بکھر ے ہوئے مخالفوں کے لئے پہلے ایک ایجنڈہ

حفیظ نعمانی

مودی سرکار کی عمر تین سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اب تک وہ بے لگام گھوڑی کی طرح من مانے راستوں پر سفر کررہی ہے۔ جسے حزب مخالف ہونا تھا وہ نہ تین سال پہلے سیدھی کھڑی ہوپاتی تھی اور نہ اب اس کی ٹانگوں میں دم ہے۔ اس کے باوجود اس کے دماغ سے ’’پدرم سلطان بود‘‘ نہیں نکلتا۔ کانگریس آج بھی یہ چاہتی ہے کہ بی جے پی کے مقابلہ پر تمام مخالف پارٹیاں متحد ہوجائیں ۔ اور قیادت کانگریس کرے۔ اور پورا ملک یہ مان چکا ہے کہ لوک سبھا میں سابق حکمراں پارٹی کی اتنی بری حالت اس کی نااہلی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اور کانگریس کو 44  سیٹ پر صرف اس کی اس ضد نے روک دیا کہ وزیراعظم راہل گاندھی ہوں گے۔

بہار میں نتیش، لالو اور سونیا کے پرخلوص مہاگٹھ بندھن نے ایک راستہ مخالف پارٹیوں کو دکھایا تھا۔ اُترپردیش میں اگر مایاوتی خود وزیر اعلیٰ بننے کی ضد نہ کرتیں تو تصویر یہاں بھی بہار جیسی یا اس سے ملتی جلتی ہوسکتی تھی مگر وہ تو بغیر پروں کے اُڑنا چاہتی تھیں ۔ اس لئے خود بھی منھ کے بل گریں اور دوسروں کو بھی گرادیا۔ اب نتیش کمار ایک ایسا نام ہے جو سنجیدہ، متین، بردبار اور متوازن ہے۔ ان کا خیال تھا کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب میں حزب مخالف کو اپنی طاقت برباد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جیتنے کا دور دور تک امکان نہیں ہے۔ سونیا گاندھی خود یا راہل نے عہد کرلیا ہے کہ مودی سے ہر محاذ پر لڑنا ہے۔ سونیا گاندھی نے پہلے اعلان کردیا کہ اگر سیکولر ذہن کے لیڈر کو مودی امیدوار بناتے ہیں تو ہم ساتھ دیں گے۔ سونیا گاندھی کا یہ مطالبہ ہی غلط تھا۔ وہ جانتی ہیں کہ بی جے پی مودی کی نہیں موہن بھاگوت کے کنٹرول میں ہے۔ انہیں یاد کرنا چاہئے تھا ان واقعات کو جب اڈوانی کو نظر انداز کرکے مودی کو پہلے الیکشن کی کمان سونپی اور بعد میں اڈوانی کی زبردست مخالفت کے باوجود انہیں وزیر اعظم کا امیدوار بنایا۔ اور ہر موقع پر اڈوانی جی پوری طرح ناراض ہوئے اور ہر موقع پر موہن بھاگوت نے مودی کے سامنے اڈوانی کو جھکایا۔ اگر موہن بھاگوت کی حمایت نہ ہوتی تو مودی کی اڈوانی کے مقابلہ میں کیا حیثیت تھی؟

اب صدارت کا مسئلہ ہو یا اسرائیل سے دوستی کا ہر فیصلہ ناگ پور میں ہوتا ہے اور ناگ پور میں سیکولرازم کا داخلہ ہی بند ہے۔ سونیا کو کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت نتیش کمار، لالو یادو، ممتا بنرجی اور اکھلیش یادو کو بلاکر یہ طے کرنا چاہئے تھا کہ صدر کا الیکشن لڑا جائے یا نہیں ؟ اور امکان کیا ہے۔ لیکن سونیا گاندھی آج بھی یہ سمجھ رہی ہیں کہ حزب مخالف کی لیڈر وہ ہیں اور تمام پارٹیاں ان کے گروپ میں شامل ہیں ۔ انہوں نے پہلے تو انتظار کیا اس کے بعد اعلان کردیا کہ کسان لیڈر کو صدر کا اُمیدوار بنائیں گے۔ اور اپنی ہی کانگریس کے لوگوں سے مشورہ کرکے یا خود فیصلہ کرکے میرا کمار کو اُمیدوار بنا دیا۔ جبکہ نتیش کمار اعلان کرچکے تھے کہ وہ سرکاری اُمیدوار کی حمایت کریں گے۔

