قرآن اور اقبال

عالم نقوی

’قرآن اور اقبال‘ یہ مفکر جلیل اسرار عالم کےتازہ ترین مضمون کا عنوان ہے جو ان کی معروف عبقریت کا ایک اور اعلی نمونہ ہے اور ان کی آخری کتاب ’سر سید کی بصیرت ‘ کی اشاعت کے کئی برس بعد ’اقبال اکیڈمی دہلی ‘ کے ترجمان ’میرا پیام ‘ کے ساتویں شمارے کی زینت ہے۔ ہم ذیل میں اس کا لب لباب ممکنہ طور پر آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرار عالم اُمّت کے اُن گنے چُنے اہل ِعلم میں سے ہیں جو قرآن کو’مہجور‘ بنا کر رکھنے  کی دیرینہ  سازش کے خلاف عرصہ دراز سے قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔ حسب دستور اُمّت میں اُن کے مخالفین کی تعداد زیادہ اور اُن کے کام  کو تعقُّل، تفکُّر اور تدبُّر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرنے اور کسی بھی دیانت دارانہ تحقیقی کام کو حرفِ آخر نہ سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اِبنِ اِنشا نے کہیں لکھا ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیے جانے کی کوششیں کی جاتی تھیں اب وہ زمانہ آلگا ہے کہ ’کافر سازی کے کارخانے ‘جگہ  جگہ کھل گئے ہیں اور مسلمانو ں ہی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے والوں  کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اور دعویٰ یہ ہے کہ یہ کافر ساز  لوگ ہی ’نِخالِص ‘مسلمان ہیں !

اسرار عالم لکھتے ہیں کہ ’انیسویں صدی انسانی تاریخ میں عباقرہ کی صدی ہے‘۔ ہیگل، غالب، سر سید اور حالی کی طرح  اقبال بھی اِسی صدی (کے سال ۱۸۷۷)میں پیدا ہوئے۔ شیخ عبد ا لقادر نے کلیات ِاقبال کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’۱۹۰۵ سے ۱۹۰۸ تک اقبال کی شاعری کا ایک دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے جو انہوں نے یورپ میں بسر کیا۔ ۔ ۔اس زمانے میں دو بڑے تغیر ان کے خیالات میں آئے۔ ۔ایک دن شیخ اقبال نے مجھ سے کہا کہ اُن کا اِرادہ مُصَمَّم ہوگیا ہے کہ وہ شاعری کو ترک کر دیں لیکن۔ ۔۔آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق۔ ۔کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں ۔ ۔۔مگر دوسرا تغیر ایک چھوٹے سے آغاز سے ایک بڑے انجام تک پہنچا یعنی اقبال کی شاعری نے فارسی زبان کو اردو زبان کی جگہ اپنا ذریعہ اظہار بنا لیا۔ ‘‘

’’اُن کی دو مشہور نظمیں ’’مرزا غالب ‘‘ اور ’’سید کی لوح تربت ‘‘ ۱۹۰۸ کے بعد کے دور کی ہیں اور ۱۹۰۵ سے قبل اِن جیسی نظموں کا مَعرَضِ وَجود میں آنا بظاہر مُحال نظر آتا ہے۔ ‘‘

 لیکن یہ بھی حقیقت  ہے کہ  ’’جلوہ دانش ِفرنگ ‘‘ اُن کی آنکھوں کو اِن تین  برسوں کی جانفشانہ دِیدہ وَری کے باوجود  ’’خِیرَہ نہیں کر سکا‘‘ کیونکہ ۱۹۰۵ تک، اپنے والدین اور مولوی سید میر حسن جیسے مُخلصاور دیندار  اساتذہ کی محنتوں کی بدولت، اُن کی آنکھیں ، ’’خاک مدینہ و نجف ‘‘کے سرمے  کی عادی ہو چکی تھیں !

