امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال: بیماریاں اورعلاج

محمد فرید حبیب ندوی

اس وقت ہم مسلمانان ِ ہند جن مسائل سے دوچار ہیں اور جن اندیشوں اور خطرات سے گھرے ہوئے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہماری کوتاہیوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ۔ یہ تو نتائج ہیں جن کے پیچھے مہلک بیماریوں کا ہاتھ ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ’’ وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم ویعفو عن کثیر‘‘ [سورۂ شوری : 30] ( اور تم کو جوبھی مصیبت پہنچتی ہے ، وہ تمہارے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتی ہے ، اور اللہ تعالی بہت سی غلطیوں کو تو معاف فرمادیتاہے ) ، اس لئے جو حالات پیش آرہے ہیں ، ان میں سب سے بڑا دخل ہماری کوتاہیوں ، غفلتوں ، بداعمالیوں اور بدکرداریوں کاہے ۔ بیماریاں بہت سی ہیں ، جن کے علاج کی ہمیں ضرورت ہے ، بظاہر ان بیماریوں کی سنگینی کا ہمیں احساس نہیں اور موجودہ حالات سے ان کا کوئی تعلق ہماری سمجھ میں نہیں آتا؛ لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گناہوں کا ایک اثر ہوتا ہے ، جو ظاہر ہوکر ہی رہتا ہے ، اور جب کوتاہی اور غفلت شعاری کسی ایسی امت کی طرف سے ہو ، جسے انسانیت کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہو، تو مسئلہ اور بھی سنجیدہ ہوجاتا ہے ، اور پھر سستی اور غفلت کے نتیجہ میں اللہ تعالی اس طرح کے حالات پیدا کرتا ہے ، تاکہ وہ امت دوبارہ اس کی طرف پلٹ کر آئے اوراپنی مجرمانہ غفلت کا تدارک کرے۔ اس لئے اس حقیقت کا ادراک نہایت ضروری ہے کہ امت مسلمہ کا تعلق خداتعالی سے کمزور ہوچکا ہے ،اور خدا تعالی کا یہ تعلق ہی اس کا معاون ومحافظ ہوتا رہا ہے ۔ اب جب ایسے محافظ سے ہی ہم محروم ہوجائیں تو پھر شکست وریخت کا شکوہ کیوں کر ۔

اس لئے ضروری ہے کہ امت اللہ تعالی سے اپنا تعلق استوار کرے ،اور اپنے روگوں کا قرآن وسنت کی روشنی میں علاج کرے۔ جب تک ان بیماریوں کو دور نہ کیاجائے گا ،اور ان کا علاج نہ ہوگا، اس وقت تک حالات کے سدھرنے کا بھی کوئی امکان نہیں ۔ ہم نے صرف چند موٹی موٹی بیماریوں کا ذکر کیا ہے ، جن میں ہماری اکثریت مبتلاہے ، اور جن کا موجودہ حالات کے پیداہونے میں بہت بڑا کردارہے ،یہ وہ روحانی بیماریاں ہیں جن کو دور کرنے کی شدید ضرورت ہے ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں دیگر چیزوں پر توجہ نہیں دینی ہے ، وہ چیزیں بھی ضروری ہیں اور یہ بھی ، دونوں میں توازن ہوگا تب ہی ہماری کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوں گی ۔

1 ۔  مادیت پرستی :

