تجلیات: مجموعۂ نعت

تعارف و تبصرہ: وصیل خان

پروفیسرسید وحید اشرف کا نسبی تعلق توحید کی علمبردار، عشق رسول میں ڈوبی ہوئی اور تصوف کی ایک ایسی عہد ساز شحصیت سے ہے جسے لوگ حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی ؒکے نام سے جانتے ہیں جن کی ذات با برکات کچھوچھہ شریف میں آج بھی مرجع خلائق بنی ہوئی ہےجہاں سے اسلامیات و عرفانیات کی شعاعیں نکل نکل کر انسانی قلوب کو حیات بخش پیغامات سے روشن و منور کرتی رہتی ہیں۔

موصوف خود بھی ایک ملی وادبی شحصیت ہیں پوری زندگی علم و ادب سے سابقہ رہا مختلف جامعات میں علم کی روشنی بانٹتے رہے اور ابھی کچھ عرصہ قبل مدراس یونیورسٹی سے بحیثیت صدر شعبہ اردو و فارسی سبکدوش ہوکر یکسوئی کے ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں، ساتھ ہی ساتھ موروثی اختصاص یعنی علم تصوف سے بھی ہمیشہ فطری رابطہ رہا اور اس موضوع پر بھی اہم تحقیقی تخلیقات سے متلاشیان حق کو آشنا کرتے رہے۔

 کچھ عرصہ قبل حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی ؒ کی حیات و خدمات پر ایک جامع کتاب ’’ حیات مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی ؒ‘‘ تحریر کی جس کا اختصاص یہ ہے کہ آج تک حیات مخدو م پر تحریرکردہ اتنی جامع اور تحقیقی کتاب نظروں سے نہیں گزری اور ابھی حال ہی میں نعتوں پر مشتمل ایک اور کتاب ’’ تجلیات ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے جس میں علم و ادراک اور وارفتگی ٔ عشق  کے صدہا رنگ بکھرے ہوئے ہیں اوراپنے جذبہ و شوق کو بڑے سلیقے سے شعری آہنگ دیتے ہوئے روئے زمین پر بسے بیشمار فرزندان توحید کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ نعت لکھنا آسان نہیں علماءو حکما نے اس عمل کو تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف بتایا ہے کیونکہ اکثر شعراوفور جذبات میں از خودرفتہ ہوکر شان ربوبیت پر بھی ضرب لگادیتے ہیں اور اپنی عاقبت خراب کرلیتے ہیں۔ موصوف نے اس افراط و تفریط سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا ہےاور اس فرق کو مٹنے نہیں دیا جو خالق اور مخلوق کے درمیان ازل سے قائم ہے اور ابدتک رہنے والاہےاور قدم قدم پر عرفی کے اس شعر کی تعبیرکرتے رہے ہیں، جس میں نظریات و عقائد کی اسی نازکیت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر   

 نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا

نعتیہ شاعری عام شاعری نہیں اس میں محبت اور شریعت دونوں تقاضے شاعر کا دامن خیال تھامے رہتے ہیں بڑے خوش نصیب ہیں وہ شعراء جو اس نازک امتحان میں کامران گزرتے ہیں ، جن کی شاعری دنیا میں بھی باعث انبساط اور آخرت میں بھی ذریعہ ٔ نجات قرار پاتی ہے۔ پروفیسر وحید اشرف کی نعتیہ شاعری ایسی ہی کامیابی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ ان کے یہاں عقیدت کی گل پوشی اور فکر و عمل کی تازگی دونوں باہم شیروشکر ہوتی ہیں جس کی حلاوت روح تک اترتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کا ایک امتیازی وصف سادگی اور پرکاری بھی ہے وہ بڑی سے بڑی بات اور احسن خیالات نہایت سادگی سے پیش کردیتے ہیں ۔ پروفیسر محمد طلحہ لکھتے ہیں۔

’’وحید اشرف فن شاعری پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ وہ زبان و ادب کے مسلم الثبوت استاداور عروض و قواعد کے ماہر نکتہ داں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعرانہ مضمون آفرینی، فکری بادیہ پیمائی اور تخیلاتی اڑان کی بے سمتی نہیں ملے گی، ہاں جذبے کی گھلاوٹ، تصور کی پاکیزگی، تخیل کی لطافت، زبان کی صفائی و نفاست، بیان کی صداقت ضرور ملے گی۔ آپ کی نعتوں کی مروجہ ہیئت غزل ہی کی ہے مگر اس میں غزل کی پراگندگی و انتشار حتما ً نہیں ، ایک مہذب تسلسل اور موثر پیوستگی ملے گی۔ تازگی و شگفتگی، شیرینی و دل نشینی، ذوق و شوق کی فراوانی اور زبان محبت کی جادوبیانی ملے گی۔ ‘‘چند اشعار پیش نظر ہیں جن کا مطالعہ آپ کو مطمئن و شاد کرے گا۔ ۲۴۰؍صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۲۵۰؍روپئے ہے قارئین اسے مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ممبئی، دہلی اور علیگڑہ کے علاوہ محذوم سید اشرف جہانگیر اکادمی، ۱۷،کلیان سوسائٹی O/Sپانی گیٹ، بڑودہ۔ ۳۹۰۰۱۹۔ اور دانش محل لکھنؤاور راعی بکڈپو کٹرا الہ آباد سے حاصل کرسکتے ہیں۔

فلک تابع زمیں محکوم مہرو ماہ فرمانبر 

دلیل آیہ ٔ توحید و شان کبریا تم ہو 

دل نہیں گل ہے اگر عشق میں بریاں نہ ہوا   

 خاک ہے خاک اگر آدمی انساں نہ ہوا 

کوچہ ٔ طیبہ کے ذروں سے ہے تاروں میں چمک 

 کہکشاں چرخ پہ اس کے خس و خاشاک سے ہے 

آسماں پر جو چمک جاتا ہے بن کر تارا   

    قطرہ اشک مرے دیدہ ٔ نمناک میں ہے 

تبصرے بند ہیں۔