علم دین کے حصول سے غفلت کیوں؟

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

 اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ چنانچہ اسلامی احکامات کے دائرہ میں صرف عقائد و عبادات ہی نہیں بلکہ معاملات، اخلاقیات، معاشرت، معیشت ( یعنی حصول رزق کے مختلف ذرائع ملازمت، تجارت، زراعت، صنعت و حرفت وغیرہ)، سیاست اور نظام عدل و انصاف بھی آتے ہیں ۔ گویا مسلمان ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ آدمی زندگی کے ان تمام شعبوں میں اللہ اور اس کے رسول کے صادر کردہ احکامات کا پابند ہو۔لیکن ایک انسان سے اس وقت تک اس کی امید نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اسے ان تمام احکامات کا علم نہ ہو۔ یعنی علم کے بغیر دین پر چلنے اور اس پر قائم رہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔دین پر چلنے کے لئے علم دین کا حصول ایک لازمی شئے ہے۔اس لئے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

فَسْئَلُوْ ٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل : 43)

 ’’ پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو ‘‘۔

 نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:

’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘

 ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، بروایت انس بن مالکؓ)۔

اب سوال یہ ہے کہ کتنا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے ؟  تو اس کا جواب یہ ہے کہ اتنا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے جس سے کہ اس کے عقائد درست ہوجائیں اور اللہ کا جو فریضہ اس پر عائد ہے اس کو صحیح طریقے سے ادا کرسکے اور اللہ اور اس کے رسولؐ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے اس سے بچ سکے۔اس کے علاوہ معاملات، اخلاقیات، معاشرت و معیشت کے بنیادی احکامات کا جاننا سب پر ضروری ہے۔ مزید برآں حصول رزق کے جس شعبہ کو جو اختیار کرے اس کے لئے اس شعبہ سے متعلق مسائل کی تفصیلات کا جاننا ضروری ہے دوسرے شعبوں سے متعلق احکام کا جاننا ضروری نہیں ۔عبادات میں بھی طہارت، نماز اور روزہ سے متعلق مسائل کا جاننا ہر عاقل و بالغ پر ضروری ہے۔زکوٰۃ اور حج سے متعلق مسائل کا جاننا صرف ان پر ضروری ہے جو صاحب مال ہوں اور جن پر یہ عبادتیں فرض ہوگئی ہوں ۔دین کے تمام مسائل کا جاننا فرض کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگ کسی بستی یا شہر کے اندر تمام علوم کے عالم ہوں توسب کے ذمہ سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا ورنہ سب گنہگار ہونگے۔

ان تفصیلات کو جاننے کے بعد ذرا آپ خود کا بھی محاسبہ کریں اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والے مسلمانوں کا بھی جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ مسلمانوں میں علم دین کے حصول سے کس قدر غفلت، بے پروائی اور استغنا پایا جاتا ہے۔ علم دین سے دوری کی وجہ سے آج ملت اسلام سے کوسوں دور ہوچکی ہے۔لوگ شرک و بدعات میں مبتلاہورہے ہیں ، رسم و رواج کو دین کا درجہ دیا جارہا ہے اور جو چیزیں عین دین ہے اس کو دین نہیں سمجھا جاتا ۔علم دین سے اس بے پروائی کی سب سے بڑی وجہ آخرت سے بے فکری اور اسلام سے لگاؤ کا نہ ہونا ہے۔لوگ دنیا میں اس قدر محو ہیں کہ انہیں آخرت کی تیاری کی کوئی فکر ہی نہیں ،اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات سے آزاد ہوکر اپنی من چاہی زندگی گزار رہے ہیں اور دعوائے مسلمانی بھی ہاتھ سے نہیں جاتاحالانکہ اللہ کے رسول ؐ کی نظر میں عقلمند انسان وہ ہے جو موت کو یاد رکھے اور مرنے سے قبل اس کی بہترین تیاری کرلے۔ مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جس کا اسلام کا تصور ہی درست نہیں ،چند رسم و رواج کی پابندی کو ہی لوگ اسلام سمجھتے ہیں ۔جب اسلام کا صحیح تصور آئے تو انہیں احکامات کو جاننے کی فکر ہو؟