  آج ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہر شخص دنیا کی دولت کے پیچھے پڑا ہے ، ہر ایک کی نگاہ میں نقد منافع کی اہمیت ہے ، جن اعمال کی بنیاد پر کل اجرملے گا، انہیں بالکل بے حیثیت سمجھ لیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے کی فکر میں ہے ، وہ اپنی موجودہ پوزیشن پر قانع نہیں ؛بلکہ جوکچھ اللہ تعالی نے اسے دے رکھا ہے ، وہ اسے گویا کم تر سمجھتا ہے اور ہمہ وقت اس میں اضافہ کی تگ ودو میں لگارہتا ہے ۔ دولت کمانا یا اس میں اضافہ کی کوشش کرنا کوئی معیوب بات نہیں ؛لیکن اس کے کچھ حدود ہیں ، انہی حدود میں رہ کر انسان حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ جیسا غنی اور مالدار بھی بن سکتا ہے ؛مگر افسوس یہ ہے کہ اس مادی نقطہ ٔ نظر نے تمام حدود کو پھلانگنا سکھادیا ہے ، اب ہر شخص اس فکر میں ہے کہ وہ دوسرے سے زیادہ مال دار ہوجائے ، ایک ریس ہے جس میں سب بھاگے جارہے ہیں ، نہ حلال حرام کی فکر ہے اور نہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال ۔ یہی وہ مرض ہے جس نے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان حد فاصل کو ختم کردیا ہے ۔ مسلمانوں کا یہ امتیاز تھا کہ وہ آخرت کے لئے جیتے تھے اور آخرت کے لئے ہی سب کام کرتے تھے ؛ مگر انہوں نے اپنے اس امتیاز کو ختم کرکے خود کو اسی رنگ میں رنگ لیا ہے ، جو غیر مسلموں کا رنگ ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : ’’ إنکم خلقتم للآخرۃ ‘‘ (اے مسلمانو ! تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے)۔دوسری حدیث میں فرمایا تھا :’’ الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر ‘‘ (دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ) ۔

 مادیت پرستی کی اس بیماری کا اندیشہ رسول اللہﷺ کو پہلے ہی تھا ، اسی لئے آپ نے صاف لفظوں میں فرمایا تھا : ’’إنی لا أخشی علیکم الفقر ، ولکن أخشی أن تبسط علیکم  الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم ، فتھلککم کما أھلکتھم ‘‘ ( مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ تم فقروفاقہ سے مارے جاؤگے ، لیکن مجھے یہ ڈر ضرور ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کردی جائے گی ، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی تھی ، پھر تم بھی اس کے جال میں پھنس کر اسی طرح ہلاک ہوگے ، جیسے اس نے تم سے اگلوں کو ہلاک کیا تھا ) ۔

 ضرورت ہے کہ ہم اس بیماری سے باہر آئیں ، اور وقتی نفع سے اوپر اٹھ کر دائمی اور اخروی فائدہ پر نظر رکھیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : ’’ بل تؤثرون الحیوۃ الدنیا، والآخرۃ خیر وأبقی‘‘[اعلی: 16-17](تم لوگ تو دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو(اور اسی کے فائدہ کے لئے دوڑتے بھاگتے ہو) حالانکہ آخرت زیادہ بہتر اور پائیدار ہے)۔

2 ۔  آخرت فراموشی اور بے احتسابی:

مادیت پرستی کا ہی نتیجہ آخرت فراموشی ہے ۔ آج ہم میں سے اکثر کا یہ حال ہے کہ کئی کئی ہفتے گذرجاتے ہیں ، اور ہمیں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ایک دن ہمیں خدا کے حضور پہنچنا ہے ، قبر کے مراحل سے گذرنا ہے اور آخرت کے سخت ترین دن سے نمٹنا ہے ، حدیث شریف میں ہے : ’’ لا تزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یسأل عن أربع : عن عمرہ فیما أفناہ ، وعن شبابہ فیما أبلاہ ، وعن مالہ من أین اکتسبہ وفیما أنفقہ ، وعن علمہ ماذا عمل فیہ‘‘۔ ( قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہِل نہ سکے گا، جب تک اس سے ان چار باتوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے اور وہ ان کا صحیح صحیح جواب نہ دے دے : عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کہاں کھپائی ، جوانی کہاں بسر کی ، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور جتنا علم تھا ، اس پر کہاں تک عمل کیا)۔

