روحِ ایمان میں ابال کہاں
سالک ادؔیب بونتی
روحِ ایمان میں ابال کہاں
اس صدی میں حسیں مثال کہاں
…
چاک کردے جوپتھروں کا جگر
عصرِ نو!تجھ میں وہ کمال کہاں
…
عشق مانا حسیں نگر ہے مگر
لوٹ آنے کی کچھ مجال کہاں
…
جب سےتم بس گئےخیالوں میں
ہم کواپنابھی کچھ خیال کہاں
…
ہم کو معلوم ہے عداوت میں
پیار کا ہوگا احتمال کہاں
…
جستجو ان کی رنگ لائی ہے
ہجرکا ان کو کچھ ملال کہاں
…
یہ قرینہ ادؔیب لازم ہے
ہو خموشی کہاں سوال کہاں
تبصرے بند ہیں۔