کیا پرینکا یوپی میں کانگریس کو مضبوط کر پائیں گی؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

الیکشن سے چند ماہ قبل پرینکا گاندھی کا لکھنؤ دورہ اہم مانا جا رہا ہے ۔ وہ اترپردیش اس وقت گئی ہیں جب بی جے پی انتخابی چورس پر مہرے بیٹھانے اور ایجنڈہ سیٹ کرنے میں لگی ہے ۔ بی جے پی ریاست کے ضلع صدر اور بلاک پرمکھ کی زیادہ تر سیٹوں پر قبضہ کر چکی ہے ۔ حالانکہ اس پر انتخابات میں بے ایمانی، دھاندلی اور غنڈہ گردی کرنے کے الزامات لگے ہیں ۔ یوپی میں بھاجپا کی بہتر کارکردگی کے لئے مودی جی یوگی کی اور یوگی ادتیہ ناتھ نریندر مودی کی تعریف کر رہے ہیں ۔ جبکہ یوگی جی کی کارکردگی پر بی جے پی کے دو سو سے زیادہ ممبران اسمبلی ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں ۔ کورونا بحران میں اترپردیش حکومت کا انتہائی خراب مظاہرہ پوری دنیا میں ملک کی بدنامی کا باعث بنا ۔ ایک طرف کورونا کی دوسری لہر قہر برپا رہی تھی ۔ وہیں دوسری طرف یوپی میں پنچایت چناؤ کرائے جا رہے تھے ۔ اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ کورونا سے متاثر ہوئے ۔ انتخابی ڈیوٹی پر تعینات کئی ہزار اساتذہ اور سرکاری عملہ موت کا شکار ہو گیا ۔ اس کی طرف سے دھیان ہٹانے کے لئے لوجہاد، تبدیلی مذہب اور اب آبادی کے مسئلہ کو اچھالا جا رہا ہے ۔ ریاستی حکومت قانون بنا کر دو سے زیادہ بچے والوں کو سرکاری ملازمت، پنچایت چناؤ لڑنے وغیره سے محروم کرنا چاہتی ہے ۔ یہ قدم وہ حکومت اٹھا رہی ہے ۔ جس کے اسمبلی میں اپنے آدھے ممبران کے دو سے زیادہ بچے ہیں ۔ یہ قانون اگلے سال یعنی اسمبلی انتخاب کے بعد نافذ ہوگا ۔ اس سے حکومت کی منشاء کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

ان حالات میں پرینکا گاندھی کے دورے نے کانگریس کے کارکنان میں جوش پیدا کیا ہے ۔ ان کے پروگراموں میں جمع ہوئی بھیڑ سے کارکنوں کا حوصلہ بلند ہے ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے بھی انہیں معقول جگہ دی ۔ سوال ہے کہ کیا کانگریس اس جوش کو الیکشن تک باقی رکھ پائے گی ۔ 2016 میں راہل گاندھی نے گاؤں کی یاترا نوئیڈا کے گاؤں بھٹہ پرسول سے شروع کی تھی ۔ انہوں نے بہت محنت کر کے کانگریس کے پرانے لوگوں کو گھر سے نکالا تھا ۔ یاترا کے اختتام پر بنارس میں وسیع ریلی کی گئی تھی ۔ اس میں سونیا گاندھی شریک ہوئی تھیں ۔ راہل گاندھی کی محنت کی وجہ سے یوپی میں کانگریس کے لئے ماحول بنا تھا ۔ اس وقت شیلا دکشت کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنایا گیا ۔ مگر نہ جانے کیوں شیلا جی کو اعتماد میں لئے بغیر کانگریس نے سماج وادی پارٹی سے گٹھ بندھن کر لیا ۔ نتیجہ کے طور پر کانگریس اپنی سیٹیں بھی نہیں بچا پائی اور دہائی کے اندر سمٹ گئی ۔

کانگریس کو اس کا نقصان 2019 کے پارلیمانی الیکشن بھی اٹھانا پڑا ۔ خود راہل گاندھی اپنی برسوں پرانی خاندانی سیٹ ہار گئے ۔ اس وقت پرینکا گاندھی مشرقی اور جیوتی رادتیہ سندھیا مغربی اترپردیش کے انچارج بنائے گئے تھے ۔ سندھیا انتخابی تشہیر بیچ میں ہی چھوڑ کر آگئے تھے ۔ جبکہ پرینکا گاندھی نے الہ آباد سے لے کر کانسی تک گنگا یاترا کرکے بڑی تعداد میں عوام سے رابطہ قائم کیا تھا ۔ اپر کاسٹ ہندو، دلت اور مسلمان کانگریس کے روایتی ووٹر تھے ۔ کانگریس کے اپنی لیک سے ہٹ کر بناوٹی(چھدم) سیکولرزم، سوفٹ ہندوتوا کو اپنانے کی وجہ سے اپر کاسٹ ہندو بی جے پی کے، دلت مایاوتی اور مسلمان سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی میں بٹ گئے ۔ پسماندہ (پچھڑے) کانگریس کے ساتھ کم تھے ۔ وہ چرن سنگھ کے بعد ملائم اور مایا وتی کے ساتھ ہو گئے ۔ بی جے پی کی سوشل انجینئرنگ اور اویسی کے میدان میں اترنے کی وجہ سے وہ بی جے پی کا حصہ بن گئے ۔ موجودہ دور میں کانگریس کا اترپردیش میں اپنا کوئی ووٹ بنک نہیں ہے ۔ پرانے کانگریسیوں نے نئے لوگوں کو ابھرنے نہیں دیا اور کانگریس سیوا دل بھی دھیرے دھیرے ختم ہو گیا ۔ اس لئے کانگریس کے پاس زمینی سطح پر کیڈر نہیں ہے ۔ جو اپنے لیڈروں کے پیغام نیچے تک لے جا سکے ۔

