عصری درسگاہوں کے طلبہ کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے

محمدصابر حسین ندوی

اسلام کا نظریہ مال و دولت کے تعلق سے یہ ہے ؛کہ انسان دنیاوی ثروت ودولت کا امین ہے، اوروارث حقیقی اللہ رب العالمین کی ذات اقدس  ہے، کیونکہ صرف اسی کی ذات ایسی ہے جس کو بقا وہمیشگی حاصل ہے، ’’کل من علیھافان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام‘‘(الرحمن:۶۔ ۲۷)، اسی لئے دولت کے ساتھ دل لگی کرنا یا اسے احکام الہی پر فوقیت دینا یا اس سے غرباء وفقراء کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنا گناہ ہے، چونکہ دولت بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے، جو ’’بقدر معلوم‘‘ ہر ایک کے پاس آتی جاتی ہے، ایسے میں ہرصاحب مال اپنے سے کم مال اشخاص کی فکر کرے، اس کی باز پرسی کرے اور اس کی ضرورت کا خیال رکھے، یہی وجہ ہے ؛کہ اسلام نے زکات، صدقات، وراثت اور اوقاف وغیرہ کے نظام کو بحال کیا ؛تاکہ ایک طرف فرد کی زندگی مصائب وآلام میں پھنس کر نہ رہ جائے، تو دوسری طرف ملکی معیشت میں کسی قسم کا رخنہ نہ پڑے، اور انسان کے رگوں میں دوڑتے خون کی طرح دولت بھی معاشرے میں جاری وساری رہے، کسی ایک کے ہاتھ مرتکز ہوکر نہ رہ جائے اور استعماری وسرمایہ دارانہ نظام کو فروغ نہ ہو۔

  مال ودولت کے اندر اگرچہ شریعت اسلامی نے بعض حقوق کو اختیاری درجہ میں رکھا ہے، جن پر عمل پیرا ہونا درجات کی بلندی اور سیآت کے ازالہ کا سبب ہیں ؛لیکن ایک خاص مقدار فقراء کی اصناف کو ادا کرنا فرض قرار دیا ہے، جسے زکات سے تعبیر کرتے ہیں، اور سال بھر میں ایک خاص مقدار پر، تمام اخراجات کے بعدکل مال کا صرف چالیسواں حصہ بے کوں اور ناداروں کے نام پرادا کرنا ہے، جس سے روگردانی پر سخت سزاوں کا وعدہ ہے، اور اس کی ادائیگی پر ’’متقی‘‘ کا پروانہ بھی ہے(بقرۃ:۱۷۷)، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے؛ کہ اللہ رب العزت نے خود قرآن کریم میں زکات کے احکام اور اس کے اصناف کی تعیین کی ہے، ایسے میں اگر ان اصناف کے علاوہ کو زکات دی گئی تو زکات دائیگی نہیں ہوگی، قرآن کریم کے بیان کردہ مصارف آٹھ ہیں، انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھا والمولفۃ قلوبھم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اللہ وابن السبیل، فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم’’زکاۃ تو حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا اور اس کے کام پر جانے والوں کا اور ان کا جن کی دلجوئی منظور ہے، اور غلاموں (کے آزاد کرنے)میں اور جو قرض داروں (کے قرض چکانے)میں اور اللہ کے راستہ میں اور مسافرکی ضرورت)میں (اس کو خرچ کیا جائے)اللہ کی طرف سے طے شدہ اور اللہ خوب جانتا بڑی حکمت رکھتا ہے‘‘ (التوبہ۶۰)اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے، اور زید بن حارثؓ کی طویل روایت میں آپؐ نے فرمایاکہ زکوۃ کی ادائیگی صرف انہیں مصارف میں ہوسکتی ہے، ’’ان اللہ لم یرض بحکم نبی ولاغیرہ فی الصدقۃ حکم ھوفیھا فجزأھا ثمانیۃ اجزاء فان کنت فی تلک الاجزاء اعطیتک حقک‘‘ (ابوداودـ: ۱۶۳۰)اسی طرح تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ غریب طالب علم بھی مستحق زکوۃ ہے، گرچہ کہ وہ کمانے پر قادر ہو، کیونکہ اس نے اپنے آپ کو حصول علم کیلئے فارغ کر لیا ہے (درالمختار:۲؍۳۴۳)، ابن عابدین نے بعض حنفیہ سے ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کی توجیہ میں حصول علم نقل کیا ہے(درالمختار:۲؍۳۲۳)۔