علم دین کے حصول کی تگ و دو سے غفلت کی ایک دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علم دین مدارس میں جاکر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی ایک خاص عمر تک اور چونکہ دنیوی امور کے ساتھ مشغولی انہیں مدارس میں جانے نہیں دیتی اور نہ ہی یہ ہر ایک کے لئے ممکن ہے اس لئے وہ حصول علم کا ارادہ بھی نہیں کرتے۔اس فکر کو بنانے میں مدرسوں کے فارغین کا بھی بڑا رول ہے، اپنی تقریر و تحریر میں وہ لوگ یہی تاثر دیتے ہیں اور علم کی ترویج کے لئے اسی واحد ذریعہ کے استعمال پر ان کی خاص توجہ ہوتی ہے اور ایک خاص عمر کے بچے اور نوجوان ہی ان کا ہدف ہوتے ہیں، ان بالغوں کی تعلیم کے لئے جو مدارس سے باہر ہیں ان کے پاس کوئی خاص لائحہ عمل نہیں ہوتا سوائے جمعہ اور جلسوں کی تقاریرکے جو کہ رسمی ہی ہوتی ہیں اور جن میں مسائل پر گفتگو شاید ہی کبھی ہوتی ہے۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے اولین ہدف ان کے ہم عصر بالغان تھے، دوئم درجہ میں ان کے بچے تھے۔ اعلان نبوت کے بعد آپؐ کی زندگی کا بیشتر وقت تعلیم اور اصلاح بالغان ہی میں گذرا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ اس کے لئے آپؐ نے کسی رسمی نظام (Formal System)  کو مخصوص نہیں کیا بلکہ چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے، سفر میں حضر میں ،مسجد میں تو کبھی بازار میں ، کبھی کسی کے مکان پر تو کبھی قبرستان میں اور کبھی جنگ کے میدان میں الغرض جس وقت بھی جو موقع آپؐ نے مناسب پایا تعلیم اور اصلاح سے نہیں چوکے۔اس لئے راقم کے خیال میں یہ سراسر ایک غلط خیال ہے کہ تعلیم مدارس ہی میں ممکن ہے۔