یہ چھوٹی چھوٹی باتیں وہ ہیں جن سے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ جو مودی کا نہیں ہے اس کے سامنے 2019 ء کا الیکشن ہے اس کے لئے کانگریس کا نعرہ تو ہر بات کی مخالفت ہے۔ نتیش کمار نے وہ بات کہی ہے جو ایک ذمہ دار کو کہنا چاہئے کہ مخالفت برائے مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب سے پہلے سب کو سرجوڑکر بیٹھنا چاہئے اور اس پر غور کرنا چاہئے کہ مودی نے کیا کیا غلط کیا اور دو سال کے بعد کیا پروگرام لے کر میدان میں اُتریں گے۔ ایجنڈہ کیا ہو، متبادل کیا ہو، مودی نے کیا غلط کیا اور ہم کیا صحیح کریں گے؟ نتیش کمار نے کہا ہے کہ میرا نہ چہرہ ہوگا نہ میں وزیر اعظم کا اُمیدوار بنوں گا۔ لیکن یہ فیصلہ ان کے کرنے کا نہیں سب کے کرنے کا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ جتنے لوگ سامنے ہیں ان میں نتیش کمار ہی ایسا چہرہ ہے جسے لے کر چلنا چاہئے۔

جو بھی میٹنگ ہو اور جہاں بھی ہو سب سے پہلے سونیا گاندھی کو اعلان کرنا چاہئے کہ کانگریس قیادت نہیں کرے گی اور راہل اُمیدوار نہیں ہوں گے۔ راہل گاندھی کانگریس کی ناکام حکومت کے وزیراعظم بیشک نہیں تھے۔ لیکن وزیر اعظم سے زیادہ تھے۔ کابینہ کے متفقہ فیصلہ کے بعد ایک آرڈی ننس صدر کو بھیجا گیا مخالفت میں پورا ملک کھڑا ہوگیا۔ وزیر اعظم امریکہ گئے ہوئے تھے اور آدھے گھنٹہ کے بعد امریکی صدر بش سے ملنے والے تھے۔ دہلی میں اجے ماکن کانگریس کے سابق وزیر پریس کانفرنس کررہے تھے۔ راہل گاندھی داخل ہوئے۔ انہوں نے اجے ماکن سے یہ نہیں کہا کہ آپ بات ختم کرلیں تو دو باتیں پریس سے مجھے بھی کرنا ہیں ۔ بلکہ ان کے ہاتھ سے مائک لیا اور اپنی ہی حکومت کے بنائے ہوئے آرڈی ننس کو مہمل، بیہودہ پھاڑکر پھینک دینے والا شرمناک بتاکر کہہ دیا کہ وہ واپس لے لیا جائے گا۔ جبکہ راہل حکومت میں ڈپٹی منسٹر بھی نہیں تھے۔ اور نہ اس کا خیال تھا کہ جو وزیر اعظم بناکر گئے ہیں وہ صدر بش سے ملنے والے ہیں اور جو کچھ انہوں نے کہا ہے وہ منموہن سے پہلے امریکہ میں دیکھ لیا گیا ہوگا۔ اور جب وزیر اعظم واپس آئے تو انہوں نے کابینہ بلائی اور اسے واپس لے لیا۔ یہ واقعہ ہی نہیں جانے کتنی باتیں ایسی ہیں جن سے سب کو معلوم تھا کہ اوپر سے وزیر اعظم کوئی بھی نظر آئے اندر وزیر اعظم راہل گاندھی ہیں ۔ اس کے بعد اس کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی ساری بدنامیاں اور ناکامیاں ان کے نامۂ اعمال میں نہ لکھی جائیں ان کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ اُترپردیش میں اکھلیش نے 103  سیٹیں دی تھیں پانچ اُن کے امیدواروں نے خود لے لیں ۔ اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

کانگریس کے سامنے دو راستے ہیں ایک یہ کہ ان کی حکومت بنوادی جائے اور دوسرا یہ کہ بی جے پی اور آر ایس ایس مکت بھارت بنایا جائے حکومت کسی کی ہو اور وزیر اعظم کوئی بھی ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کانگریس کو اپنے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ اگر وہ اپنے بارے میں سوچے گی تو سب کو لے ڈوبے گی۔ نتیش کمار اور دوسرے لیڈر بھلے ہی کانگریس کو بڑی پارٹی کہیں اور راہل کو بڑا لیڈر لیکن عوام کے نزدیک ہندوستا ن کو نرک میں ڈھکیلنے کی وہی ذمہ دار ہے۔ مخالف پارٹیوں کو صرف کسان کے مسئلہ کو اور مودی جی کے جھوٹے وعدوں کو دو برس میں بچہ بچہ کی زبان تک پہونچا دینا چاہئے۔ یہ کوئی معمولی بات ہے کہ وزیراعظم کسان سے یہ کہہ کر ووٹ مانگیں کہ حکومت بنتے ہی پہلی میٹنگ میں کسانوں کے قرضے معاف کردیئے جائیں گے۔ اور جب حکومت بن جائے تو کہہ دیا جائے کہ ایک لاکھ تک کے قرضے معاف ہوں گے۔ اور بعد میں کہا جائے کہ ایسے کسانوں اور اتنے کسانوں کے قرضے معاف نہیں ہوں گے اور کسان خودکشی کرنے لگیں مخالف پارٹیوں کے پاس کسانوں کو اپنانے کے لئے یہ کتنا پرکشش موضوع ہے۔ کیونکہ جتنا بھی معاف کرنا ہے وہ بھی آج نہیں بلکہ بجٹ اجلاس میں پاس ہوگا پھر عوام سے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ یعنی جب دادا مریں گے تب بیل بٹیں گے تو انہیں بیچ کر قرضہ ادا ہوگا۔