  درحقیقت یہی وہ ’’سبیل اللہ ‘‘ہے جو حالات و کوائف کے اعتبار سے توسع رکھتا ہے، چنانچہ علامہ نواب صدیق حسن خاں ؒ نے لکھا ہے کہ ؛سبیل اللہ کا بہترین مصرف اہل علم ہیں، کیونکہ ان سے مصالح دینیہ منسلک ہیں ’’ومن جملۃ’’سبیل اللہ‘‘:الصرف فی العلماء الذین یقومون بمصالح المسلمین الدینیہ فان لھم فی مال اللہ نصیبا ً سواً أکانوا أغنیائً او فقرائً، بل الصرف فی ھذہ الجھۃ من اھم الامور لأن العلماء ورثۃ الأنبیاء۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقد قال ؐ:لعمر لما قالہ لہ یعطی من ھو احوج منہ:(ماأتاک من ھذاالمال وأنت غیر مستشرف ولاسائل فخذہ ومالا فلاتتبعہ نفسک)‘‘(الروضۃ الندیۃ:۱؍۳۴۔ ۵۳۳)، علامہ ابو فارس نے طالب علم کو مجاہدوں کے مثل قرار دیا ہے اور مستحقین زکوۃ بتلایا ہے، ’’انہ حبس نفسہ لمجاھدتھا علی تعلم العلم وتعلیم الناس فدخل بھذا تحت المجاھدین الذین یستحقون سھم سبیل اللہ مع قدرتھم علی الکسب ‘‘(انفاق الزکاۃ فی مصالح العامۃ:ص۸۳۔ ۸۲)، اسی طرح حاشیہ طحطحاوی صفحہ نمبر ۳۹۲ میں ہے کہ طالب علم خواہ امیر ہو یا غریب چونکہ اس نے اپنے آپ کو علم کیلئے فارغ کرلیا ہے، اس لئے زکاۃ لینا درست ہے، ’’یجوز لطالب العلم الاخذ من الزکاۃ ولو کان غنیاً اذا فرغ نفسہ لافادۃ العلم واستفادتہ لعجزہ عن الکسب، والحاجۃ داعیۃ الی مالابدمنہ‘‘، اس سلسلہ میں مزید تفصیلی بحث ’’الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ:۲۸؍۳۳۷‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

  مذکورہ بالا بحثوں میں یا احادیث کے ذخائر میں کہیں ایسا نہیں کہ قرآن وحدیث سیکھنے والے ہی اہل علم ہیں یا صرف وہی خشیت الہی کے ذمہ دار ہیں اور انہیں کے علم سے خدا راضی ہوتا ہے یا سبیل اللہ سے صرف وہی مراد ہیں، البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ قرآن وحدیث اس کے لئے مضبوط ذریعہ ہیں، اور حضورؐ کا فرمان ’’رضاً لطالب العلم‘‘ کا حصول اس سے زیادہ ممکن ہے ؛تاہم دیگر علوم کی نفی نادانی کی علامت ہے، یہی وجہ ہے کہ متاخرین فقہاء نے عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ پر زکاۃ کی رقم صرف کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن اس کیلئے تین شرطیں لازم قرار دی ہیں :۔

۱۔ جو علم سیکھا جارہا ہے وہ شرعی اعتبار سے مباح ہو، اس میں غیر شرعی علوم سیکھنے والوں کیلئے اجازت نہیں۔

 ۲۔ مسلمانوں کو اس علم کی ضرورت ہو، لایعنی علم جس سے محض اپنا فائدہ منسلک ہو ایسوں کے لئے مناسب نہیں۔

  ۳۔ علم سیکھنے والا غیر مستطیع ہو، اور وہ کسب مال اور حصول علم میں موافقت سے قاصر ہو۔