اس صورتحال میں سیاسی سیاحت سے کام چلنے والا نہیں ہے ۔ سون بھدر میں گولی چلی وہاں چلے گئے، ہاتھرس میں دلت بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی وہاں پہنچ گئے ۔ اب لکھیم پور کھیری میں خاتون کی ساڑی کھینچی گئی تو اس کے ساتھ پرینکا گاندھی نے کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا ۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کانگریس کو منصوبہ بند طریقہ سے اپنی قومی پہچان (سیکولرزم) کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا ۔ اس کے لئے پرینکا گاندھی کو لکھنؤ میں مستقل سکونت اختیار کرنی چاہئے ۔ 2019 میں کہا گیا تھا کہ وہ اب زیادہ وقت یوپی میں گزاریں گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ کانگریس کو اپنے کارکنوں کو گھر سے نکال کر ٹیم تیار کرنی ہوگی ۔ تاکہ قومی لیڈروں کے پیغام بر وقت عوام تک پہنچ سکیں ۔ یہیں سے کانگریس کو نئی لیڈر شپ ملے گی ۔ اس وقت یوپی میں بڑی تعداد ایسی ہے جو بی جے پی، سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی سے ناراض ہے ۔ ان کو کوئی نعم البدل نہیں مل رہا ہے ۔ اگر کانگریس مضبوطی سے کھڑی ہوتی ہے تو یہ غیر مطمئن لوگ اس کے ساتھ آ سکتے ہیں ۔

کورونا کے دوران صرف کانگریس بی جے پی سے لڑتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی ۔ لیکن کورونا کے واقعات کم ہونے کے ساتھ ہی کانگریس کی سرگرمی کم ہو گئی ۔ وہ جو بھی مہم شروع کرتی ہے کیڈر کی کمی کی وجہ سے کچھ دن میں وہ سرد پڑ جاتی ہے ۔ اس کا مقابلہ بی جے پی سے ہے جو مذہبی فرقہ واریت، ڈر، ذاتوں کی انجینئرنگ، دولت، بے ایمانی اور ہندوتوا کی سیاست کر رہی ۔ اس کا مقابلہ راہل پرینکا گاندھی کی نئی کانگریس ہی کر سکتی ہے ۔ جس میں سب کے لئے جگہ اور سب کے مسائل کو ترجیح دینا شامل ہے ۔ اس وقت کانگریس اپنے اندر پرانی کانگریس سے اور یوپی میں سماجوادی پارٹی سے لڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔ جبکہ اسے سیاسی روڈ میپ بنا کر بی جے پی سے مقابلہ کے لئے اپنے کو تیار کرنا چاہئے ۔ کانگریس کا راشٹر واد کا جو نرٹیو(بیانیہ) ہے اس پلیٹ فارم پر کانگریس کو آکر کھڑا ہونا ہوگا ۔ جو ایسا چھاتہ تھا جس کے نیچے سبھی ذاتیں، طبقے موجود تھے۔

اترپردیش کی وزیر اعلیٰ کے طور پر اگر پرینکا گاندھی کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس سے پارٹی کو مضبوطی مل سکتی ہے ۔ ٹھاکر گردی سے پریشان برہمن ووٹ کانگریس کے پاس واپس آ سکسکتا ہے ۔ ان کے آنے سے دلت اور مسلم ووٹروں کے آنے کا راستہ بھی صاف ہو جائے گا ۔ پھر اترپردیش میں قریب پندرہ فیصد ووٹ ایسے ہیں جو الیکشن میں ہوا کا رخ دیکھ کر ووٹ کرتے ہیں ۔ پرینکا گاندھی نے اپنے دورے کے درمیان گٹھ بندھن کا اشارہ دیا ہے۔ اگر کانگریس کا گٹھ بندھن ایسی جماعتوں سے ہو جاتا ہے جس سے دلت اور پچھڑوں کا کچھ ووٹ مل جائے تو اس سے کانگریس کی کارکردگی میں چار چاند لگ سکتے ہیں ۔ اس کا فائدہ اسے 2024 کے الیکشن میں بھی ملے گا ۔ یوپی میں کانگریس جتنی مضبوط ہوگی بی جے پی کو ہرانا اتنا ہی آسان ہوگا ۔ سیکولر لوگوں کی آج یہی فکر ہے کہ بی جے پی کیسے کمزور ہو اور کانگریس کس طرح مضبوط ہو کر ابھرے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ذات پر نہ بات پر مہر لگے ہاتھ پر۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