موجودہ حالات اور مسلمان نوجوان!

شیخ فاطمہ بشیر

 اللہ تعالیٰ نے اس کرۂ ارض پر کروڑوں انسانوں کو پیدا کیا اور قیاـمت تک کرتا ہی رہے گا۔  ان انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے پیغمبروں کو بھیجا۔  ہر دور اور وقت میں پیغمبروں کا نزول ہوا۔    ان کے ساتھ کتابیں، صحیفے اور شریعت اتاری گئی۔  آخری پیغمبر الزماںحضرت محمدﷺ کو معجزہ  ’’القران الکتاب ‘‘  دیا گیا، اور رہتی دنیا تک کے لوگوںکے لیے یہ کتاب ،  آخری نظامِ حیات فرض قرار دے دی گئیں۔  او ر محمدعربیؐ کی شریعت آخری وقت تک کے لیے حتمی قرار دی گئی ۔  قرآن اور اس شریعت پر چلنا فرض اور ضروری قرار پایا۔  فلاح کا راستہ اس کتاب پر عمل اور شریعت کو اپنانے میں رکھا گیا۔  جہاں ایک طرف اس کتاب نے حلال اور پسندیدہ کاموں کی تفصیل بیان کیں تو وہیں حرام، ناپسندیدہ اور سزا کے مستحق کاموں اور لوگوں کے بارے میں بھی کھول کھول کر بیان کردیا۔  جہاں ایک طرف سماج کی ترقی کے پوشید ہ رازوں کو عیاں کیا تو وہیں بربادیٔ سماج کے اسباب بھی بیان کردیے۔  جہاں گھروں اور رشتوں کی مضبوطی کے بارے میں وضاحتیں دیں تو وہیں رشتوں اور گھروں کو توڑنے والے حالات کا تذکرہ مفصّل پیش کردیا۔  جہاں ایک طرف معاشی ترقی کی صورتیں پیش کیں تو وہیں دوسری طرف امیراور غریب طبقوں کے وجود میں آنے کی وجوہات بھی بیان کردیں۔  غرض زندگی کا ایک ایک سفر ،  زندگی کا ایک ایک مرحلہ،  زندگی کا ایک ایک قدم،  پیدائش سے موت تک،  بچپنے سے بڑھاپے تک،  کنوارہ پن سے شادی شدہ ہونے تک کی ہر تفصیل بِلا کسی جھجک اور روک ٹوک کے لوگوں کے سامنے پیش کردی گئی۔ جس انسان نے اِن باتوں پر عمل کیاوہیں اسکے لیے دنیا میں خیر و بھلائی کے ساتھ آخرت میں بھی جنّت کا وعدہ کرلیاگیا۔  لیکن جس نے بھی ان شرائط اور باتوں کو ٹھکرایا اور اسے پسِ پشت ڈال دیا،  شیطان کے کہنے پر عمل کیا،  اپنے نفس کو مانا تو اسکے لیے دنیا کی زندگی اجیرن کردی گئی۔  معاشرہ و خاندان برباد کردیا گیا،  سکون و چین کی سانسیں اور نیندیں اُڑادی گئی اور آخرت میں بھی عذاب کا ایک گڑھا اسکا مقدّر لکھ دیا گیا۔