  یورپ کے قیام کے دَوران اُنہوں نے بہ چشم ِخود اُن حقائق کا مشاہدہ کر لیا جن کا تذکرہ وہ قرآن ِحکیم (البقرہ آیات ۴۲،۱۴۶آل عمران ۷۱ اور ۱۸۷نیز فٰصِلٰت آیت ۴۰ وغیرہ  ) میں پڑھ چکے تھے کہ یہود و نصاریٰ  نے اللہ کے دین، اللہ کی کتابوں (زبورو توریت و انجیل ) اور اللہ کے رسولوں (حضرات موسی و عیسی علیہم السلام وغیرہ  ) کے ساتھ کس کس طرح کھلواڑ کیا تھا۔ ہم عصر یورپی محققین کی کتابوں سے انہیں بہ تفصیل  پتہ چلا کہ یہود و نصاریٰ نے  اپنے رسولوں ، اللہ کے نازل کردہ دین اور کتابوں کے ساتھ  کس کس  طرح  کی تحریفات  اور کس قدر  جعل سازیاں  کی  تھیں یا انہیں ’مہجور ‘بنا رکھا تھا۔ اور خود مسلمانوں کےبڑے لوگ  کس طرح اُن کے نقش قدم پر چلے تھے یا چل رہے تھے  جس کی خبر نبی کریم ﷺکی صحیح  احادیث(بخاری، ترمذی، احمد اور ابو داؤد وغیرہ ) اور خود قرآن (سورہ فرقان آیت ۳۰ ) میں وہ پڑھ چکے تھے۔

انہوں نے قرآن حکیم  (النسا ۴۶،المائدہ۱۳، ۴۱، ۴۲،اور ۴۳البقرہ ۵۹، ۷۵ اور ۷۹ نیز النحل ۹۰ اور ۹۱ وغیرہ ) میں بنی اسرائل کے جرائم کے بارے جو کچھ اِجمالاً   پڑھ  رکھاتھااُس کی ایک  ایک تفصیل انہیں یورپی محققین کی کتابوں میں مل گئی۔ ظاہر ہے قرآن حکیم اور نبی کریم ﷺ کی بات جھوٹی کیسے ہو سکتی تھی جنہوں نے فرمایا تھا کہ ’’تم ان کے نقش قدم پر چل کے رہوگے جو تم سے پہلے ہوئے، ایک ایک بالشت، ایک ایک ہاتھ۔ ۔۔۔میری امت میں بھی وہی صورت حال طاری ہوگی جیسی بنی اسرائل پر ہوئی۔ ۔ایک قدم پر دوسرا قدم۔ ۔۔‘‘اور یہ گواہی خود قرآن میں درج ہے کہ قیامت کے روز ’’رسول کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو مہجور بنا ڈالا ‘‘اقبال نے کہا :

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی۔ ۔۔جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

’’اور یہی وہ وقت تھا جب اقبال اپنی زندگی کے سب سے بڑے بحران سے دو چار ہوئے اور انہوں نے شاعری ہی کو ترک کردینے کا فیصلہ کر لیا۔ ۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ وہ اپنے نئے انقلابی  خیالات کے اظہار کے لیے جو دین اللہ، کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں تھے، شاعری چھوڑ کر نثر کی جانب متوجہ ہونا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری میں یہ کام نہیں ہو سکتا۔  پھر کیا ہوا یہ آپ شروع میں  شیخ عبد ا لقادر کے بیان میں پڑھ چکے کہ اُنہیں اِس سے اختلاف ہوا چنانچہ آخری فیصلے کے لیے پورا معاملہ اُن کے بزرگ  دوست  پروفیسر تھامس آرنلڈ کے سامنے پیش ہواجو قرآنیات سمیت مشرقی علوم کے ماہر تھے جنہوں نے غیر معمولی غور و فکر کے بعد کمال ِ  دانش ا ور عظیم  حکمت پر مبنی یہ فیصلہ سنایا کہ ’اقبال کو شاعری نہیں ترک کرنی چاہیے ‘!

