کانگریس مکت بھارت نہ ہونے کے ذمہ دار مودی

حفیظ نعمانی

2004ء سے 2014 ء تک مسلسل دس برس ملک کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ رہے۔ ہمارے اخبار کا کالم گواہ ہے کہ ہم نے ان کے کسی اچھے کام کی تو تعریف کی ہوگی لیکن ان کا قصیدہ نہیں پڑھا۔ اور ہم حزب مخالف کی اس آواز میں اپنی آواز ملاتے رہے کہ وہ آزاد وزیر اعظم نہیں، پابند وزیراعظم ہیں اور اہم معاملات کا فیصلہ سونیا جی کرتی ہیں۔

2009ء میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ امریکہ کے ایک صدر بش جب اپنی مدت پوری کرکے رُخصت ہورہے تھے تو انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے وزیراعظم کو بلایا۔ پاکستان میں جو بھی ہوا ہم سے کیا مطلب ہندوستان میں وزیراعظم کے جانے کی سخت مخالفت ہوئی بایاں بازو جس کے پارلیمنٹ میں اس وقت 70 کے قریب ممبر تھے انہوں نے دھمکی دی کہ وہ حمایت واپس لے لیں گے لیکن وزیراعظم گئے اور ان کو بھیجنے میں ماں بیٹے دونوں شریک تھے۔ اس وقت ہم نے کئی دن ان کے خلاف لکھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی قابلیت ان کی متانت ان کی دیانت و امانت اور ملک سے ان کی محبت پر بھی شک نہیں کیا۔ ان کی حکومت کے زمانہ میں بھی صوبوں میں الیکشن ہوئے اور پارٹی کی حمایت میں انہوں نے اپنا فرض بھی ادا کیا لیکن دس برس میں کسی نے ان کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ انہوں نے اڈوانی جی، جوشی جی یا بی جے پی یا آر ایس ایس کے کسی لیڈر کے بارے میں معیار سے گری ہوئی بات کہی ہے۔

پنڈت جواہر لعل نہرو سے ڈاکٹر منموہن سنگھ تک کانگریس کے جتنے بھی وزیراعظم ہوئے انہوں نے الیکشن میں اپنے وقار کی پوری طرح حفاظت کی۔ اسے ملک کی بدقسمتی کہا جائے گا کہ موجودہ وزیراعظم نے اپنے مخالفوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی ہے وہ وزیراعظم یا وزیر تو کیا گلی کوچوں کے نکڑسبھا کے ورکروں سے ملتی جلتی ہے۔ ہم نے ان کی یہ بات ہر جگہ وہ گجرات ہو، اترپردیش ہو یا کرناٹک محسوس کی ہے کہ وہ دوسروں کے کہے ہوئے جملے کاٹ چھانٹ کر اپنی مرضی کا بنا لیتے ہیں اور پھر اس پر برسنا شروع کردیتے ہیں۔ گجرات میں کانگریس کے بزرگ اور بہت سنجیدہ لیڈر منی شنکر ایئر نے ان کے بارے میں دل کے درد کے ساتھ کہا تھا کہ وہ بہت ہی نیچ ہوجاتے ہیں۔ مودی جی نے سارے گجرات میں ماتم اور سیاپا شروع کردیا کہ ہائے گجرات والو منی شنکر ایئر نے تم سب کو نیچ ذات کہا ہے۔ دیکھو اب کانگریس کو ووٹ مت دینا۔ اور بے تکلف جھوٹے الزام اور من گڑھت واقعات جن میں ایک لفظ بھی سچ نہ ہو انہیں بولتے وقت یہ خیال نہیں ہوتا کہ میں کون ہوں؟ جو آدمی 130 کروڑ انسانوں کا سرپرست ہو وہ کرناٹک کے ایک صوبہ کی حکومت کیلئے 21 ریلیاں کرے۔ اور ملک کو ایسے نااہل وزیروں پر چھوڑ دے جن کے راج میں 44 گھنٹے 36 گھنٹے 27 گھنٹے ٹرینوں کا لیٹ ہونا عام بات ہوگئی ہے۔ اور کوئی نہیں ہے جو اس وزیر کو کان پکڑکر نکال دے۔ ٹرینوں کا کئی کئی دن کے بعد آنا ایک کا نہیں لگ بھگ ہر ٹرین کا معمول بن گیا ہے۔