 یوں تو ضروری ہے کہ ہمہ وقت آخرت کا استحضار رہے ؛لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم اتناتو لازمی ہے کہ ہم ہر روز کسی خاص وقت -بالخصوص رات کو بستر پر لیٹے ہوئے – خدا تعالی کے سامنے جواب دہی کے بارے میں سوچیں ، اور ذرا تصور کریں کہ اگر وہ ہم سے حساب لینے لگا، تو ہمارا کیا بنے گا ۔ روزانہ کے اپنے اعمال کا جائزہ لیں ، کہ کتنے اچھے عمل کئے اور کتنے گناہ کئے ، اور سونے سے پہلے استغفار ضرور کریں ۔

3 ۔  خواہش پرستی :

 وہ لوگ جو آخرت کو بھی یاد رکھتے ہیں اور کبھی کبھی اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی کا احساس بھی ان میں پیدا ہوتا ہے ،اور وہ گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی بھی فکر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہ ہو ؛لیکن وہ اپنی خواہش اور ’’جی‘‘ کے آگے شکست کھاجاتے ہیں ۔ اذان کی آواز سن کر دل میں نماز پڑھنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے ؛لیکن محض اس وجہ سے مسجد نہیں پہنچ پاتے کہ ان کی خواہش پر بار ہوتا ہے اور ان کا ’’ مَن‘‘ نماز پڑھنے پر تیار نہیں ہوتا۔ اسی طرح کبھی ان کے دل میں گناہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے ،اور اللہ تعالی کا خوف بھی سامنے آتا ہے اور گناہ سے روکتا ہے ؛ لیکن پھر ’’جی‘‘اور ’’خواہش‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ گناہ کربیٹھتے ہیں ۔

اس طرح کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے ۔ جو اپنی خواہش کو اللہ کے احکام پر ترجیح دیتے ہیں اور اسلامی احکام کے آگے خواہش کے ہاتھوں شکست کھاجاتے ہیں ، ایسے لوگوں کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے :’’أفرأیت من اتخذ إلھہ ھواہ‘‘ [ فرقان: 43] (یعنی آپ نے اس کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ) ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان اپنے معبود کی بات مانتا اور اس کی اطاعت کرتا ہے ، اسی طرح بعض لوگ اپنی خواہش کے پیچھے چلتے ہیں ، جیسے ان کی خواہش ہی ان کے لئے معبود ہو ۔

 ایک اور جگہ خواہش پرستی اور نفس پرستی سے بچنے پر انعام کی بشارت دیتے ہوئے ارشادہے ’’ وأما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی ،فإن الجنۃ ھی المأوی ‘‘[نازعات: 40-41](اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ، اور اس نے نفس کو خواہش سے روکے رکھا ، تو جنت اس کا ٹھکانہ ہے)۔

 ایک حدیث میں آپ ﷺنے من مانی زندگی گذارنے والے کو ’’نکما‘‘ اور ’’ عاجز‘‘ قرار دیا ہے ، فرمایا: ’’ والعاجز من أتبع نفسہ ھواہ وتمنی علی اللہ ‘‘ (نکما ہے وہ شخص جو اپنے نفس کو اپنی خواہش کے پیچھے چلائے اور پھر اللہ پر تمنا باندھے (کہ وہ تو غفورورحیم ہے ، وہ معاف کردے گا، لیکن اس کے خوف سے گناہ سے نہ رکے)۔

 حدیث میں غورکیا جائے ، تو نکمے پن کا تعلق صرف دینی اور اخروی امور سے نہیں ؛بلکہ دنیاوی چیزوں سے بھی ہے ۔ جو شخص بھی اپنے ’’ مَن‘‘ کا غلام ہو ، وہ دنیا میں بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ ایک طالب علم اگر اس وجہ سے کہ پڑھنے جی نہیں کرتا ، تعلیم میں سستی کرے ، یا ایک تاجر اس وجہ سے کہ دوکان کھولنے پر دل آمادہ نہیں ، اپنی تجارت میں سستی برتے ، تو ظاہر ہے نہ وہ طالب علم کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ایسا تاجر خاطر خواہ فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔

 اس لئے اس بیماری سے بھی خود کو بچانے کی ضرورت ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب گناہ کرنے کا داعیہ پیدا ہو یا کسی فرض اور واجب کے ترک کا خیال آئے ، تو انسان اللہ تعالی کے سامنے حضوری اور جواب دہی کا تصور کرلے ، تو امید ہے کہ آہستہ آہستہ اس بیماری سے نجات ملے گی؛لیکن اس کے لئے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے ، آدمی یہ طے کرلے کہ میں آج کے بعد فلاں غلط کام کبھی نہ کروں گا، یا مثلاً نماز کبھی نہ چھوڑوں گا ، چاہے جی کرے یا نہ کرے ، تو ان شاء اللہ یہ مرض دور ہوتا چلاجائے گا، ہاں ،درمیان میں پھر کبھی کبھی خواہش کا تقاضا غالب آجائے اور پھر گناہ ہوجائے ، تو گھبرانے  کی ضرورت نہیں ۔انسان توبہ کرے اور دوبارہ پھر سے عزم مصمم کرلے ۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ انسان کے اندر حق وباطل اور نیکی وگناہ کی کشمش ہی نہ ہو اور ہمیشہ خیر ہی کا داعیہ پیدا ہو ، کبھی بھی گناہ کاخیال ہی نہ آئے ، یہ ممکن ہی نہیں ، اور اللہ تعالی کا یہ مطالبہ بھی نہیں ، وہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کا دھیان رکھے ، نیکی کرے تو بھی اس کا دھیان رکھے اور وہ اس طرح کہ اس کا شکر ادا کرے ،اور اگر گناہ ہوجائے تو بھی اس کا خیال رکھے ، اس طرح کہ اسے یاد کرکے اس کے سامنے دوقطرے آنسو کے گرادے اور معافی مانگ لے ۔

4 ۔   ذاتی مفاد :

 ایک بڑی بیماری ہماری یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنے تمام اعمال وافعال اور حرکات وسکنات کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس سے ہمارا کیا نقصان ہے یا ہمارا کیا فائدہ ہے ۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم اپنے ہر عمل کو اس حیثیت سے دیکھیں کہ اس سے امت کا کیا نفع اور کیا ضرر ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے ہمیں فرد سے زیادہ امت بنایا ہے ۔ ’’کنتم خیر أمۃ‘‘ [ آل عمران: 110](تم بہترین امت ہو) اور دوسری جگہ ہے : ’’وکذلک جعلناکم أمۃ وسطاً ‘‘ [ بقرہ: 143] (اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط -افضل امت- بنایا) ۔ پتہ چلاکہ ہماری دو حیثیتیں ہیں :ایک انفرادی اور ایک اجتماعی ۔ لہذا کوئی بھی ایسا عمل ہم نہ کریں ، جس میں ہمارا ذاتی فائدہ تو ہو؛لیکن امت کا نقصان ہو ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہوتا جس کا اثر صرف اس کی ذات تک محدود رہے ؛بلکہ اس کا اثر دوسروں تک ضرور پہنچتا ہے اور دوسرے لوگ لازماً اس سے متاثر ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک انسان اگر نماز نہیں پڑھتا تو وہ خود تو یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کا ذاتی فعل ہے ، نماز پڑھے یا نہ پڑھے ؛لیکن اگر غور کیاجائے تو اس کا اثر اس کے بیوی بچوں اور دیگر افراد پر بھی پڑتا ہے ، جب وہ نماز نہیں پڑے گا، تو اس کی دیکھا دیکھی اس کے بچے بھی نماز میں سستی کرنے لگیں گے ، یا اگروہ جھوٹ بولتا ہے ، تو اس کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسی گناہ میں ملوث ہوسکتے ہیں ۔