 عزیز قارئین! !  ذرا اپنے اطراف نظر دوڑائیے اور جائزہ لیجیے کہ آج ہماری نوجوان نسل کے کیا حالات ہے؟ کسی بھی قوم کا بہترین سرمایہ اسکی نوجوان نسلیں ہو تی ہے ۔ آج پارسی قوم کے افراد تیزی سے ختم ہورہے ہیں کیونکہ اُن کے پاس بوڑھوں اور بچوں کی افرادی قوت ہیں، لیکن  اُن کے پاس نوجوانوں کا سرمایہ نہیں ہے۔  وہی دوسری طرف اگر مسلمان  قوم سے انکا موازنہ کیا جائے تو حالات بالکل برعکس ہے۔  حالات میں بہتری کی اُمّیدِنو ہے۔  لیکن بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہے کہ یہی نسل اور یہی طاقت ہماری قوم کا بیڑا غرق کر رہی ہے ۔  اِن کی نااہلی، بے را ہ روی، سستی و کاہلی اور فیشن کے شوق نے مسلم قوم کو بدنامی کی دہلیز پر کھڑا کیا ہے۔  اپنے اطراف نظر دوڑائیے اوردیکھیے کہ آج نوجوان کہاں مصروف ہیں؟  انکے مشاغل کیا ہیں؟   انکے شوقکیا ہیں؟   انکے معمولات کیا ہے؟  آج یہ ہمیں سڑکوں پر گھومتے ہوئے،  نکڑّوں پر وقت برباد کرتے ہوئے،  اپنی گاڑیوں کی نمائش کرتے ہوئے،کھیلوں کے میدانوں میں،  آوارہ گردی کرتے ہوئے یا اپنے موبائیل فون میں مَست نظر آتے ہیں۔انھیں دیکھ کر آنکھیں یقین کرنے سے قاصرہوتی ہے کہ کیا یہ وہی ہے جنھیں مستقبل میں ایک باپ کا کردار ادا کرنا ہے۔  باپ کی سختی اور شفقت میں بچوں کو پروان چڑھانا ہے۔

اِن کے حال کو دیکھ کر  امّتِ مسلمہ کا ماضی ذہنوں میں تازہ ہوجاتا ہے جہاں بڑے بڑے جرنیل، ہونہار سپہ سالار، جانباز مجاہدین، علماء و محدثین،مفسرین، سائنسداں اور محقیقین اُفق پر جگمگاتے ہوئے  نظر آتے ہیں۔  کیا یہ وہی ہے جن کے بزرگوں میں ایسے ایسینوجوان پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی جوانی کاایک ایک لمحہ قیمتی جانا،  اپنی جوانی میں  بڑے بڑے کام کر گزرے، کئی فتوحات حاصل کرلیں، قلیل مدّت میں اُس دور کے طاقتور علاقے اسلام کے سایے میں لا کھڑے کیے اور اُن فتوحات کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں مِل سکتی۔  اُنکی شخصیت اتنی باوقار اور وجیح تھی اور رعب و دبدبہ اس قدر تھا کہ دور سیکڑوں میل دوربیٹھی ہوئی قومیں اور افواج اُنکے نام سے تھرتھرا اُٹھتی۔  اُنکے سایہ سے شیطان بھی دور بھاگ جاتا۔  جس سرزمین پر یہ قدم رکھتے وہ جگہ اللہ کے حکم سے اُنکے قبضے میں آجاتی۔  اُنھوں نے جہاد میں ایسی حکمت ِ عملی اپنائی کہ سالہا سال گزرنے کے بعد بھی یورپی افواج اُن کا طریقـہـٔ کار جنگ میں استعمال کرتی رہیں۔  یہ تو ہمارے وہ بزرگان تھے جنھوں نے نہ کبھی اپنی جوانی برباد کی نہ انھیں بے کار کاموں میں خرچ کیا۔  انھوں نے جوانی کو  اللہ کی راہ میں صحیح جگہ اور  صحیح وقت استعمال کیا تو رہتی دنیا تک وہ اپنے نام تاریخ کے سنہرے اوراق پر چھوڑگئے۔   انھیں دنیا کا بھی فائدہ ہوا اور انشااللہ آخرت میں بھی جنت کے وہ حقدار رہیں گے۔

