ملک کے موجودہ حالات میں دعوت دین کی اہمیت

محمد فراز احمد

جماعت اسلامی ہند حلقہ تلنگانہ و اڑیسہ کی جانب سے ماہ دسمبر میں بڑے پیمانے پر دعوتی مہم منائی جانے والی ہے جس کی تفہیمی نشست دفتر حلقہ حیدرآباد میں منعقد ہوئی جس میں ریاست کے مقامی و ضلعی ذمہ داران کے علاوہ تمام ہی ذیلی تنظیموں کے ذمہ داران شریک تھے، راقم کو بھی اس میں شرکت  کا موقع ملا.

جناب سلیم انجینئر نے عربی خطبہ و تمہید کے بعد کہا کہ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے مہم منا رہے ہیں ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمارا بنیادی فریضہ ہے جسے ہم سب کو عمر بھر کرنا ہے. دعوت کا طریقہ کار اور اس کی حکمت علمی وغیرہ میں حالات کے تحت تبدیلی ممکن ہے لیکن دعوت کے کام کو چھوڑنا ممکن نہیں.

ملک کے حالات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ "یہ انسانی فطرت ہے کہ جب اس کی پسند کے خلاف حالات ہوتے ہیں تو وہ مایوس ہوجاتا ہے فکر مند ہوتا ہے،قرآن اور نبی صلعم کی تعلیمات ہم کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ ایسے ہی حالات میں دعوت کے کام کے لئے مواقع فراہم ہوتے ہیں اور آسانیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے کہ حالات کو آسان بنانے کے لئے اللہ نے دشمنوں کی چالوں کو بھی شامل کرلیا، وہ خود اسلام کو چرچہ میں لاتے ہیں، اپنی گفتگو کا عنوان بناتے ہیں . وہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہےہیں، نبی کی ذات اقدس کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں، یہ تمام کوششیں نئی نہیں ہیں، بلکہ ہر نبی کے دور میں یہ کوششیں ہوئی ہیں، اور ان مخالف کوششوں کے نتیجہ میں اللہ نے دعوت کے کام کو فروغ دیا. انبیاء کو مظلوم بنایا گیا، اور یہی مظلومیت ان کے تخت تک پہچنے کا ذریعہ بنی”.

 ہمیں اپنے دعوتی منصب کی ذمہ داری اس ملک میں ادا کرنی ہے.اسلام کو مختلف انداز سے ظالم اور نقصاندہ بنا کر پیش کیا گیا, باطل کسی نہ کسی کو اپنا دشمن بناتے ہیں تاکہ اپنا کام جاری رکھیں لیکن یہی چالیں دعوت میں مددگار ثابت ہوتی ہیں .

 مسلم ممالک میں جس طرح کے حالات ہیں وہ سب ہمارے سامنے ہیں، لیکن دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم یہ اندازہ لگائیں کہ اس ملک کا نظام، اسلامی ہے یا اس ملک کو دیکھ کر ہم اس کی مثال قائم کرسکیں . دنیا بھر میں اور ہمارے ملک میں بھی مسلمان کو دہشت گرد بتایا جارہا ہے.ہمارے ملک میں خود ملک کی تاریخ کو ہمارے خلاف استعمال کیا جارہا ہے. اس کو ذریعہ بنا کر جسمیں کہ بہت ساری غلط باتیں ہیں، پیش کرکے اسلام کا نام خراب کیا جارہا ہے، کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے، اسلام تشدد کرتا ہے وغیرہ. خاص طور سے گزشتہ تین سالوں سے ملک میں جو حکومت برسر اقتدار آئی ہے ان کا ایک خاص ایجنڈہ ہے، مسلمانوں کے لیے ان کی ایک خاص ذہنیت ہے، اب ان کو اقتدار مل چکا ہے وہ اپنے ایجنڈے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، 1947 میں جو تقسیم سے حاصل نہیں ہو سکا وہ اب اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو ایک خاص مذہب کا ملک بنانا چاہتے ہیں اور جو ان کا ساتھ نہ دیں وہ ان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور ان کے اس ایجنڈے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ملک کا دستور ہے جس میں مساوات ہے، اسی لیے وہ لوگ دستور پر حملہ کر رہے ہیں اور دستور کی بنیاد کو بدلنا چاہتے ہیں . یہاں کی شخصیتوں کو بدلا جارہا ہے ان کی جگہ دوسروں کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے.

یہ بات کہہ بھی سکتے ہیں کہ اس ملک کی جمہوری فضا کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے. آزادئ رائے کے حق کو ختم کیا جارہا ہے اور جو ان کے اس ایجنڈہ کے خلاف آواز اٹھائیں وہ ان کو ملک مخالف اور اینٹی نیشنل قرار دیتے ہیں .