جب ایک ایسے عمل کا یہ حال ہے ،جو ایک حد تک ذاتی حیثیت رکھتا ہے ، تو ان اعمال کے بارے میں کیا کہاجائے ،جو سراسر اجتماعی امور سے متعلق ہوتے ہیں ۔اس لئے اپنے ذاتی مفاد سے بالا ہوکر ہمیشہ امت کا مفاد ملحوظ رکھیں ۔ ہماری حیثیت انفرادی سے زیادہ اجتماعی ہے ، ہم ایک زنجیر کی کڑیاں اور ہار کی لڑیاں ہیں ۔ اس لئے اگر ہمارے کسی عمل سے اس لڑی کے بکھرنے یا زنجیر کے ٹوٹنے کا خطرہ ہو ، تو ہم کوشش کریں کہ ایسا نہ ہونے پائے۔

 5 ۔   بے حیائی اور بے کاری:

اس وقت مسلمانوں میں ، بالخصوص نوجوانوں میں دیگر قوموں کی طرح بے حیائی اور اباحیت پسندی کا رجحان زوروں پر ہے۔ شرم وحیاء اور عفت وپاک دامنی کے الفاظ سے معاشرے خالی ہوتے جارہے ہیں ۔ قرآن میں بے شرمی اور بے حیائی پھیلانے والوں کو ’’لھم عذاب ألیم فی الدنیا والآخرۃ‘‘(دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب )سے ڈرایا گیا ہے۔

 اس بے حیائی کا ایک سنگین نتیجہ یہ ہے کہ امت کا ایک بڑا حصہ بے کاری میں مشغول ہے ۔ ان کاموں میں گھنٹوں گذاردیے جاتے ہیں ، جن میں نہ دین کا کوئی نفع ہوتا ہے اورنہ دنیا کا ۔بے حیائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے ریس ہوتی ہے ،اور جو جتنا زیادہ بے حیاء ہوتا ہے ، وہ خود کو اتنا ہی معزز سمجھتا ہے ۔ اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ عورتیں بھی بے حیائی میں نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ ہیں ؛بلکہ ان سے ایک بالشت آگے ہی ہیں ۔

 ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے بے حیائی پر عذاب کی دھمکی دی ہے ۔ اور جس معاشرہ کا یہ حال ہوجائے کہ اس کی اکثر تعداد ایسے ہی نازیبا کاموں میں زندگی بسر کررہی ہو ، تو اس پر اس طرح کے حالات نہیں آئیں گے ، تو کیا آسمان سے من وسلوی کا نزول ہوگا !!

  ضرورت ہے کہ معاشرہ سے اباحیت پسندی کے جذبہ کو دور کیاجائے اور عفت وپاک دامنی کے اصولوں پر اسے استوار کیا جائے ۔ اس لئے بچوں پر بالکل بچپن سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اور اس میں سب سے بڑا کردار والدین ادا کرسکتے ہیں ۔

 یہ تو ’’مشتے نمونہ از خروارے ‘‘ کے طور پر ہے ،ورنہ کون سی بیماری ہے ، جس میں ہم گرفتار نہ ہوں ،کون سا فرض ہے جس کی بے حرمتی نہ کی جاتی ہو اور کون سا حرام کام ہے جسے دھڑلے سے نہ کیا جاتا ہو ۔ پورا معاشرہ گناہوں کی دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے ۔اس لئے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اس کا ادراک کریں کہ یہ حالات ہمارے ان ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں ۔اور جب تک ہم ان سے چھٹکارا نہیں پائیں گے اور دوبارہ سے اللہ تعالی کے دربار میں اپنی سعادت مندی اور نیاز مندی کا اظہار نہیں کریں گے ، ہمارا ہر خواب ادھورا اور ناقص رہے گا ۔

تبصرے بند ہیں۔