مہنگائی اور بے روزگاری بنا ملک کا بڑا مسئلہ

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

این ایس او (نیشنل اسٹیٹسٹکس آفس) کی جانب سے پریاڈک لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) کی حالیہ رپورٹ چونکانے والی ہے۔ اس کے مطابق اپریل تا جون 2021 کی سہ ماہی میں شہری علاقوں میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کی آبادی میں بے روزگاری کی شرح 25.5 فیصد پائی گئی یعنی ہر چار میں سے ایک شہری بے روزگار ہے۔ 2018 میں این ایس او کے اعداد وشمار کی بنیاد پر کہا گیا تھا کہ بے روزگاری نے 45 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ان اعداد وشمار کے اندر جھانکنے پر حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران اپریل سے جون 2020 میں بے روزگاری کی شرح 34.7 فیصد تھی جو کم ہو کر 27.7 پھر 24.9 اور جنوری سے مارچ 2021 میں 22.9 تک آ گئی تھی۔ رپورٹ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ ملک میں پیدا ہونے والی دو غیر معمولی صورتحال کے نتائج کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بے روزگاری کی شرح اوپر سے نیچے آنے اور پھر دوبارہ چڑھنے کا یہ رجحان ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً چھتیس گڑھ میں یہ 29.5 سے 40 فیصد پر پہنچ گئی۔ جموں کشمیر میں بے روزگاری کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے لیکن اس دوران یہ 44.8 سے بڑھ کر 46.3 فیصد ہو گئی ہے۔ جھارکھنڈ میں 23.9 سے 34.2 فیصد، کیرالہ جو سب سے پڑھی لکھی ریاست ہے وہاں بے روزگاری قومی اوسط 38.7 کے مقابلہ 47 فیصد ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ مدھیہ پردیش میں 23.4 سے 31.4، اتراکھنڈ میں 34.5 سے 36.6 فیصد ہے۔ ان ریاستوں کی بہ نسبت اترپردیش کی حالت بہتر ہے۔ وہاں بے روزگاری میں 23.2 سے 24.7 یعنی معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی تمام ریاستوں میں بے روزگاروں کی سب سے کم تعداد مغربی بنگال میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ مگر بے روزگاری کی شرح وہاں بھی 14 سے بڑھ کر 19.4 ہو گئی ہے۔

یوا ہلا بول کے کوآرڈینیٹر انوپم نے ستیہ ہندی سے بات کرتے ہوئے سی ایم آئی کے حوالہ سے کہا کہ 2014 کے بعد سے صنعتوں میں لیبر فورس کا استعمال کم ہوا ہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے طلبہ سے مزدوروں تک کی خود کشی میں اضافہ سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ اترپردیش کے صرف اسکولوں میں تین لاکھ بیس ہزار اساتذہ کی ضرورت ہے۔ کالج، یونیورسٹی، سرکاری محکمے، پولس اور فوج تک میں آسامیاں خالی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی وجہ سے جو آسامیاں خالی ہو رہی ہیں انہیں بھرا نہیں جا رہا۔ بی جے پی کی ریاستی اور مرکزی حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کو لے کر جتنی بے حس ہے اتنی بے حس سابق کی کوئی حکومت نہیں رہی ہے۔ اس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری قومی وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے اترپردیش میں نکالی گئی اساتذہ کی 69 ہزار خالی جگہوں کا ذکر کیا۔ واضح رہے کہ بھرتی کے لئے منعقد کیا گیا امتحان گڑ بڑی کی وجہ سے رد کر دیا گیا تھا۔ انوپم نے بتایا کہ ایک لاکھ سینتیس ہزار جگہوں کے لئے شکسا متروں نے لمبی لڑائی لڑی تھی۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تھا۔ اس کے بعد یہ طے کیا گیا تھا کہ ان خالی آسامیوں کو 69 ہزار اور 68 ہزار دو بار میں بھرا جائے۔

صحت اور تعلیم کے شعبہ کی مستقل آسامیوں پر تقرر کرنے کے بجائے حکومت نے شکسا متر، آشا، اے این ایم، آنگن واڑی کارکنوں سے کام چلانے کا منصوبہ بنایا۔ کہا یہ گیا کہ سرکاری ملازمین موٹی تنخواہ کے باوجود کام نہیں کرتے۔ جتنی رقم ان پر خرچ ہو رہی ہے اتنے پیسے خرچ کرکے ان شعبوں کو زیادہ ورک فورس مل جائے گی۔ یہ قدم حکومت نے اپنی ذمہ داری سے بچنے کے لئے  اٹھایا تھا۔ مگر اسے وہ کامیابی نہیں ملی جس کی امید کی گئی تھی۔ شکسا متر، آنگن واڑی کارکنوں نے ایک تو ذمہ داری سے کام نہیں کیا دوسرے بار بار سڑکوں پر آ کر انہوں نے حکومت کی نیند حرام کی ہے۔ دراصل حکومت کا کام ایسی پالیسیاں بنانا ہوتا جس سے روزگار پیدا ہوں۔ اس کے لئے طویل مدتی، وسط مدتی اور شورٹ ٹرم منصوبہ سازی کرنی ہوتی ہے۔ گزشتہ تیس سال میں سرکار کسی کی بھی آئی ہو اس نے ایسی پالیسی وضع نہیں کی جس سے نوکریاں پیدا ہوں۔ نوکری یا روزگار کا سیدھا تعلق صنعت یا کاروبار سے ہے۔ صنعت و کاروبار میں ترقی ہوگی تو حکومت کو ملنے والے ٹیکس میں اضافہ ہوگا۔ معیشت مضبوط ہوگی تو حکومت نئے سیکٹر کو فروغ دے گی۔ اس سے روزگار یا نوکریاں پیدا ہوں گی۔ صنعت اور نوکریوں کے اسی تال میل کو دھیان میں رکھتے ہوئے آزادی کے فوراً بعد 1948 میں انڈسٹریل پالیسی نافذ کی گئی تھی۔