اول تو یہ کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ؛یہ ایک ایسا عمل ہے جو پوری عمر جاری رہ سکتا ہے ،صرف شرط یہ ہے کہ انسان ویسا انداز فکر اور میلان رکھے۔ دوئم یہ کہ مدارس تحصیل علم کے ذرائع میں سے ایک رسمی ذریعہ(Formal Means)   ہے جبکہ غیر رسمی ذرائع  (Informal Means)  اور طریقے بہت سے ہوسکتے ہیں اگر علم کوہم سند اور ڈگریوں سے جوڑ کر نہ دیکھیں ۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات سے واقف ہونا ہے ، خواہ اس کی واقفیت مدارس میں ہو کہ محلہ کی مسجد میں یا کسی مبلغ کے گھر پر ہو۔علم کو سند اور ڈگریوں سے جوڑ کر دیکھنا کسی پیشہ وری کے لئے ضروری تو ہوسکتا ہے لیکن دین کے لئے قطعاً ضروری نہیں ۔صحابہ ؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے دور کے عالموں کے پاس کسی درسگاہ کی کوئی سند نہیں تھی لیکن آج پوری امت علم دین کے حصول میں ان کی قرض دار ہے۔ اس ملک میں ہی کئی نامور عالم دین ایسے گزرے ہیں جن کے پاس کسی مدرسہ کی کوئی ڈگری نہیں تھی لیکن علم دین کی ترویج و اشاعت میں ان کی خدمات کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔دوسری طرف مدرسوں کے فارغین میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں جنہیں جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے اور جن کے سر پر دستار فضیلت ایک بوجھ ہی ہوا کرتی ہے۔خود راقم کو ایسے کئی اہل سند سے واسطہ پڑچکا ہے جنہیں طہارت ،وضو اور نماز کے مسائل تک کا صحیح علم نہیں ۔اگر ان جیسے لوگوں کے ساتھ اپنے تجربات اور مکالمات کو قلمبند کروں تو مضمون کے نہایت طویل ہوجانے کا خوف ہے بلکہ دو تین مضامین بھی شاید کم پڑجائیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ مدارس میں بھی صحیح عالم وہی لوگ بن پاتے ہیں جو علم کی حقیقی تڑپ رکھتے ہیں اور ذاتی مطالعوں سے اپنے علم کی ترقی کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔اگراسی ذاتی مطالعہ کوسماج میں رواج دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کے علم دین کی ترویج کا کام نہ ہولیکن افسوس یہ ہے کہ علماء ایسا کرتے نہیں بلکہ الٹا حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔میں نے کئی عالموں کو یہ کہتے سناہے کہ کتابیں پڑھنے سے کوئی عالم نہیں ہوجاتا۔میں اس خیال کا سختی سے تردید کرتا رہا ہوں بلکہ یہ کہتا ہوں کہ کتابیں پڑھنے سے ہی انسان عالم ہوتا ہے ،مدارس تو صرف ماحول فراہم کرتے ہیں اور اساتذہ معاون مطالعہ ہوتے ہیں ۔ایک وقت تھا کہ جب کتابوں کاوجود کم تھا اور علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا تھا لیکن آج کتابیں علوم کا اہم ذریعہ ہیں اور کتابیں امین بھی ہوتی ہیں کہ علوم کو نسل در نسل بلاکم و کاست منتقل کردیتی ہیں ۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذاتی مطالعہ کسی عالم کی نگرانی میں کیا جائے تاکہ اگر کوئی پیچیدگی آئے تو ان سے رجوع کرکے اس مسئلہ کو حل کرسکے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ  ہر مسجد میں کتب خانے قائم کئے جائیں اور اس میں دین کی بنیادی درسی اور غیر درسی کتابیں اردو ،ہندی اور انگلش سبھی زبانوں میں رکھی جائیں کیوں کہ یہ ہر کسی کے بس میں نہیں کہ وہ کتابیں خرید سکے اور نہ ہی ہر آدمی کتابوں سے واقف ہوتا ہے۔مطالعہ میں صحیح کتابوں کا انتخاب بھی ایک اہم چیز ہے۔اس سلسلہ میں مساجد کے ائمہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ دوسری صورت علماء اور ائمہ کے ذریعہ یہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ وہ مساجد میں کسی ایسے وقت میں جس میں مقامی لوگ زیادہ فارغ ہوں (مثلاً مغرب اور عشاء کے درمیان) درس کا نظام قائم کریں اور ترتیب سے دین کے مختلف شعبوں سے متعلق مسائل کو بیان کریں ۔اس کے لئے کسی درسی یا غیر درسی کتاب کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔اگر آدھ پون گھنٹہ ہر روز تیاری کے ساتھ یہ درس دئے جائیں اور لوگوں کو ترغیب دیکر اور علم کی فضیلت بتاکر اس سے جوڑا جائے تو بڑی کایا پلٹ ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے داعیانہ مزاج ، لوگوں کی اصلاح کی فکر اور دین کی تڑپ کا ہونا ضروری ہے۔

بندہ نے ایک خدا ترس عالم کو جو رشتہ میں میرے ماموں ہوا کرتے تھے ایک بار اس چیز کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نیمیرے  گاؤں کی مسجد میں مغرب اور عشاء کے درمیان اس نظام کو قائم کیا جو کافی دنوں تک چلا اور اس درس میں 25 سے 30 نوجوان روزانہ شریک ہوا کرتے تھے۔درس کے اس نظام میں انہوں نے فقہ کی ابتدائی کتاب قدوری مکمل پڑھائی اور ایک ایک مسئلہ کی وضاحت کی۔افسوس کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور جزائے خیر سے نوازے۔آمین! اسی طرح ہر گھر میں درس کا نظام قائم کرنے کے لئے علماء اور ائمہ مساجد کو لوگوں کو ترغیب دینی چاہیے، درس کے لئے کتابوں کے انتخاب میں لوگوں کی رہنمائی بھی کرنی چاہیے بلکہ اس کا جائزہ بھی لیتے رہنا چاہیے کہ کتنے گھروں میں یہ نظام قائم ہوپایا ہے۔ہر گھر کا تعلیم یافتہ شخص اگر روزانہ بعد نماز عشاء یا کسی اور فارغ وقت میں 15 سے 20 منٹ اپنے گھر کے تمام افراد کو جوڑ کر کسی دینی کتاب کا درس کرے تو عورتوں اور بچوں میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ اسکول اور کالج کے طلبہ کے لئے گرمی کی چھٹیوں میں 10۔15 دنوں کا سمر کیمپ لگایا جاسکتا ہے  جس میں دین کی بنیادی باتیں بتائی جاسکتی ہیں ۔