 لیکن آج کے نوجوانوں کو دیکھنے کے بعد عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے کہ کیا یہ اُنھیںکی نسل سے ہے جنھوں نے اپنی جوانی کا صحیح استعمال کرکے ایسے نام کمائے لیکن اس نسل نے اُس میراث کو پاؤں تلے روند ڈالا۔  آج مسلمان نسل کو دیکھ کر ہمیں خون کے آنسو پینے پڑتے ہیں۔  یہ کردار،  اخلاق،  تعلیم،  ادب و احترام اور ہر چیز سے بے بہرہ ہے۔  لیکن ان کے پاس سستی اور کاہلی وافر مقدار میں موجود ہے۔  فیشن پرستی اِن کا بہترین مشغلہ ہے۔  ان کی سستی و کاہلی کی مثالیں اتنی ہے کہ اسے ایک کتابی شکل بھی دی جا سکتی ہے۔  جس قوم پر دن میں پانچ وقت کی نمازیں،   وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔  اسی قوم کے نوجوان دن میں 12 بجے صبح کرتے ہیں۔   د وپہر 2 بجے ناشتے سے فارغ ہوتے ہیں۔  شام4 بجے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔  رات گئے تک دوستوں کی محفلیں ہوتی ہیں۔  کبھی سڑکوں پر،  کبھی سنیما گھروںمیں اور کبھی راستہ چلتی لڑکیوں پر فقرے کَس کر اور نعرے بازی کرکے رات12 بجے اِن کی گھر واپسی ہوتی ہے۔  پھر صبح 4 بجے تک سوشل میڈیا یا فلموں کا دور ہوتا ہے اور جب مساجد سے فجر کی اذانیں آسمان کی فضاؤں میں بلند ہوتی ہے،  تب اِنکی آنکھیں نیند کے لیے بند ہوتی ہے۔

سبحان اللہ! کتنا خوبصورت معمول کے جسکی نظیر کوئی دوسری قوم کے نوجوان کبھی پیش نہیں کرسکتے۔ فیشن کے یہ ایسے دلدادہ ہوگئے ہیں کہ اِس دوڑ میں نہ لڑکیوں نے کوئی کسر چھوڑی اورنہ ہی لڑکوں نے پیچھا رہنا مناسب سمجھا۔  جہاں لڑکوںپر زنانہ روپ دھارنے کا بھوت سوار ہوا وہیں لڑکیاں مردانہ کپڑوں میں اُنکے مدِّمقابل آگئی۔  اُنکے فیشن دیکھ کر آنکھیں ایک لمحے کے لیے اندازہ نہیں کر پاتی کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔  لڑکوں کو لمبے بالوں کا شوق چڑھا ،  یا کبھی انھوں نے سر پر چڑیا یا کوّے کا گھونسلہ سجالیا،  یا کسی نے لڑکیوں کی طرح زلفیں اور لٹیں نکال لیں۔  وہیں لڑکیاں چھوٹے  چھوٹے بال،  تنگ جینس اور  چھوٹے   شرٹس کے ساتھ اُنکے سامنے آگئیں ۔     لڑکوں کے کانوں میں بالیاں، راستوں کی صفائی کرتی ہوئی جینس، ہاتھوں میں کڑے، گلے میں چین، انگلیوں میں انگوٹھیاں اور اگر کسی مالدار باپ کی اولاد ہو تو بھنوؤں میں بالیاں بھی۔

 اخلاق و کردار پر بات کی جائے تو اِن سے زیادہ بداخلاق شایدہی کسی قوم کے نوجوان ہو۔  اِن کے بزرگوں کا یہ عالـم تھا کہ یہ جہاں جاتے وہاں کے لوگ اُن کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام کے دائرے میں داخل ہوجاتے۔  لیکن آج اِن کے اخلاق ایسے ہیں کہ خود اِن کی مائیں اور بہنیں راستوں پر اِنکے ساتھ چلنا پسند نہیں کرتیں۔  و الدین اپنی بچیوں کو اُن گلیوں سے جانے کی اجازتنہیں دیتے