  اس کی تائید عبداللہ بن عدی بن خیار کی ایک روایت سے ہوتی ہے، جب کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ مال زکوۃ تقسیم فرمارہے تھے، تو دو نوجوانوں نے زکاۃ کا مطالبہ کیا حالانکہ وہ مضبوط، طاقتور تھے، آپؐ نے اس وقت فرمایا تھا:’’ان شئتما اعطیتکما ولاحظ فیھا لغنی ولا لقوی مکتسب‘‘ یعنی اگر تم چاہو تو یہ مال لے سکتے ہو لیکن اس مال میں مالدار، طاقتور اور جو کمانے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس کیلئے کوئی حصہ نہیں (ابوداود: ۱۶۳۳، نسائی:۱؍۳۶۳۔ ۳۶۴، دارقطنی:۲۱۱)، علامہ یوسف القرضاوی دامت برکاتھم بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں اور زکوۃ کے موضوع پر شہرہ آفاق کتاب ’’فقہ ا لزکاۃ:۲؍۶۱۔ ۵۶۰‘‘میں مفصلاً بحث کی ہے، وہ لکھتے ہیں :’’المتفرغ للعلم یأخذ من الزکاۃ فاذا ما تفرغ لطلب علم نافع وتعذر الجمع بین الکسب وطلب العلم فان یعطی من الزکاۃ قدر مایعیینہ علی اداء مھمتہ ومایشبع حاجاتہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔

 دراصل ا س بحث کی ضرورت ا سلئے پیش آئی ؛کہ ہم نے علم کی بہت سی قسمیں کردی ہیں، دنیاوی ودینی کی تقسیم تو زبان زد ہے، نیز قرآن وحدیث کا طالب ’’من سلک طریقا یلتمس فیہ علما سھل اللہ لہ طریقا الی الجنۃ‘‘(مسلم:۱۳۸۲) کا مصداق ٹھہرا، اور عصری درس گاہوں میں جلوہ افروز شیطانی مجلس شوری کا رکن عزیر قرار پایا، حیرت کی بات ہے؛ کہ جس امت کیلئے صرف ’اقراء‘‘ ’کے ساتھ ’’ بسم ربک ‘‘ کی شرط لگائی گئی تھی، اور جس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو نافع وغیر نافع کی بنیاد پر تقسیم کیا تھا، بلکہ خود ہی اپنے ساتھیوں کو languagesکے سیکھنے، ہتھیاروں اور فوجی مشقوں کے کرنے کی ترغیب دی تھی، جس کے اسلاف نے یونانی فلسفہ کو پارہ پارہ کردیا تھا، اور علم کلام کو نئی بلندی عطا کی تھی، ایجادات اور تخریعات سے حیران وششدر کردیا تھا، ان کی طب اور سائنس کو یوروپ اور جدید مغرب استاذی کا درجہ دیتا ہے، الجبرا میں ان جیسا کوئی پیدا نہیں ہوا، سیاست دانی ان کے گھر کی لونڈی ہوا کرتی تھی، حکومتوں کو روند دینا اور اپنے علم وہنر کی بدولت مد مقابل کو شکست وریخت کردینا ان خاص مشغلہ ہوا کرتا تھا، ان کے وارثین اور جہاں آرائی وجہاں بینی کاحق رکھنے والے ایک ادنی دائرہ میں کیوں کر محدود ہوگئے؟اور زکات وخیرات کا خود کو مستحق ٹھہراکر اور مطلق عصری درس گاہوں پر شیطانیت کا تمغہ کیوں کر لگادیا، ؟حالانکہ مذکورہ بالا دلائل وبراہین سے یہ خیال بے غبار ہوجاتا ہے؛کہ عصر حاضر میں علمی میدان میں مسلمانوں کے حالات دیکھتے ہوئے مذکورہ شرائط کے ساتھ عصری علوم سیکھنے والوں کو بھی زکواۃ کی رقم کا مستحق ہوں، کیونکہ یہ ایک گونا ضرورت ہے، جو کسی فرد کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی ضرورت ہے۔

1 تبصرہ
  1. اقبال بوکڑا کہتے ہیں

    Good article

تبصرے بند ہیں۔