اس کیمپ کا نظم اسکولوں میں بھی کیا جاسکتا ہے او ر مساجد میں بھی۔ بندہ عاجز نے اپنی مسجد میں اس کا تجربہ بھی کیا ہے جو نہایت مفید رہا۔ خلاصہ یہ کہ ہر عالم کچھ دیندار لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر اپنے گاؤں ، محلہ اور علاقہ میں دینی تعلیم کے فروغ اور اصلاح کو مشن بناکر اگر ایک منظم کوشش کرے تو کایا پلٹ ہوسکتی ہے۔ہوتا  یہ ہے کہ لوگ تعلیمی بیداری کانفرنس کرتے ہیں ، اخبارات میں اپنی تصویریں اور بیانات شائع کرواتے اور بس۔زمینی سطح پر کام کرنے کو کوئی تیار نہیں الاماشاء اللہ ۔اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے۔آمین!

علم دین کے حصول کی تگ و دو سے دوری اختیار کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ غلط فہمی بھی ہے کہ صرف عربی داں ہی علم دین حاصل کرسکتے ہیں ، غیر عربی داں کی دینی علوم تک رسائی نہیں ہوسکتی۔ یہ بات بھی کسی زمانہ میں صحیح ہوگی لیکن دور حاضر میں یہ ایک سراسر غلط خیال ہے ۔ اکابر علماء نے اپنی انتھک کوششوں سے دینی علوم کے تمام ذخیروں کو عوام الناس کے استفادہ کے لئے اردو زبان میں منتقل کردیا ہے بلکہ اب تو دینی علوم کا ایک بڑا حصہ انگریزی زبان میں بھی منتقل ہوچکا ہے۔قابل فخر بات یہ ہے کہ علماء نے کسی فن کو نہیں چھوڑا ؛ تجوید، تفسیر،اصول تفسیر ،حدیث، اصول حدیث ، فقہ و اصول فقہ، اسلامی تاریخ، سیرت رسولؐ، سیرت صحابہ،تصوف و تزکیہ نفس ہر موضوع پر درسی و غیر درسی کتابیں اردو اور انگریزی میں دستیاب ہیں ۔فتاویٰ کی بڑی بڑی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ہندی زبان میں دینی لٹریچر تیار کرنے کی طرف توجہ تھوڑی تاخیر سے دیگئی ہے لیکن اس میں بھی بہت کام ہوچکا ہے ، بہت جاری ہے اور اس پر مزید توجہ کی ضرورت بھی ہے۔ اس لئے کسی آدمی کے اندر دینی علوم کے حصول کی تڑپ پیدا ہوجائے تو وہ اپنے پسند کی زبان میں بہ آسانی علم حاصل کرسکتا ہے۔