جہاں  نکڑّوں پراس قوم کی نوجوان نسل تشریف فرما ہو۔  لڑکیوں پر فقرے کَسنا،  اُن پر کیچڑ اُچھالنا تو اِن کا محبوب ترین مشغلہ بن گیا ہے۔    راستوں کے کناروں پر بیٹھے نوجوانوں کی گھورتی ہوئی آنکھیں راہ چلتی برقع پوش لڑکیوں اور خواتین سے یہ کہتی ہے کہ،  کاش!  زمین پھٹ جائیں اور وہ اُس میں سما جائے۔  اخلاق کی ایک اور مثال اِس سے بہتر نہیں ہوسکتی کہ اُن کی باتیں  ’ابے،  تو،  تڑاخ‘  سے شروع ہوکر گالیوں پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔

 تعلیم سے اِنکی دوری اس حد تک ہے کہ ان کے  ’’مصروف‘‘  شیڈول کے تحت پڑھائی کا انھیں وقت نہیں ملتا۔  جس قوم کو  ’’اقراء‘‘  لفظ کے ذریعے سے وجود میں لایا گیا آج ان کی تعلیمی زبوں حالی پر خون کے آنسو رونا بھی کم ہے۔  مسابقتی امتحانات میں انکا تناسب  % 1  سے بھی کم ہے۔  ان کے پاس باتیں بہت سی ہیں لیکن ان پر عمل ندارد ہے۔  یہ نکّڑوں پر بیٹھے حکومت پر تنقید ضرور کرتے ہیں، حالات کا رونا ضر ور روتے ہیں لیکن اسکی بہتری کے لیے کسی طرح کا قدم اُٹھانا پسند نہیں کرتے۔  تعلیم ان کے لیے ایک تکلیف دہ موضوع ہے۔  جس قوم کی شریعت علم کے حصول پر جہاں بہت زور دیتی ہے، وہیں دوسری طرف اُس قوم کے نوجوانوں کے لیے تعلیمی بیداری پر خصوصی لیکچرس،  ورک شاپ اور پروگرامس منعقد کرنے پڑتے ہیں،  اسکے باوجود  اس نسل پر کوئی جوں تک نہیں رینگتی۔  اس قوم کے پاس تعلیم اور ایجادات کاجو بیش بہاں ورثہ موجود تھا،  ا نھوں نے اُسے گنوادیا۔  جس قوم کے اسلاف نے دنیا کو ہر طرح کا علم فراہم کیا آج وہی قوم اُن تمام علوم سے بے بہرہ ہے۔  یہ نہ اپنے ورثے کی حفاظت کرنا جانتی ہے اور نہہی حفاظت کرنا چاہتی ہے۔  جنھوں نے بھی اس ورثے کو سنبھالا آج وہ قومیںترقی کے میدانوں میں اونچائی پر ہے اور مسلمان  نوجوانان پستی اور گہرائی میں بیٹھے ان کی ترقی پر انگشت بدنداں ہے۔

 گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

  ثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

 مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنی آباء کے

جو دیکھے ان کو یورپ میں تو دِل ہوتا ہے سیپارہ

 انھوں نے نہ تو اپنے اسلاف کی تعلیمات ،  ترقیات اور ایجادات میں بہتری کی کوئی خاطر خوا ہ کوشش کی نہ اِنھیں ترقی یافتہ قوموں کے اُن نئے تعلیمی شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کی کسی طرح کی کوئی فکر ہے،  جنکی ترقی    اِنھیں حیران کرتی ہے۔