عالمی مندی سے بھارت کو بچانے میں چھوٹے، منجھولے کاروبار اور ایم ایس ایم ای نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ سب سے زیادہ روزگار اور نوکری یہی سیکٹر فراہم کرتا ہے۔ بڑی صنعتیں مشینوں کے استعمال کی وجہ سے کم از کم ورک فورس پر منحصر ہیں۔ موجودہ حکومت نے چھوٹی صنعتوں، کاروبار اور ایم ایس ایم ای کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کمپنیاں مر رہی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر چھوٹے کاروباری خود کشی کر رہے ہیں اور اوپر سے نیچے تک تقرریوں میں 40 سے 60 فیصد کمی آئی ہے۔ حکومت یہ بھول گئی کہ بھارت ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہے۔ اس نے اپنی معیشت کو مارکیٹ اکنامی بنا دیا۔ شاید اسی لئے آئی آئی ایم، آئی آئی ٹی، این آئی ٹی، یونیورسٹی، کالج اور اسکولوں میں اساتذہ کی لاکھوں آسامیاں خالی ہونے کے باوجود ان پر تقرری نہیں کی جا رہی۔ حکومت کو تعلیم پر خرچ کرنا فضول لگتا ہے۔ یہ شعبہ حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے۔ جب استاد کو سپاہی سے بھی کم عزت ملے گی تو بھارت کو وشو گرو بنانے کا خواب کیسے پورا ہوگا۔ اس کے لئے اساتذہ کی جگہوں کو مارکیٹ اکنامی سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔

بھارت میں ایمپلائمنٹ کے مقابلے انڈر ایمپلائمنٹ کا مسئلہ زیادہ بڑا ہے۔ 85 فیصد گریجویٹ بے روزگار ہیں۔ ان کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے جو کوئی انہیں نوکری دے سکے۔ گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کو کورئیر، ڈلیوری بوائے، میکڈونلڈ، کافی ڈے یا پیجا سینٹر میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ اب حکومت روزگار دینے کا وعدہ نہیں کرتی۔ مدھیہ پردیش سرکار کی تقرر کرنے والی ایجنسی کے اعداد سے حکومت کی منشاء کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس نے گزشتہ ایک سال میں 740 کروڑ روپے اسٹوڈنٹ فیس سے جمع کئے۔ یہ رقم وہ تقرریاں کرنے میں خرچ نہیں کر پائی۔ اس نے 240 کروڑ روپے ایف ڈی میں جمع کئے ہیں۔

قدرت نے بھارت کو اتنا کچھ دیا ہے کہ وہ اگر اپنی قدیم صنعتوں کو ڈولپ کر لے اور وہ سامان بنائے جن کی ملک کے عوام کو ضرورت ہے۔ ان اشیاء کو بنانے کے لئے اتنی مین پاور کی ضرورت ہوگی کہ ملک کا کوئی نوجوان بے روزگار نہیں رہے گا۔ مثال کے طور پر ہمارے یہاں ٹیکسٹائل، فرنیچر، چمڑے کی صنعت بہت پرانی ہے۔ جسے ہم نے خود برباد کر دیا ہے۔ بھارت چھوٹی کاریں بنانے والا ملک بن سکتا تھا لیکن لاجسٹک اور پورٹ تک پہنچانے میں آنے والے خرچ نے اس سے یہ موقع چھین لیا۔ ترپور، لدھیانہ، جالندھر کو جان بوجھ کر برباد کیا جا رہا ہے۔ کانپور، کلکتہ، سورت کو ہم پہلے ہی برباد کر چکے ہیں۔ جانوروں کے سلاٹر پر تذبذب کی صورت حال نے چمڑے کے کاروبار کو برباد کر دیا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ہم سے چمڑا خریدنا نہیں چاہتا۔ کیوں کہ خریدار کو نہیں معلوم کہ کب تک اسے چمڑا ملے گا اور کب ملنا بند ہو جائے گا۔ اب حکومت کو پانچ کلو اناج دے کر ووٹ حاصل کرنے میں آسانی محسوس ہوتی ہے۔ اور عوام بھی ووٹ دینے سے پہلے مہنگائی اور بے روزگاری کے بارے میں نہیں سوچتے تو ایسے میں حالات کیسے بدلیں گے؟ سوچئے گا ضرور کیوں کہ آنے والا وقت شاید اور مشکل بھرا ہو سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