  انسانی حقوق کے متعلق کہا کہ "اس ملک میں بہت عرصہ سے ذات پات کا نظام موجود ہے، مذہبی آڑ میں اچھوت بنادیا گیا ہے. لیکن اب وہ حقوق کاغذ پر تو آگئے ہیں لیکن زمین پر نہیں آئے. انسان کو جو تکریم اور عزت دی گئی وہ موجود تو ہے لیکن حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک کے دلت آدیواسی وغیرہ پر حملے ہو رہے ہیں ".

 نیشنلزم، کلچرل نیشنلزم کا جو نعرہ دیا جارہا ہے (اپنے علاوہ اور اپنے کلچر کے علاوہ دیگر لوگوں کو جو ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائیں، ان کو ملک دشمن کہا جائے) جس کے نتیجہ میں لوگوں میں قانون ہاتھ میں لینے کا نظریہ بن رہا ہے. جیسے کہ گائے کے نام پر لوگوں کا قتل اور تشدد وغیرہ. یہ ملک کے لئے بڑا چیلنج ہے. سب کو ساتھ لے کر کام کرنا ہے.

 ہمارے رویہ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ "ملک کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کبھی کبھی ہم اپنی ذمہ داری کو جو بحیثیت داعی ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے، ہم بھول جاتے ہیں، کبھی صرف مسلم مفاد تو کبھی لیفٹ کا منصوبہ ہماری باتوں سے جھلکتا. لیکن ہم کوہماری بنیادی ذمہ داری اور حیثیت کو قائم رکھنا چاہیے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عدم اعتدال کا شکار نہ ہوجائیں ".

  ہم کسی کو مکمل حریف اور مکمل حلیف نہ بنائیں . ہماری دعوت چھوٹے بڑے، کالے گورے، امیر غریب، عوام و خواص سب کے لیے ہے. کبھی کبھی ہم حالات، لوگوں اور دیگر نظریہ والوں سے مغلوب ہوجاتے ہیں . کبھی کبھی ہماری تصویر حزب مخالف کی ہوتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہم کو اصلاح کا کام کرتے رہنا چاہیے.

 قرآن ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے. اگر ہم غور سے اس کو قرآن میں تلاش کرنے کی کوشش کریں تو اللہ نے قرآن میں ایک ہی بات کو جگہ جگہ پر فرمایا ہے. انبیاء کے قصہ بتائے ہیں .

  ہمارے اندر یہ بات تو بہت ہوتی ہے لیکن عمل نہیں ہے کہ ہم ملک کے 130 کروڑ افراد کو اپنی قوم نہیں مانتے، ہم ان کو اپنے سے دور سمجھتے ہیں . لیکن "یا قومی” (ائے میری قوم) یہ داعی کا کام ہے، قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے. ہر فرد کی ہم دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں سورہ نوح میں فرمایا گیا اگر تم اللہ کا تقوی اختیار کروگے تو ہم آسمان سے بارش نازل کریں گے،اولاد دیں گے.

 انسان تو ایک ریسورس ہے. صلاحیتوں کاانبار ہے. خاص کر ہمارے ملک میں دعوت کا ایجنڈہ یہ ہونا چاہیے کہ مظلوم کی آواز بن جائیں، کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہے، یہ تو تمہاری پہچان کے لیے بنائے گئے ہیں، "در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے”.

   دوسرا یہ کہ کامیابی کا پیمانہ ہمارے پاس بالکل غلط ہے کامیابی کا پیمانہ مال و دولت، اقتدار، قوت نہیں ہے بلکہ قد افلح المومنون ہے، کامیابی کے پیمانے کو درست کرنا چاہیے.

تکریم انسانیت کے پہلو کو نمایاں کریں۔ مولانا محمد فاروق خان صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام اس لئے آیا کہ انسان کو بتایا جائے کہ انسان کتنا عظیم ہے، مدعو ہم سے بات کرکے اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے،لیکن ہمارا معاملہ الگ ہے کہ کسی سے بات کرتے ہیں تو اپنی بڑائی کرتے ہیں جس سے کہ بچنے کی خاص ضرورت ہے.

 اختتام پر کہا کہ "داعیانہ حیثیت ہماری اول ہے، جس کو ادا کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے” .

 اس پروگرام سے مختلف اکابرین نے خطاب کیا، مہم کنوینر نے دعوۃ مہم کی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کو مفصل انداز میں پیش کیا، ملک معتصم خان صاحب، لئیق احمد خان، محمد اظہر الدین، غوث الرحمن صاحب اور محترمہ ناصرہ خانم صاحبہ نے بھی خطاب کرتے ہوئے دعوۃ مہم کے دوران پیش آنے والے مسائل اور اس کی حکمت علمی وغیرہ کو پیش کیا. آخر میں امیر حلقہ حامد محمد خان صاحب کے رقت انگیز خطاب سے پروگرام کا اختتام ہوا.

تبصرے بند ہیں۔