  تعلیم سے نکل کر ایک اور شعبے پر نگاہ دوڑائیے تو یہاں حالات کے جائزے کے بعد ہمیں شرم سے آنکھیں بند کرنی پڑے گی ،  لیکن  نوجوان نسل اس میں مصروف و مشغول ہے۔  بے راہ روی اور بے ہودگی کے طوفان میں یہ پیش پیش ہے۔  زنا کا ہر طرف طوفان کھڑا ہے۔  بے حیائی کا سیلاب بہہ رہا ہے اور یہ  نوجوانان اس میں بہہ رہے ہیں ،  اور خوشی اور شادمانی کے ساتھ بہتے ہی چلے جارہے ہیں۔  ان میں لڑکے اور لڑکیاں کوئی بچا نہیں ہیں۔  گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کا یہ کلچر جہاں بے ہودگی بڑھا رہا ہے،  وہیں معاشرہ کی بربادی کا بھی ذمّہ دار ہے۔   نوجوان نسل جلد نکاح کے لیے تیار نہیں ہے۔  والدین نے بیٹے کے  نکاح کی شرط ملازمت کے ساتھ اُنکے پیروں پر کھڑے ہونے کی رکھ دی،  تو وہیں لڑکیوں نے بھی اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نکاح کا حکم پسِ پشت ڈال دیا ہے۔  زنا ان کے لیے پسندیدہ بن گیا ہے۔  حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔  جہاں آج ایک کو چھوڑا وہیں دوسرے ہفتے یہ کسی اور کے ساتھ نظر آتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔  اس  بے حیائی کے دلدل میںلڑکے،  لڑکیاں دونوں بھی پھنستے چلے جارہے ہیں اور حالات کچھ اس طرح کا نظارہ پیش کر رہا ہے :

 نکاح کومعاشرہ نے مشکل کیا ہے

 زنا نے معاشرہ ہی برباد کیا ہے

 آج نوجوانوں کی ترجیحات صرف یہ رہ گئی ہے کہ اچھا پہن کر، بن ٹھن کر مخالف جنس کو رِجھایا جائے ۔  ان کے نزدیک ’’کا میابی  ‘‘  یہ نہیں کہ زمین پر اللہ کا نظام نافذ ہو،  یا آگے آنے والی نسلوں کی اچھی پرورش کے لیے غور و فکر کیا جائے یا تعلیم کے میدانوں میں پرچم گاڑے جائے۔  بلکہ ان کیلیے ’’کا میابی  ‘‘   مصداق ہے سڑکوں پر کھڑے رہ کر یا کالج کیمپس میں  لڑکیوں کو چھیڑنااور متاثر کرنا یا دوستوں کی محفلوں میں نام اونچا کرنا تاکہ سب ان کی سرداری مان کر سرِتسلیم خم کرے۔

 اگر ان باتوں پر قابو نہیں پایا گیا تو بعید نہیں کہ اس قوم کا انجام ایسا ہوگا جس کا تصوّر کرنا ممکن نہیں ہے۔ جہاں  نوجوان نسل کا سرمایہ تو موجودہے لیکن ترقی کی کوئی صلاحتیں نہیں ہے۔  حالات کی سنگینی ہمیں چیخ چیخ کر خوابِ خرگوش سے جاگنے کا حکم دے رہی ہے۔  اگر ان بے راہ رو نسلوں کی گود وںمیں آگے آنے والی اولادوںکی نشونما ہونی ہے،  تو اُن کی تربیت کیسی ہوگی اس بارے میں سوچنا ہمارے لئے بہت ہی مشکل ہے اور ا س بات کا اندازہ کرنا ہی محال ہے ۔  اُن مستقبل کی  نسلوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔  ہمیں شریعتِ اسلامیہ ،  قرآن اور احادیث کی  تعلیمات سے اِن تمام باتوں کا موازنہ کرنا ہوگا کہ ہم اور یہ نسل اللہ سے کس چیز کا معاہدہ کر رہی ہیں؟؟؟   حالات کو سنجیدگی سے دیکھنے،  سوچنے،  سمجھنے اور بدلنے کی ضرورت ہے۔

1 تبصرہ
  1. حمدان کہتے ہیں

    آپ نے اتنی چھوٹی عمر میں بہت خوب کام کیا ہے۔ میری نیک خواہشات ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔
    (اصل تبصرہ انگریزی میں کیا گیا۔ مدیر)

تبصرے بند ہیں۔