لکھنؤ میں ایک بہت بڑے تاجر ارب پتی مقبول احمد لاری ہوا کرتے تھے انہوں نے اپنی بیگم کے انتقال کے بعد ایصالِ ثواب کے لئے عظیم النساء ٹرسٹ بنایا اور ہمارے پاس تفصیل بھیجی کہ اس کی خبر بناکر چھاپ دو۔ ہم نے خبر چھاپی جس میں ان کی ہدایات کے مطابق لکھا کہ بیوہ بیمار خواتین کی مدد اور علاج کے لئے بے سہارا بچیوں کی تعلیم اور ان کی شادی میں مدد کے لئے غریب خواتین کی ولادت کے موقع پر ہر طرح کے تعاون کے لئے اور دیگر کاموں میں مدد کے لئے عظیم النساء ٹرسٹ مقبول لاری منزل سے رجوع کیا جائے۔

ایک مہینہ کے بعد ایک دوست ایک خاتون کو لے کر ہمارے دفتر آئے اور بتایا کہ یہ میرے پڑوس میں رہتی ہیں بیوہ ہیں ان کی لڑکی کا رشتہ ہوگیا ہے خدا کے کرم سے سب کچھ تو ہوگیا بارات کے کھانے کا انتظام نہیں ہوسکا۔ آپ لاری صاحب سے ان کی مدد کے لئے لکھ دیجئے وہ عظیم النساء ٹرسٹ سے مدد کردیں ۔ ہم نے لاری صاحب کو حقیقت لکھ دی اور بتایا کہ جو صاحب ان کو لائے تھے وہ ذمہ دار اور دیندار ہیں اور ہمارے پرانے واقف ہیں ۔ لاری صاحب نے ہمارا خط رکھ لیا۔ خاتون سے کہا کہ ہم حفیظ صاحب کو جواب دے دیں گے۔ دوسرے دن انہوں نے کہا کہ چند منٹ کے لئے ہوسکے تو آجایئے۔ ہم گئے تو لاری صاحب نے بتایا کہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم ایک بڑی رقم بینک میں فکس کردیتے ہیں ۔ اس کا جب سود ملتا ہے تو اس سے مدد کرتے رہتے ہیں اور وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اگر ہم اپنے روپئے سے مدد کرنے لگیں تو دو چار مہینوں میں وہ ختم ہوجائے گا۔ ہم نے کہا کہ وہ تو سود ہوگا جو حرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مفتی مولانا… سے معلوم کیا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ یہ گناہ نہیں جائز ہے۔ اب ایک سال ہوجائے تو آپ جس کی کہیں گے ہم مدد کردیں گے۔

اب وزیر اعلیٰ یوگی کے کسانوں کے قرض معاملے میں رویہ سے اندازہ ہوا کہ وہ بھی اور نریندر مودی بھی اسی کالج کے پڑھے ہوئے ہیں جہاں لاری صاحب نے پڑھا تھا کہ اعلان کردیتے ہیں بعد میں سود کی رقم سے کسانوں کا قرض معاف کریں یا غریبوں کی مدد کریں ۔ وزیراعظم کی ایک نہیں جانے کتنی باتیں ہیں جیسے جو چین ہر وقت بندوق تانے کھڑا ہے اس سے کروڑوں ڈالر کا سامان خریدا جارہا ہے صرف اس ڈر سے کہ نہیں تو وہ مارے گا؟ اور کوئی چیز نہیں ہے جو اپنے کارخانوں میں بنوائی جائے جو اس سے سستی ہو اور اچھی ہو۔ اپنے لڑکے لڑکیاں بیکار ہیں اور چین کی بے روزگاری ہم دور کررہے ہیں ۔ جی ایس ٹی کے بارے میں ابھی تو سب کہہ رہے ہیں کہ سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ بعد میں جو کاروباری لاکھ روپئے روز کماتے تھے وہ محنت تو چار گنی کریں گے اور روٹی چٹنی سے کھائیں گے۔ اس کے بعد بھی حزب مخالف مودی مکت بھارت نہ بناسکے تو اس کی بدنصیبی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