اصل چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو جاننا ہے خواہ کسی زبان میں جانے وہ طلب علم کی فضیلت حاصل کرنے والا ہوگا۔ اس سلسہ میں تفسیر مواہب الرحمٰن و عین الھدایہ کے مصنف اور فتاویٰ عالمگیری  کے مترجم مولانا سیّد امیر علیؒ کی رائے نقل کرینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ مسئلہ اور واضح ہوجائے۔وہ لکھتے ہیں : ’’ ۔۔۔اور فقیہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام جاننا کافی ہے خواہ عربی زبان میں جانے یا اردو میں حتیٰ کہ جو عربی داں کہ خالی منطق و فلسفہ جانے وہ عالم نہ ہوگا اور اس کو یہ بزرگی حاصل نہ ہوگی اور جو اردو جاننے والا دین کی سمجھ رکھتا ہو یعنی علم دین سے آگاہ ہو وہ فقیہ شمار ہوگا جبکہ اس کو علم یقینی ہو‘‘۔ آگے مزید وضاحت کرتے ہیں کہ : ’’۔۔۔مطلب کا سمجھ لینا کسی زبان میں ہو اصلی غرض ہے اس واسطے جو لوگ کہ عربی زبان نہیں جانتے مگر فارسی یا اردو خوب جانتے ہیں اور دنیا کے لئے کچہری ،درباروں و مدرسوں میں امتحان دیتے اور نوکریاں کرتے ہیں اور دنیا کے مطلب کی باتیں ان زبانوں میں خوب سمجھتے اور ذہن نشین کرلیتے ہیں مگر نماز روزہ کے معنی بلکہ کلمہ توحید لاالٰہ الا اللّٰہ کے معنی بھی نہیں سمجھتے اور نہ سمجھنے کا قصد کرتے ہیں وہ ایسی ناسمجھی سے اپنے آپ کو خراب کرتے ہیں اور یہ عذر کچھ قبول کے قابل نہیں ہے کہ ہم تو عربی نہیں جانتے ۔

ہاں ! یہ صحیح ہے کہ تم نے نہیں معلوم کیا بے پروائی کی کہ عربی زبان اتنی بھی نہ سیکھی جو کلمہ توحید کے معنی تو سمجھ لیتے لیکن اس میں کیا عذر ہے کہ اردو ہی میں اس کے معنی سمجھ لو۔پس ضروری ہوا کہ آدمی مطلب کو کسی زبان میں جس کو خوب سمجھتا ہوایمان و اسلام و عقائد کا مطلب سمجھ لے اور بتوفیق الٰہی تعالیٰ اپنے دین کی فقہ حاصل کرے تاکہ عالم ہوکر علماء کے درجہ میں شامل ہو واللہ تعالیٰ اعلم‘‘۔ (مولانا سیّد امیر علیؒ مترجم فتاویٰ ہندیہ، مقدمہ فتاویٰ عالمگیری جدید اردو، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ،لاہور ، جلد 1، صفحہ 15)۔

مذکورہ عبارت سے یہ اشکال بھی دور ہوگیا کہ آپ دینی مسائل کو نہیں سمجھ سکتے۔جو شخص فزکس، کیمسٹری، بایولوجی، کمپیوٹر سائنس، اکانومکس وغیرہ جیسے پیچیدہ دنیوی علوم کو سمجھ سکتا ہے وہ دینی مسائل کو کیوں نہیں سمجھ سکتا جس کا تعلق اس کی زندگی سے ہے۔اس لئے کسی کے لئے کوئی عذر نہیں ہے۔محشر میں جب عالموں سے یہ سوال ہوگا کہ اپنے علم پر کتنا عمل کیا تو بے علموں سے یہ سوال بھی تو ہوگا کہ اس نے علم حاصل کیوں نہیں کیا اور یہ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی حکومت میں بے علمی کوئی عذر نہیں ہوتا،قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو یہ کہنے پر نہیں بخشا جاتا کہ وہ نہیں جانتا تھا بلکہ یہ کہاجاتا ہے کہ قانون کا جاننا اس کی ذمہ داری تھی۔ اسی پر اللہ کے قانون کو قیاس کرنا چاہے ۔ہاں اللہ اپنے فضل سے کسی کو معاف کردے تو اور بات ہے۔

اس لئے علم دین کے حصول کی ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے۔اس کی بڑی فضیلتیں بھی وارد ہوئی ہیں ۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا :ــاے ابوذرؓ! اگر تم صبح جاکر کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھ لو تو یہ ایک سو رکعت نماز (نفل) پڑھنے سے بہتر ہے اور اگر تم علم کا ایک باب سیکھ لو خواہ وہ اس وقت کا عمل ہو یا نہ ہو (مثلاً تیمم کے مسائل) تو یہ ایک ہزار رکعات (نفل) پڑھنے سے بہتر ہیـ‘‘۔ (رواہ ابن ماجہ باب فضل من تعلم القرآن و علّمہ)۔