مودی جی کے لئے یہ بھی کتنی شرم کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ بھی کرناٹک میں اپنی پارٹی کی حمایت میں جاتے ہیں اور دو چار تقریروں کے بعد پریس سے بڑے دُکھ بھرے انداز میں کہتے ہیں کہ مودی جی کی زبان وزیراعظم کے وقار کے خلاف ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 22 ہزار کروڑ روپئے بینکوں سے لے کر بھاگنے والے نیرو مودی کو بھاگنے سے پہلے دادوس میں نریندر مودی کے ساتھ دیکھا گیا۔ نریندر مودی نے ملک کو تباہ کرنے کی جیسی جیسی غلطیاں کی ہیں اگر انہیں یا اُن کی پارٹی کے لوگوں کو شرم اور غیرت ہوتی تو کرناٹک میں دو چار جگہ رسم ادا کرکے واپس چلا جانا چاہئے تھا۔

وہ راہل گاندھی اور ان کی ماں پر حملوں کے شوق میں یہ تک کہہ گئے کہ کانگریس تو سلطانوں کی سالگرہ مناتی ہے۔ آزادی کے 70 سال کے بعد اس ملک کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا اپنے ملک کی حفاظت کے لئے جان کی قربانی دینے والے مجاہد ٹیپو سلطان کو اسی ملک کا ایک متعصب وزیراعظم مسلم دشمنی میں اتنا اندھا ہوجائے گا کہ جس کی قبر پر پھول چڑھانا وزیراعظم کا فرض ہو اسے صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے سلطان کہے اور اپنی پارٹی کے جن شہدوں نے ان کی ذات پر کیچڑ اُچھالی ان کی زبان کھینچنے کے بجائے ان کی آواز میں آواز ملائے؟

ایک ٹی وی کے رپورٹر نے کل کہا کہ کرناٹک میں ایک طبقہ وہ ہے جو بی جے پی کو صرف مودی جی کی وجہ سے ووٹ دے گا۔ ہم حیران ہیں کہ جو ریاست سب سے زیادہ تعلیم میں آگے ہو اس میں ایسے بھولے اور شریف بھی ہیں جو چار برس سے صرف جھوٹ سن رہے ہیں اور پورا ملک مان رہا ہے کہ جھوٹ پر ہی ساری عمارت کھڑی ہے مگر وہ اب بھی جھوٹ سے محبت کرتے ہیں؟ ہم کرناٹک سے بہت دور ہیں اس لئے وہاں کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ٹرینیں وقت پر چل رہی ہیں پیٹرول اور ڈیزل کے ساتھ ساتھ ہر چیز کی قیمت بڑھی یا نہیں بڑھی۔ اگر حالات بہتر ہیں تو اسے صوبائی حکومت کا کارنامہ سمجھنا چاہئے۔ اور ویسے ہی ہیں جیسے پورے ملک کے ہیں تو مودی جی کی ناکامی۔

دنیا جانتی ہے کہ مسز سونیا گاندھی برسوں سے علیل ہیں۔ وہ اب بس سرپرست کی حیثیت سے جتنا ہوسکتا ہے وہ کررہی ہیں یہ کرناٹک کی محبت اور اسے بی جے پی کی فتنہ پردازی سے بچانے کے لئے صورت دکھانے کرناٹک گئی ہیں وہاں انہیں کہنا پڑا کہ مودی جی پر کانگریس مکت بھارت کا بھوت سوار ہے۔ اور یہ کہ تقریروں سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا۔ حیرت ہے کہ انہوں نے کہا کہ مودی کو یہ بھی گھمنڈ ہے کہ وہ اچھی تقریر کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چیخنا، چلاّ نا ہاتھ پھینکنا اپنے مخالفوں پر جھوٹے الزام لگانا اور شروع سے آخر تک جھوٹ بولنے کو اگر وہ یا ان کے چاہنے والے اچھی تقریر سمجھتے ہیں تو سمجھا کریں حقیقت میں اسے انتہائی گھٹیا تقریر کہتے ہیں۔ جن لوگوں نے سنی ہوگی وہ بتائیں گے کہ اچھی تقریر آچاریہ نریندر دیو کرتے تھے یا چودھری چرن سنگھ کہ تین گھنٹے بھی بولتے تھے تو کوئی تالی نہیں بجاتا تھا جس تقریر کو سن کر جاہل تالیاں بجائیں سیٹی بجائیں وہ تقریر نہیں نوٹنکی ہوتی ہے۔ ہمیں تو افسوس ہے کہ ایک وزیراعظم نے دس سال میں سیاست کو سنجیدہ بنایا تھا اسے دوسرے نے چار سال میں جھوٹ کا پلندہ بنا دیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