے آدمی میں کسی کتاب کو پڑھے بغیر نکتہ چینی کرتے ہیں، کیا آپ جیسے پڑھے لکھے فرد کو زیب دیتا ہے؟ وہ وہ خاموش ہوگئے؟ مذاکرہ کے آرگنائزر مسٹر او پی شاہ کو میںنے کہاکہ میں مسٹر رائے سے الگ سے اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے بارے میں تفصیلی بات کرنا چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب نے اپنے گھر میں انھیں آنے کی دعوت دی۔ تقریباً دو گھنٹے تک میں نے اپنی استطاعت کے مطابق ان کے سارے شبہات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اسلام و قرآن کے بارے میں اپنی عدم واقفیت کا اقرار بھی کیا مگر جب بھی بیان دیا تو اس میں رتی بھر بھی فرق نہیں آیا۔

       ابھی ابھی انھوں نے ایک بیان دیا ہے جو گورنر کیا بی جے پی کا سڑا ہوا کا رکن بھی اس طرح بیان نہیں دیتا۔ بیان میں انھوں نے ہندو مہاسبھا کے لیڈر شیاما پرشاد مکھرجی کے حوالے سے کہا ہے کہ ہندو مسلمان کا مسئلہ بغیر خانہ جنگی کے حل نہیں ہوسکتا۔ اس بیان پر تریپورہ کی حکومت نے پروفیسر رائے کی مذمت کی اور انھیں تریپورہ سے ہٹانے کی مانگ کی مگر مرکز کو تو تتھا گت رائے چاہئے جو الٹا پلٹا بیان دے اور مودی کے دل کو خوش کردے ممکن ہے وہ ان بیانات سے مزید ترقی کے خواہاں ہو۔ کسی بڑی ریاست کا گورنر بننا چاہتے ہیں۔

       مغربی بنگال کے گورنر مسٹر کیسری ناتھ ترپاٹھی بھی اپنے اصلی رنگ روپ میں آگئے ہیں۔ اگر چہ وہ وکیل رہ چکے ہیں مگر وہ آئین اور دستور کا احترام کرنے سے قاصر ہیں۔ بدوریا (بشیر ہاٹ، مغربی بنگال) میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سازش سے فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا۔ حکومت نے گیارہوں جماعت کے طالب علم کو جو فیس بک پوسٹ میں متنازعہ تصویر ڈال کر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا تھا اسے فوراً گرفتار کرلیا۔ حکومت مغربی بنگال نے حالات کو قابو کرنے کی ہر طرح کی کوشش کی۔ پارا ملٹری فورسز کو بھی تعینات کر دیا۔ ان سب کے باوجود جب مغربی بنگال بھاجپا کا وفد مسٹر ترپاٹھی کے پاس پہنچا تو وفد نے اس قدر گورنر صاحب کا کان بھرا اور ان کی شان میں قصیدہ پڑھا کہ وفد کے سامنے ہی وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی سے فون پر دریافت کیا کہ بدوریا کے حالات سے انھیں آگاہ کیا جائے۔ وہ لا اینڈ آرڈر کے مسئلے میں خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔محترمہ ممتا بنرجی نے یہ بھی کہاکہ گورنر نے انھیں دھمکانے اور ڈرانے کی بھی کوشش کی۔

مسٹر کیسری ناتھ ترپاٹھی سے پہلے مسٹر نرائنن اور مسٹر گوپال کرشن گاندھی مغربی بنگال کے گورنر رہ چکے ہیں۔ ایسے حالات میں ان لوگوں نے حکومت کے چیف سکریٹری کو بلاکر حالات معلوم کرتے تھے یا ہوم سکریٹری سے حالات کی جانکاری حاصل کرتے تھے۔ مسٹر کیسری ناتھ ترپاٹھی الہ آباد ہائی کورٹ میں وکالت کرتے تھے۔ بھاجپا کی سرکار میں اتر پردیش اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں۔ اس وقت بھی موصوف متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے تھے اور جانبدارانہ مظاہرہ کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔

       محترمہ بیدی جو آئی پی ایس ہیں وہ پانڈیچری کی گورنر ہیں۔ ان کابھی حال مذکورہ گورنروں جیسا ہے۔ ان سے بھی وہاں کی حکومت تنگ آچکی ہے۔ وہ بھی جے پی کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں ۔ جتنے ریٹائرڈ لوگ ہیں ان کیلئے مودی سرکار نے راج بھون کو آرام گھر (Rest Home) بنا دیا ہے۔ وہ بیٹھے بیٹھے کوئی نہ کوئی حرکت کرتے رہتے ہیں۔ اتر کھنڈ اور ہماچل پردیش کی حکومتوں کو گرانے کا کام وہاں کے گورنروں نے کیا تھا جسے سپریم کورٹ نے بعد میں بحال کیا۔ گوا میں اسمبلی ممبران کانگریس کی تعداد زیادہ تھی مگر گوا کے گورنر نے بھاجپا کو سرکار بنانے کی دعوت دی اور وہاں بھاجپا کی سرکار بن گئی۔ یہی حال منی پور میں ہوا۔ بھاجپا مغربی بنگال اسمبلی کے انتخاب میں دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی مگر کانگریس اور سی پی ایم کی حالت پہلی جیسی نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی خواب دیکھ رہی ہے کہ وہ حکمراں جماعت کے مقابلے میں حزب اختلاف (اپوزیشن) کا رول ادا کرے۔ بھاجپا کا حوصلہ اس لئے بلند ہے کہ مرکز میں جو حکومت ہے اس کو اس کا سہارا ہے کہ مرکز میں جو حکومت ہے اس کو اس کا سہارا ہے اور دوسرا سب سے بڑا سہارا گورنر ہے جو بھاجپا کی جانبداری کر رہا ہے۔ بقول ممتا بنرجی بھاجپا کا بلاک پریسیڈنٹ (صدر) بنا ہوا ہے۔

       گورنر مرکزی سرکار کا نامزد نمائندہ ہوتا ہے جبکہ ریاست میں منتخب حکومت (Elected Govt.) ہوتی ہے۔ وہ عوام کی چنیدہ ہوتی ہے۔ اگر ایک فرد جسے دستور نے محض نمائندگی کا حق دیا ہے حکمرانی کرنے لگے تو سراسر دستور کے منافی ہے۔ مرکز میں صدر کا انتخاب اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ممبران کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ سلطنت یا ملک کا نمائندہ ہوتا ہے، وہ حکمراں نہیں ہوتا۔ عام طور سے دستور کے جانکار صدر کا ربر اسٹامپ کہتے ہیں۔ یہی بات گورنروں پر بھی صادق آتی ہے۔ اگر مرکز میں صدر یہی کام کرنے لگے جو ریاستوں میں حکومت کے مقرر کردہ گورنر کر رہے ہیں تو آج مسٹر نریندر مودی کو صدر مجرم کے کٹگھرے میں کھڑا کر دیتا کیونکہ ملک کی صورت حال نظم و نسق کے لحاظ سے نہایت بدتر ہے۔ آئے دن گائے اور گوشت کے بہانے کسی نہ کسی پر جان لیوا حملہ ہورہا ہے۔ پورے ملک میں خوف و دہشت کا ماحول پایا جاتا ہے۔ بھاجپا سرکار کے نامزد گورنروں کو ملک بھر کی حالت پر بھی نظر ہونی چاہئے کہ ان کے آقا کی سرکار کا کیا حال ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