حضرت ابودردائؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’جو شخص ایسے راستہ پر چلے جس پر وہ (دین کا )علم تلاش کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے، اور فرشتے طالب علم کے لئے اس کے اس عمل سے خوش ہوکر اپنے پر بچھاتے ہیں ، اور عالم کے لئے آسمان و زمین کی ہر مخلوق، حتیٰ کہ مچھلیاں پانی میں مغفرت کی دعا کرتی ہیں ۔اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چاند کو سارے ستاروں پر فضیلت حاصل ہے ۔اور علماء انبیاء کے وارث ہیں ، یقینا انبیاء نے اپنے ورثے میں دینار اور درہم نہیں چھوڑے، وہ تو (دین کا) علم ہی ورثے میں چھوڑ کر جاتے ہیں ، پس جس نے وہ علم حاصل کیا اس نے (شرف و فضل) کا ایک بڑا حصہ حاصل کرلیاـ۔‘‘(سنن ابی داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم)۔

       مذکورہ حدیث میں طالب علم سے مراد صرف وہ نوجوان نہیں ہے جو کسی مدرسہ میں داخلہ لئے ہوئے ہو بلکہ ہر وہ شخص مراد ہے جو علم کی طلب اور جستجو میں لگا ہو۔اسی طرح عالم سے مراد صرف وہ حضرات نہیں ہیں جن کے پاس کسی مدرسہ کی سند ہو بلکہ ہر وہ فرد مراد ہے جس کی کتاب و سنت پر نگاہ ہو، دین کی سمجھ رکھتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے واقف ہو گو کہ دنیا والے اسے عالم نہ سمجھیں ۔

اس لئے اس حقیر کی تمام مسلم بردران سے عموماً اور عصری علوم کے حاملین اور کالج و یونیورسٹی کی تعلیم سے وابستہ افرادسے خصوصاً اپیل ہے کہ وہ اپنی تمام مشغولیوں کے ساتھ علم دین کے حصول کی طرف بھی راغب ہوں تاکہ وہ بے علمی کے وبال سے بچ سکیں ، طالب علم اور علماء کی فضیلت حاصل کرسکیں ، اپنی زندگی کو علم کے مطابق سنوار سکیں اور اپنے اہل و عیال کی تربیت اسلامی خطوط پر کرنے کی جو ذمہ داری ان پر عائد ہے اسے کما حقہ ادا کرسکیں ۔اس سلسلہ میں خود دینی کتابوں کا مطالعہ بھی کریں اور حصول علم دین کے دیگر طریقہ کار کو بھی بروئے کار لائیں ۔اللہ پاک احقر کو بھی مذکورہ باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین!  انٹرنیٹ پر بہت سی ایسی ویب سائٹس ہیں جن پربڑی تعداد میں ہر موضوع پر دینی کتابوں کی پی ڈی ایف فائلیں اپ لوڈ ہیں ۔ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے وہاں ان کو کتابوں کو پڑھ بھی سکتے ہیں اور ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے کمپوٹر یا لیپ ٹاپ میں محفوظ بھی کرسکتے ہیں ۔سارے  ویب سائٹس کا ایڈریس یہاں دینا تو ممکن نہیں لیکن دو چار تو لکھا ہی جاسکتا ہے۔اردو کتابوں کے لئے http://www.islamicbookslibrary.net/, http://www.australianislamiclibrary.org/, http://www.kitabosunnat.com/ ,https://nmusba.wordpress.com/  اور انگریزی کتابوں کے لئے https://islamicbookshub.wordpress.com/اور   http://www.kalamullah.com/index.html پر رجوع کیا جا سکتا ہے۔اگر کسی طالب کو کتابوں کے انتخاب کے سلسلہ میں مشورہ کی ضرورت ہو تو بندہ سے  https://www.facebook.com/mwzafar.pu  یا [email protected]  پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