پروفیسر آرنلڈ جانتے تھے کہ کہ ’اقبال  سر سید کا دو آتشہ تھے ‘ ! سر سید کی نثر کے مقابلے میں  اقبال کی نثر کہیں زیادہ انقلابی اور قیامت خیز ہو سکتی تھی جو موجودہ مسلم دنیا کے لیے ناقابل برداشت ہوتی اور اقبال کی اصلاحی کوششوں کے لیے پہلے ہی مرحلے میں مہلک ثابت ہوتی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مسلم دنیا کی تاریخ میں  شاعری وہ واحد صنف ِ اِ ظہار رہی ہے جس میں ایسی انقلابی  اصلاحی  کوششوں  کی گنجائش نکل سکتی ہے اور اقبال کو اُن کے ذہنی سفر سے روک دینا بھی عالمِ اِنسانیت پر ظلم ِعظیم کے مترادف ہوگا لہٰذا اقبال اپنا فیصلہ واپس لیں۔

لیکن، اب اقبال کو دوسری دشواری کا سامنا ہوا، وہی جو غالب کو بھی درپیش تھی کہ اردو کا دامن ابھی اتنا وسیع نہ ہوا تھا کہ وہ اِس نوع کے انقلابی مساعی کے  اظہار کا  ذریعہ  بن سکے۔ لہٰذا، اُنہوں نے اردو کو ترک کیے بغیر عظیم تر انقلابی پیغامات کی ترسیل کے لیے فارسی کو ذریعہ  اظہار  بنا لیا۔ لیکن، ایسا بھی نہیں کہ انہوں نے اردو کو اپنے انقلابی  افکار سے بالکل ہی محروم  رکھا  ہو۔ انہوں نے کہا کہ:

مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ۔ ۔۔کہ میں ہوں محرم ِ رازِ درونِ مے خانہ

 کسی لاگ لپیٹ کے بغیر  امت مسلمہ عالمیاں کے  مرض  کی  جو تشخیص اقبال نے  سو سال قبل  کی تھی  آج بھی اکثریت کی درماندگی و پسماندگی کا سبب وہی ہے کہ :

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

اور یہ کہ۔ ۔:

قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے

اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دورکعت کے امام !

خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

اقبال کے نزدیک ’اصل ِ قرآن ‘ اور’ قرآنی  مؤمن‘ کی بازیافت ضروری ہے اس لیے کہ :

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول ِکتاب

گرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحب ِکشّاف

مطلب یہ کہ جب تک تم اس کیفیت سے نہ گزرو جس سے آنحضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ گزرے تھے تمہیں اسلام کے علمی ذخیرے کے موجودہ طومار  میں بھرے ہوئے رطب و یابس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اصل قرآن کی بازیافت مسلم دنیا میں رائج نصاب تعلیم اور قرآنی علوم کے نام سے معروف ذخیرہ علم کے ادراک سے ممکن نہیں ۔ صدیوں سے مسلم معاشرے پر  طاری فکری اور علمی بے حسی کا اصل سبب قرآنی زبان، قرآنی فہم اور قرآنی علوم کا زوال ہے۔قرآن کو مہجور بنا دینے والے مسلمانوں  ہی کو  اقبال نے  ’’فریب خوردہ شاہیں ‘‘ کہا ہے:

وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں

اُسے کیا خبر کہ کیا ہیں رہ و رسم شاہبازی !

 یہ امت قرآنی قیادت سے محروم ہے۔ مسلمانوں کے ’بڑوں ‘ کا ذہن صدیوں سے قرآن مخالف ہوکر ’’جرئتِ اندیشہ ‘‘  اور ’’ افکار ِ عمیق ‘‘ سے عاری ہو چکا ہے۔ اب اس پر ’’محکومی ‘‘، ’’ تقلید ‘‘اور ’’ زوالِ تحقیق ‘‘ کا تسلط ہے۔ :

حلقہ ِ شوق میں وہ جرئت ِ اندیشہ کہاں ۔ ۔۔آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق !

اقبال کی نظر میں امت کی بحالی  کے لیے درج ذیل  تین اُمور ناگزیر ہیں :

قرآنی زبان اور قرآنی فہم کی بحالی کے ذریعے قرآن کی بحالی۔

موجودہ رائج نصاب کی جگہ مکمل قرآنی نصاب کی بحالی اور

اس کے نتیجے میں اصل قرآنی علوم۔ ۔صداقت، عدالت، شجاعت اور امامت۔ ۔کی بحالی۔

اسی لیے اقبال کا پیغام، جس پر  پوری طرح عمل فی زمانہ مفقود  ہے، یہی ہے :

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ! ‘‘

تبصرے بند ہیں۔